اسلام ٹائمز: قابض اسرائیل کے بہیمانہ حملوں کے نتیجے میں اب ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید و لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، اسوقت 11 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے جبری بے دخل کیے جا چکے ہیں اور قحط کے باعث کئی معصوم زندگیاں دم توڑ چکی ہیں۔ ایران کیخلاف اسرائیل اور امریکہ کی حالیہ جارحیت کے تناظر میں یہ بڑے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کیجانب سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے، اس میں امریکہ کا کردار ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کیخلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
 یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان جاری کرکے غزہ پٹی میں صیہونی حکومت اور امریکہ کے جرائم میں امریکی صدر کے کردار پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ نے ہفتہ کے دن اپنے ایک بیان میں غزہ پٹی میں انسانی امداد کی تقسیم کے مقامات پر صیہونی حکومت اور امریکہ کے جرائم میں ٹرمپ کے براہ راست کردار پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ  صیہونی جرائم کے لیے سیاسی اور سکیورٹی کور فراہم کرکے براہ راست قانونی اور مجرمانہ اقدامات کا ذمہ دار ٹھرتا ہے، ٹرمپ سمیت ان جرائم میں شریک تمام افراد کے لیے بین الاقوامی سطح پر ٹربیونل بنا کر ان حکام کا احتساب کرنا چاہیئے۔
 
 ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی اس درخواست کے مغربی ایشیا میں بین الاقوامی تعلقات اور امریکی پالیسیوں پر اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک ممتاز سیاسی شخصیت کے طور پر مقدمہ چلنا امریکی حکومت اور صیہونی حکومت پر دباؤ بڑھانے سے غزہ میں انسانی حقوق کی صورتحال کی طرف عالمی توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کی صبح جنوبی غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے رفح میں امدادی تقسیم کے مقام پر فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 30 شہری ہلاک اور 180 سے زائد زخمی ہوگئے۔ گذشتہ دو مہینوں میں، اسرائیلی فورسز اور امریکی سکیورٹی ایجنٹوں نے امداد کی تقسیم کے مقامات پر کم از کم 829 فلسطینیوں کو شہید اور تقریباً 5500 افراد کو زخمی کیا ہے۔
 
 ادھر اقوام متحدہ کے امدادی شعبے کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کا غزہ میں خوراک کی رسائی کو روکنا جنگی جرم ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح زبردستی روکنا فلسطینی شہریوں کو بھوک سے مارنے کی کوشش ہے جو کہ ایک جنگی جرم ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ذمہ دار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اسرائیل نے تین ماہ تک خوراک کی ترسیل کی مکمل ناکہ بندی کے بعد انتہائی معمولی مقدار میں خوراک غزہ میں پہنچانے کی اجازت دی، مگر وہ بھی خوراک تقسیم کرنے کے ایک نئے نظام کے ساتھ دی جو افراتفری اور خوفناک مناظر کے سامنے آنے کا نظام ثابت ہوا۔ اس نئے نظام میں اقوام متحدہ کو انسانی بنیادوں پر خوراک تقسیم کرنے سے الگ کر دیا گیا ہے۔
 
 ٹام فلیچر نے بی بی سی کو اپنے انٹرویو میں بتایا ہم دور سرحدوں پر بیٹھے خوراک کے انبار دیکھتے ہیں، مگر سرحد کے دوسرے پار یعنی غزہ میں لاکھوں کی تعداد میں تقریباً پوری آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں امدادی سامان منتقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا اسرائیلی وزراء کو ہم یہ کہتے ہوئے سن رہے ہیں کہ غزہ کی آبادی کو دباؤ میں لانا ہے۔ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرم ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو غزہ سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے خلاف بھی انتباہ دیا، ان کا کہنا تھا کہ جبری نقل مکانی کی اس پالیسی کی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے انتہاء پسند ارکان نے وکالت کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔
 
 ادھر اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی محصور اور جنگ زدہ پٹی میں بھوک کو قابض اسرائیل کی طرف سے ایک منظم جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انروا کے مطابق خوراک کی سنگین قلت کے باعث لوگ سڑکوں پر بے ہوش ہو رہے ہیں اور پینے کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں۔ ایک حالیہ بیان میں "انروا" نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی فوری طور پر اور محفوظ طریقے سے انسانی امداد غزہ تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ "انروا" نے زور دیا کہ خوراک اور پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے لاکھوں فلسطینیوں تک امداد کی رسائی کو یقینی بنانا اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔
 
 ادارے نے یاد دہانی کرائی کہ ماضی میں غزہ بھر میں 400 امدادی تقسیم مراکز کام کر رہے تھے، جو اقوام متحدہ، انروا اور دیگر انسانی تنظیموں کی نگرانی میں غزہ کے شہریوں کو خوراک، پانی اور دیگر بنیادی ضرورتیں فراہم کرتے تھے۔ انروا نے غزہ میں کام کرنے والی ایک اسرائیلی حمایت یافتہ نام نہاد امدادی تنظیم کے طریقہ کار کو "ذلت آمیز” قرار دیا۔ ادارے کے مطابق، بھوک سے نڈھال افراد کو محض ایک روٹی یا معمولی خوراک حاصل کرنے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اکثر اوقات انہیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ اب تو خوراک کے لیے اکٹھے ہونے والے بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر حملے بھی روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
 
 قابض اسرائیل کے بہیمانہ حملوں کے نتیجے میں اب ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید و لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، اسوقت 11 ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے جبری بے دخل کیے جا چکے ہیں اور قحط کے باعث کئی معصوم زندگیاں دم توڑ چکی ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کی حالیہ جارحیت کے تناظر میں یہ بڑے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے، اس میں امریکہ کا کردار ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقدمہ چلانے کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ اور امریکہ بھوک سے کے خلاف کیا جا کے لیے
پڑھیں:
فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-7
جاوید انور
حالات حاضرہ اور عالمی و علاقائی جیو پولیٹکس میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بنایا ہوا نام نہاد امن معاہدہ دراصل فلسطین کے مکمل خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت کا معاہدہ ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اور حماس کو نہتا کرنا اس کی پہلی سیڑھی ہے۔ جس میں اب تک ایک حاصل ہو چکا ہے۔ قطر، مصر، اور ترکی نے حماس کے قائدین کو یرغمال بنا کر جس معاہدے پر دستخط کروائے ہیں، اس میں بھی حماس نے غیر مسلح ہونے کی شرط قبول نہیں کی ہے۔ حماس کے پاس وہ اسرائیلی قیدی جو اسرائیلی بمباری میں عمارتوں کے ملبہ میں دبے ہوئے ہیں، انہیں ہزاروں ٹن ملبے میں ان کی دبی لاشیں نکالنا ناممکن ہے۔ اسرائیل یہ بات پہلے سے سمجھتا ہے۔ وہ حماس کو اس کے ضروری آلات و مشینری بھی مہیا نہیں کر رہا ہے۔ اور انہیں مردہ قیدیوں کی رہائی نہ ہونے پر دوبارہ فلسطین پر حملہ، اور نسل کشی کو جاری رکھنے کا بہانہ بنا رہا ہے۔ اور اب اسے امریکا کو دوبارہ حملے کے لیے منانا رہ گیا ہے۔ اگر یہ کام ہو گیا تو بہت جلد اسرائیلی حملے شروع ہو جائیں گے۔
تاہم اب اسرائیل بالکل ننگا ہو کر دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس نے جتنے بھی مظالم اور نسل کشی کو چھپانے کے لیے ساری دنیا میں چادریں تانی تھیں، ان کی مضبوط لابی، سیاست، صحافت، دولت، اور پروپیگنڈے کی تمام مشینری فیل ہو رہی ہے۔ آج اسرائیل کی سب سے زیادہ مخالفت مسلم دنیا میں نہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور یورپ میں ہو رہی ہے۔ آزاد انسانوں کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہو رہا ہے۔ صہیونی اسرائیل حمایتی اخبار نیو یارک ٹائمز میں بغاوت ہو چکی ہے۔ اس کے تین سو صحافیوں نے اخبار میں لکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور یہ بڑی تعداد ہے۔ ان لوگوں نے کہا ہے کہ جب تک اخبار یہ اداریہ نہ لکھے کہ امریکا اسرائیل کی فوجی امداد بند کرے، وہ اخبار میں واپس نہیں آئیں گے۔ یہ اس صدی کی صحافتی دنیا کی سب سے بڑی خبر ہے۔ 174 سال پرانا یہ اخبار جو واقعات کی پوری تاریخ ریکارڈ کرنے کا اکلوتا دعویٰ دار ہے اور ’’نیوز پیپر آف ریکارڈ‘‘ کہلاتا ہے، اور جس نے اسرائیل کی حمایت کی پالیسی کو باضابطہ ادارہ جاتی پالیسی (Institutionalized) بنایا ہوا تھا۔ اسی اخبار نے عراق میں ’’انبوہ تباہی کے ہتھیار‘‘ کی جھوٹی خبروں کو پھیلا کر امریکی رائے عامہ کو ’’ایجاد‘‘ کیا تھا۔ اور عراق پر بمباری کرائی۔ صدام حکومت کا خاتمہ کرایا۔ اب یہ اخبار خود پھانسی پر چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ یہودی اسرائیلی لابی اس کی حمایت کرے گی۔ لیکن اس کا وقار اب خاک میں مل چکا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا جو فلسطین دھوکا دہی کا پلان ہے اسے پاکستان، سعودی عرب، اردن، امارات، قطر، ترکی، اور مصر کے منافق حکمرانوں کی طرف سے قبول کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب فلسطین کی واحد سیاسی اور فوجی قوت حماس کو کچلنے کے لیے متحد ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل اخوان کو کچلنے کے لیے یہ لوگ بشمول اسرائیل مصری آمر کی مدد کر چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کے قتل عام پر انہیں بلینز آف ڈالرز ملے تھے۔ اب یہ لوگ اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس کا خاتمہ چاہتے ہیں جو اس وقت فلسطین کی واحد زندہ سیاسی اور فوجی طاقت ہے۔
اخوان اور حماس انہیں اس لیے دشمن نظر آتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اسلامی نظامِ سیاست اور حکومت کے مدعی ہیں جس سے مسلم دنیا کے سارے ملوک، فوجی آمر، اور جمہوری بادشاہ، اور فوجی بیساکھی پر چلنے والی جعلی جمہوریتیں خوف کھاتی ہیں۔ اور خود کچھ نہیں کر سکتے تو انہیں اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں مروانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل کی قبولیت کی مہم ہے اور امریکا کو بلینز آف ڈالر کے تحائف دیے گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں سارے بے شرم الشیخ جمع ہوئے۔ شہباز شریف نے ٹرمپ کو سیلوٹ کیا اور بے غیرتی کے تمام حدود کو عبور
کیا۔ مسٹر شریف نے برصغیر اور فلسطین میں ’’ملینز آف پیپلز‘‘ کی ’’جان بچانے‘‘ پر ایک بار پھر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزدگی کا اعلان کیا۔ شراب خانے کے ساقی کا اور ہوٹل کے کسی بیرے کا کردار بھی اس سے کہیں اچھا ہوتا ہے۔ نوبل ایوارڈ دینے والی تنظیم کو چاہیے کہ وہ اپنے ایوارڈ میں ’’بے غیرتی‘‘ کا ایوارڈ کا اضافہ کرے اور مسٹر ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ مسٹر شریف کو اس ایوارڈ کے لیے نامزد کرے۔ بہر کیف بے شرمی، بے غیرتی، ذلت و رسوائی، قدم بوسی، چاپلوسی، خوشامد و مسکہ بازی کا ایک عالمی مقابلہ ہوا اس میں پاکستان کا وزیر اعظم جیت گیا۔ اور ویسے بھی نوبل امن انعام ان لوگوں کو ملتا ہے جو اسرائیل کی حمایت میں، اسے فائدہ پہنچانے میں بے غیرتی کی تمام حدود عبور کر جاتے ہیں۔ شرم الشیخ جہاں مصر نے مسلم دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پہلا معاہدہ کیا تھا، اس کا ایک ظالم اور بے غیرت فوجی حاکم السیسی بہت تعجب سے مسکراتے ہوئے اس ’’شریف‘‘ انسان کو دیکھ رہا تھا کہ ایک پاکستانی کس طرح بے غیرتی اور بے شرمی میں اس کو مات دے گیا۔
مسلم ممالک کے علما سے گزارش ہے کہ آنکھیں بند کر اپنی حکومتوں کے بیانیوں پر اپنے فتوے جاری نہ کریں۔ سب سے پہلے فلسطین کے اصل مسئلے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے امریکا اور اسرائیل میں جو سازش چل رہی ہے، اسے سمجھیں۔ اپنی نگاہوں کے سامنے ہمیشہ ’’القدس‘‘ کو رکھیں۔ اس کے لیے اسرائیل فلسطینی امور کے وہ امریکی ماہرین جو فلسطین کے حمایتی ہیں اور اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کے سخت مخالف ہیں، انہیں سنیں۔ انگریزی سے اپنی زبان میں ترجمہ حاصل کرنا اب آسان ہے۔ خبر اور معلومات لینے کے لیے اپنے قومی اخبارات اور میڈیا پر انحصار کم کریں اور اوپر اٹھ کر دنیا بھر کے متبادل میڈیا کو بھی کھنگالیں۔ فلسطین کے ایشو پر مسلم دنیا سے کہیں بہتر انڈیا کے کچھ صحافی اپنے یوٹیوب چینل پر بہت اچھی کوریج دے رہے ہیں۔ جیسے The Credible History کے اشوک کمار پانڈے، The Red Mike کے سوربھ شاہی، اور KAY Rated YouTube پر بغیر شناخت کے آنے والے ایک نوجوان۔ اور بھی کئی ہیں لیکن یہ بہترین اور قابل اعتماد معلومات کے ساتھ آتے ہیں۔ ان تینوں کی زبان اردو ہے۔
صرف پچھلے دو سال میں ہی دہشت گرد ریاست ِ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی مہم میں لاکھوں لوگوں کا قتل کر چکا ہے۔ جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ لاکھوں لوگ معذور ہوئے، لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ عمارتیں بموں سے مسمار کر دی گئیں، اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیل وہ واحد دہشت گرد ریاست ہے جس نے خوراک کو بھی آلہ ِ جنگ کے طور پر استعمال کیا، اور ہزاروں لوگوں کو بھوکا مار دیا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے پلان میں فلسطینی ریاست کا کوئی وعدہ نہیں ہے اس 20 نکاتی منصوبہ میں نکات 1، 5، 11 اور 20 میں واضح طور پر حماس مجاہدین سے اسلحہ چھیننے کی بات ہے، حماس کو حکمرانی سے باہر کرنے کی بات ہے، اور صرف ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی اور ان کی جلاوطنی یعنی فلسطین سے نکلنے کی بات کی گئی ہے۔ حماس فلسطین اور غزہ کی منتخب اور نمائندہ اتھارٹی ہے۔ اس پلان میں اس کے کسی بھی رول کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور اب جو کچھ طے ہوا ہے اس سے بھی اسرائیل ببانگ ِ دہل مْکر منا رہا ہے۔
غزہ میں نسل کشی کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ امدادی سامان کے ٹرک کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ پاکستانی علما کو چاہیے کہ ایٹمی طاقت پاکستان کی افواج جس کی فضائیہ نے بھارت کے ساتھ جنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، مشورہ دیں، فتویٰ دیں اور اس پر جمے رہیں کہ وہ اسرائیل پر حملہ کر کے مظلوم فلسطین کو آزاد کرائے۔ ایران نے بغیر اپنی فضائیہ کے زمین سے فضا میں مار کرکے اسرائیل کو اس حد تک دہلا دیا تھا کہ اس حملے کی زد میں نیتن یاہو کا اپنا سیکرٹریٹ بھی آ گیا تھا۔ پاکستان کو تو بلا شبہ فضائی برتری حاصل ہے۔ مشورہ یہ دیا جائے کہ افغانستان اور انڈیا سے جنگ (فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لیے دشمنوں کی سازش) کی فضا کو ختم کرکے اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے فوکس کیا جائے۔