آواز
۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی
پاکستان کا حال بھی عجیب ہے بارشیں نہ ہوں توقحط سالی۔۔ قوم کو نماز استسقاء کی اپیلیں۔ بارشیں ہونے لگیں تو پورا ملک ڈوب جاتا ہے ۔ اس سال لاہور،کراچی ، اسلام آباد، راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کا جو حشرہوا،اس کی تفصیلات میں جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ویسے تو پورا پاکستانی ہی شدید متاثرہوا۔ ان بارشوں سے جہاں200 سے زائد افراد جان سے گئے۔ وہاںکھربوںکا نقصان بھی ہوا ہزاروں غریب عمر بھر کی پونجی سے محروم ہوگئے لیکن حکمرانوںکی کوئی پلاننگ ہے نہ حکمت ِ عملی۔ ہرسال بارشیں،سیلاب قحط سالی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ ہم وقتی طورپر آہ و فغاں کرتے ہیںپھر بھول جاتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے ہم وطنوںپرکیا بیت چکی ہے اور غریب پھر سے بے یارو مددگار اللہ کے آسرے پر محنت مشقت کرکے منہدم گھروںکو رہنے کے قابل کرتے ہیں کہ پھر بارشیں آجاتی ہیں یا سیلاب سب کچھ ملیا میٹ کرکے چلے جاتے ہیں۔ عمریں بیت جاتی ہیں لیکن متاثرین کی ایکسرسائز ختم نہیں ہوتی۔ ان کے لئے یہی زندگی اور یہی موت کا سامان۔۔ لیکن اس ساری صورت ِ حال میں حکومت اور حکمران کیا کرتے پھرتے ہیں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا۔
کہاجاتاہے کہ 2015ء میں لاہور کے انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیاتھا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے ذریعے ایک ایسا ماحول دوست حل تجویز کیا ،جس پر عمل کرنے سے ایک بڑے فلائی اوور بنانے سے بھی کم لاگت میں پورے لاہور کی سڑکوں کو مون سون کی بارشوں میں تالاب بننے سے بچایا جا سکتا تھاکیونکہ لاہور میں پینے کا سارا پانی زیرِزمین ایکوائفر سے آتا ہے جس کا ری چارج دریائے راوی سے ہوتا تھا جوکہ انڈیا کی طرف سے راوی پر 2000ء میں تھہین ڈیم بنانے سے 85فی صد کم ہو گیا تھا اور اب اس سال شاہ پور کنڈی بیراج کی تعمیر کے بعد تقریباً صفر ہو گیا ہے۔ دوسری طرف لاہور کے زیرِزمین پینے کے قابل پانی کی سطح 6سو سے 8 سو فٹ تک گرچکی ہے اور 12 فٹ انتہائی حد ہے جس کے بعد زیرِزمین پانی موجود نہیں۔ زیرِزمین پانی کی سطح ہر سال 3 فٹ کی رفتار سے گر رہی ہے۔ اس ریسرچ کے لئے انجینئرز نے شہر لاہور کی سڑکوں پر 43 ایسی نشیبی جگہوں کی نشاندہی کی جو مون سون میں بارش کے بعد تالاب کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ان کا اندازہ تھا کہ سڑکوں پرصرف ان 43 مقامات پر ہی 1000 ایکڑ فٹ حجم کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے جس کا بہت سا حصہ پانی چوس کنویں بنا کر زیرزمین اتارا جاسکتا ہے۔اپنے اندازے کی سچائی جانچنے کے لئے انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے ساتھ والی نشیبی سڑکوں پر دو پانی چوس کنویں بنائے۔ ہر ایک کنواں6x9x8 فٹ کا تھا جس کی سطح پر انہوں نے 2 فٹ موٹے پتھر اور ایک ایک فٹ بجری اور ریت کی تہہ جما دی جس کے نیچے ایک فٹ گولائی والا سوراخ دار پائپ زیرزمین پانی تک پہنچا دیا۔ حیرت انگیز طور پر پہلی ہی بارش میں سڑک پر کھڑا ہونے والا ایک لاکھ لٹر پانی صرف تین گھنٹوں میں کنووں نے چوس لیا تھا اور بارش میں ہر دفعہ بند رہنے والی سڑک پر تھوڑی دیر بعد ہی ٹریفک رواں دواں تھا۔ مزید تسلی کے لئے انجینئرز نے سڑک پر اکٹھا ہونے والے بارشی پانی اور کنوؤں میں فلٹر ہو کر جانے والے پانی کی کوالٹی کے مختلف ٹیسٹ مستند لیبارٹریوں سے کرائے تو پتہ چلا کہ کنوؤں نے فلٹر کے عمل میں بارشی پانی سے آلودگی بھی صاف کردی تھی اور زیرِ زمین جانے والا پانی انتہائی صاف ستھراتھا۔سب اہم بات یہ تھی کہ ایک ہی بارش کے ری چارج نے زیرزمین پانی کی سطح 3.
لاہور میں زیرِ زمین پانی کوریچارج کرنے کے لئے جدید طرز کا”چھپڑ ْ” سسٹم بحال کرنا ہوگا جس نے ماضی میں صدیوں تک اس شہر کے زیر زمین پانی کو میٹھا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھا۔چھپڑ کی طرز پر لاہور شہر کے پارکوں اور کھلی جگہوں پر کثیر تعداد میں ڈونگی گروانڈز کا قیام عمل میں لایا جائے جن کے اطراف میں ریچارج کنویں بنے ہوں۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں دفاتر فیکٹریوں الغرض تمام کھلی جگہوں پر ریچارج کنویں بنا کر ری سائیکل پانی سے زیر زمین پانی کو مون سون کے دوران ہی پورے سال کے استعمال کے لئے ریچارج کیا جائے۔ اس کام کو پھر تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پہنچانا ہوگا۔ ہمیں فی الفور ریچارج اتھارٹی بناکر کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ 2015ء کے بعد بھی کئی برساتیں گزر چکی ہیں لیکن لاہور کی سڑکیں ابھی بھی تالاب بنی ہوتی ہیں۔ ایل ڈی اے، واسا، پنجاب اریگیشن، جماعت اسلامی، WWF ، PCRWR ، IWMI ، یو ای ٹی لاہور اور چند سوسائٹیوں اور انفرادی لوگوں کے پائلٹ ریچارج پراجیکٹس کے علاوہ انجینئرز کے اس دلچسپ تجربے سے بڑے اسکیل پر آج تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اگرچہ یہ ریسرچ اور عملی تجربہ لاہور تک محدود تھا لیکن اس کے نتائج کی بنیاد پر پورے پنجاب اور سندھ کے لئے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ PCRWR بھی اس سلسلے میں کافی ریسرچ کر چکا ہے۔ ضرورت اب عملی اقدامات کی ہے۔ پاکستان کے خْشک ہوتے دریاؤں کے پیشِ نظر مون سون میں بارش کے پانی سے ایکوائفر کا ری چارج ایک بہترین قدرتی حل ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ممتاز انجینئر ظفر وٹzafariqbalwatt کا کہنا ہے کہ یہ ریسرچ انٹرنیشنل جرنل میں شائع ہوچکی ہے جس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔بہرحال آبی ماہرین نے کئی بار حکمرانوںپر زوردیاہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکرطویل المدتی منصوبے تیار کریں تاکہ کو مون سون کی بارشوں یا سیلاب کے دنوںمیں وطن ِ عزیزکو تباہی سے بچایا جاسکے اس کے لئے ایک ماسٹر پلان کے ذریعے متاثرہ علاقوںمیں تالاب، نہریں اور چھوٹے آبی ذخائر بنائے جائیں اور ان کا رخ ان علاقوںکی طرف موڑدیا جائے جہاں پانی کی شدید قلت ہے اس طرح تھرپارکر، چولستان، سندھ، بلوچستان کے بنجردیہاتوں اور نورپورتھل کے وسیع علاقوںکو زرخیزبنانے میں مدد ملے گی جو ملکی ترقی کا ایک پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے ۔یہ طرز ِ عمل پاکستان میں پانی کی کمی کا واحد حل ہے کیونکہ آبی ذخائرنہ ہونے کی وجہ سے روزانہ ہزاروں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے لیکن حکمرانوںکو احساس تک نہیں کہ پانی ہی زندگی ہے اس کا ضیاع نہ صرف گناہ بلکہ بنجرزمینوںکو ایک نئی زندگی سے ہمکناربھی کرتاہے اس لئے پورے پاکستان، پنجاب ،بلوچستان اور سندھ کے لئے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جس سے پانی کی کمی دورکی جاسکے حکمرانوںکو حالات کی سنگینی کاادراک کرناہوگا اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: زیر زمین پانی پانی کی سطح سڑکوں پر کے بعد ہیں کہ کے لئے
پڑھیں:
حیدر آباد، بحریہ ٹاون کی 893ایکڑ زمین کو غیر قانونی قرار،خالی کروانے کا حکم
حیدر آباد، بحریہ ٹاون کی 893ایکڑ زمین کو غیر قانونی قرار،خالی کروانے کا حکم WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز
حیدرآباد (سب نیوز) اینٹی انکروچمنٹ ٹریبونل نے بحریہ ٹاون کی 893ایکڑ زمین کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قبضہ خالی کروانے کا حکم جاری کر دیا۔
بحریہ ٹاون پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے اینٹی انکروچمنٹ ٹریبونل میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران بحریہ ٹاون کے وکیل نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ جامشورو کی دیہہ مول میں 893ایکڑ زمین بحریہ ٹائون کی ملکیت ہے اور حکومت سندھ اورریونیو حکام اس زمین سے بے دخلی کر رہے ہیں جن کو روکا جائے۔
ٹریبونل نے فریقین کے دلائل اورسپریم کورٹ کے سابقہ احکامات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ جاری کر تے ہوئے تمام اراضی کو غیر قانونی قرار دے دیا ۔ ٹربیونل نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ زمین ریاستی ملکیت ہے بحریہ ٹان اپنی ملکیت ثابت کرنے میں ناکامی رہی ہے۔سپریم کورٹ پہلے ہی طے کر چکی ہے کہ بحریہ ٹاون کو صرف 16896 ایکڑ زمین کا حق حاصل ہے، زمین سے متعلق بحریہ ٹاون کی استدعا ناقابلِ سماعت ہے۔ ٹربینل نے فیصلے میں حکم دیا کہ متعلقہ حکام بحریہ ٹان کو غیر قانونی طور پر قابض زمین سے بے دخل کرنے کے مجاز ہیں، اس ضمن میں انسداد قبضہ فورس کارروائی کر سکتی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملالہ یوسفزئی کا سیلاب متاثرین کیلئے 2لاکھ 30ہزار ڈالر امداد کا اعلان ملالہ یوسفزئی کا سیلاب متاثرین کیلئے 2لاکھ 30ہزار ڈالر امداد کا اعلان سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے عالمی اداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کا ٹی چوک فلائی اوور منصوبے کا دورہ،تعمیراتی کاموں کا معائنہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی اے کو فوری عہدے سے ہٹانے کا حکم چھبیس ستمبر تک پلاٹوں کی قرعہ اندازی نہ کی گئی تو مزدور یونین احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گی: چوہدری محمد یٰسین تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے قرض قبل ازوقت واپس کیا گیا، ترجمان وزارت خزانہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم