Islam Times:
2025-09-18@13:19:10 GMT

مجرم کو سزا دو

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

مجرم کو سزا دو

اسلام ٹائمز: قابض اسرائیل کے بہیمانہ حملوں کے نتیجے میں اب ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید و لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، اسوقت 11 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے جبری بے دخل کیے جا چکے ہیں اور قحط کے باعث کئی معصوم زندگیاں دم توڑ چکی ہیں۔ ایران کیخلاف اسرائیل اور امریکہ کی حالیہ جارحیت کے تناظر میں یہ بڑے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کیجانب سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے، اس میں امریکہ کا کردار ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کیخلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان جاری کرکے غزہ پٹی میں صیہونی حکومت اور امریکہ کے جرائم میں امریکی صدر کے کردار پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے ہفتہ کے دن اپنے ایک بیان میں غزہ پٹی میں انسانی امداد کی تقسیم کے مقامات پر صیہونی حکومت اور امریکہ کے جرائم میں ٹرمپ کے براہ راست کردار پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ  صیہونی جرائم کے لیے سیاسی اور سکیورٹی کور فراہم کرکے براہ راست قانونی اور مجرمانہ اقدامات کا ذمہ دار ٹھرتا ہے، ٹرمپ سمیت ان جرائم میں شریک تمام افراد کے لیے بین الاقوامی سطح پر ٹربیونل بنا کر ان حکام کا احتساب کرنا چاہیئے۔

ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی اس درخواست کے مغربی ایشیا میں بین الاقوامی تعلقات اور امریکی پالیسیوں پر اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک ممتاز سیاسی شخصیت کے طور پر مقدمہ چلنا امریکی حکومت اور صیہونی حکومت پر دباؤ بڑھانے سے غزہ میں انسانی حقوق کی صورتحال کی طرف عالمی توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کی صبح جنوبی غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے رفح میں امدادی تقسیم کے مقام پر فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 30 شہری ہلاک اور 180 سے زائد زخمی ہوگئے۔ گذشتہ دو مہینوں میں، اسرائیلی فورسز اور امریکی سکیورٹی ایجنٹوں نے امداد کی تقسیم کے مقامات پر کم از کم 829 فلسطینیوں کو شہید اور تقریباً 5500 افراد کو زخمی کیا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے امدادی شعبے کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کا غزہ میں خوراک کی رسائی کو روکنا جنگی جرم ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح زبردستی روکنا فلسطینی شہریوں کو بھوک سے مارنے کی کوشش ہے جو کہ ایک جنگی جرم ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ذمہ دار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اسرائیل نے تین ماہ تک خوراک کی ترسیل کی مکمل ناکہ بندی کے بعد انتہائی معمولی مقدار میں خوراک غزہ میں پہنچانے کی اجازت دی، مگر وہ بھی خوراک تقسیم کرنے کے ایک نئے نظام کے ساتھ دی جو افراتفری اور خوفناک مناظر کے سامنے آنے کا نظام ثابت ہوا۔ اس نئے نظام میں اقوام متحدہ کو انسانی بنیادوں پر خوراک تقسیم کرنے سے الگ کر دیا گیا ہے۔

ٹام فلیچر نے بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں بتایا ہم دور سرحدوں پر بیٹھے خوراک کے انبار دیکھتے ہیں، مگر سرحد کے دوسرے پار یعنی غزہ میں لاکھوں کی تعداد میں تقریباً پوری آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں امدادی سامان منتقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا اسرائیلی وزراء کو ہم یہ کہتے ہوئے سن رہے ہیں کہ غزہ کی آبادی کو دباؤ میں لانا ہے۔ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو غزہ سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے خلاف بھی انتباہ دیا، ان کا کہنا تھا کہ جبری نقل مکانی کی اس پالیسی کی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے انتہاء پسند ارکان نے وکالت کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی محصور اور جنگ زدہ پٹی میں بھوک کو قابض اسرائیل کی طرف سے ایک منظم جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انروا کے مطابق خوراک کی سنگین قلت کے باعث لوگ سڑکوں پر بے ہوش ہو رہے ہیں اور پینے کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں۔ ایک حالیہ بیان میں "انروا" نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی فوری طور پر اور محفوظ طریقے سے انسانی امداد غزہ تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ "انروا" نے زور دیا کہ خوراک اور پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے لاکھوں فلسطینیوں تک امداد کی رسائی کو یقینی بنانا اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔

ادارے نے یاد دہانی کرائی کہ ماضی میں غزہ بھر میں 400 امدادی تقسیم مراکز کام کر رہے تھے، جو اقوام متحدہ، انروا اور دیگر انسانی تنظیموں کی نگرانی میں غزہ کے شہریوں کو خوراک، پانی اور دیگر بنیادی ضرورتیں فراہم کرتے تھے۔ انروا نے غزہ میں کام کرنے والی ایک اسرائیلی حمایت یافتہ نام نہاد امدادی تنظیم کے طریقہ کار کو "ذلت آمیز” قرار دیا۔ ادارے کے مطابق، بھوک سے نڈھال افراد کو محض ایک روٹی یا معمولی خوراک حاصل کرنے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اکثر اوقات انہیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ اب تو خوراک کے لیے اکٹھے ہونے والے بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر حملے بھی روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔

قابض اسرائیل کے بہیمانہ حملوں کے نتیجے میں اب ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید و لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، اسوقت 11 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے جبری بے دخل کیے جا چکے ہیں اور قحط کے باعث کئی معصوم زندگیاں دم توڑ چکی ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کی حالیہ جارحیت کے تناظر میں یہ بڑے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے، اس میں امریکہ کا کردار ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مقدمہ چلانے کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ اور امریکہ بھوک سے کے خلاف کیا جا کے لیے

پڑھیں:

آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنیوالے ممالک کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ

اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آزاد ماہرین نے شواہد پیش کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ آئرلینڈ کے صدر نے اسی رپورٹ کے تناظر میں کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والوں کی رکنیت ختم کرنے پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ آئرلینڈ کے صدر مائیکل ڈی ہیگنز نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل اور وہ ممالک جو اسے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں، انھیں غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اقوام متحدہ سے خارج کر دینا چاہیئے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آئرلینڈ کے صدر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے آزاد ماہرین کی حالیہ رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آزاد ماہرین نے شواہد پیش کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ آئرلینڈ کے صدر نے اسی رپورٹ کے تناظر میں کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والوں کی رکنیت ختم کرنے پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی ختم کر دینے چاہیئے۔ یہ غزہ میں ہم جیسے انسانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی حکومت نے غزہ شہر میں ٹینک اور زمینی فوج تعینات کر دی۔ ادھر یورپی کمیشن نے بھی رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعاون ختم کر دیں اور اس کے انتہاء پسند وزراء پر پابندیاں عائد کریں۔ واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والوں کی تعداد 65 ہزار کے قریب پہنچ گئی، جبکہ دو لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی زمینی کارروائی جاری، غزہ میں انٹرنیٹ اور فون سروسز معطل
  • اگست کے دوران ٹیکسٹائل، خوراک، پیڑولیم اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز کی ایکسپورٹ میں کمی
  • غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ
  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنیوالے ممالک کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • بلوچستان میں محکمہ خوراک کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم
  • محکمہ خوراک کے پاس ذخیرہ ختم، بلوچستان میں گندم کا بحران شدت اختیار کر گیا
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • سپریم کورٹ: تہرے قتل کے مجرم اورنگزیب کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا