سکردو میں کانفرنس بعنوان "حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں" (2)
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
مجلس علمائے مکتب اہلبیت سکردو بلتستان کے زیر اہتمام حسین شناسی اور عصر حاضر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی قائد گلگت بلتستان آغا سید راحت حسین الحسینی تھے، جبکہ مولانا اصغر، شیخ زاہد حسین زاہدی، مجلس علما مکتب اہلبیت کے صدر شیخ علی محمد کریمی و دیگر علمائے کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد
اسلام ٹائمز۔ مجلس علمائے مکتب اہلبیت سکردو بلتستان کے زیر اہتمام حسین شناسی اور عصر حاضر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی قائد گلگت بلتستان آغا سید راحت حسین الحسینی تھے، جبکہ مولانا اصغر، شیخ زاہد حسین زاہدی، مجلس علما مکتب اہلبیت کے صدر شیخ علی محمد کریمی و دیگر علمائے کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آغا راحت حسین الحسینی نے کہا کہ ہماری ناکامی کی اصل وجہ اتفاق و اتحاد کا نہ ہونا ہے، ہم ہر کسی نے اپنا تین فٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے، اگر ہم سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائے تو پورے گلگت بلتستان بلکہ پاکستان میں حکومتیں بنانے او گرانے کی طاقت ہم میں موجود ہیں۔ میں تمام علماء سے کہتا ہوں کہ ہمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا، جہاں ہم اپنے مسائل اور حکمت عملی کےلئے سب ملکر بیٹھ سکے۔انہوں نے کہاکہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے ریاست اور ریاستی ادارے بے بس نظر آ رہے ہیں، حکومت اور اداروں کو اپنا رٹ مضبوط کرنا ہو گا، گلگت بلتستان کو دوبارہ دہشت گردی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، یہ خطہ کسی بھی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 1988ء سے لے کر اب تک ہمارے شہداء کے قاتلوں کو سزا تک نہیں دی گئی ہے، جو کہ ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہے، علاقے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور ادارے اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور مجرموں کو سزا دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کانفرنس سے علامہ شیخ اصغر، انجمن امامیہ کے نائب صدر شیخ زاہد حسین زاہدی، مرکزی جنرل سیکرٹری مجلس علما مکتب اہلبیت پاکستان علامہ محمد اصغر عسکری، مرکزی سیکرٹری روابط مجلس علما مکتب اہلبت علامہ عیسی امینی، صوبائی صدر مجلس علماء مکتب اہلبیت بلتستان کے شیخ کریمی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔.
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد مجلس علما مکتب گلگت بلتستان
پڑھیں:
16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق
اسلام ٹائمز: شاہ حسین نے پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاالحق کے ”بلیک ستمبر“ کی جنگ کے کارناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے ضیاالحق کو بریگیڈیئر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر راجہ انوار اپنی کتاب ”دا ٹیررسٹ پرنس“ میں وزیراعظم بھٹو کے غلط فیصلوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر شاہ حسین اس موقع پر ضیاالحق کی سفارش نہ کرتے تو حد درجہ ممکن تھا کہ ضیاالحق کا فوجی کیریئر بطور بریگیڈیئر ہی ختم ہو جاتا۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
اسرائیل کے خلاف 1967ء میں ہونے والی چھے روزہ جنگ میں شکست کے بعد اردن میں حالات کافی نازک تھے۔ مصر اور شام کے ساتھ اردن نے اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھایا تھا اور وہ بیت المقدس، غزہ اور غرب اردن کے علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ ایسے میں فلسطینی ’فدائین‘ نے غرب اردن کے ساتھ واقع علاقوں میں اپنی موجودگی قائم کرلی اور وقتاً فوقتاً اسرائیلی قبضے میں لیے گئے سرحدی علاقوں پر کامیاب حملے کیے جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا جس کے باعث انہیں شامی اور عراقی حمایت بھی ملنے لگی۔ اس گمبھیر صورتحال کو دیکھتے ہوئے اردن کے سربراہ شاہ حسین نے اپنے پاکستانی دوست بریگیڈئیر ضیاالحق سے مدد مانگی جو اُس وقت عمان میں پاکستانی سفارتخانے میں ڈیفنس اتاشی کے فرائض نبھا رہے تھے۔ فلسطینیوں کی اس تحریک کی بیخ کنی کے لیے 1970ء میں 16 دسمبر سے 27 دسمبر تک ہونے والی جنگ کو فلسطینی ”بلیک ستمبر“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کئی مبصرین کے مطابق اس جنگ میں اردن کے شاہ حسین کو فیصلہ کن کامیابی دلوانے میں جنرل ضیاءالحق کا مبینہ ہاتھ تھا۔
اردن کی فوج کو ”بلیک ستمبر“ کے واقعات کے بعد امریکہ کی جانب سے پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر مالیت کا اسلحہ دیا گیا تھا۔ مصنف اور محقق طارق علی اپنی کتاب "The Duel" میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق امریکہ سے اپنی ٹریننگ مکمل کرکے ملک واپس آئے تو انہیں اردن بھیج دیا گیا جس نے حال میں ہی چھے روزہ جنگ میں خفت اٹھائی تھی۔ اسی بات کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی سی آئی اے کے سابق عہدیدار ”بروس ریڈیل“ اپنی کتاب ” وٹ وی ون“میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق تین سال قبل اردن آئے تھے اور ان کی ذمے داری یہ تھی کہ وہ پاکستانی اور اردنی فوج کے درمیان عسکری حوالے سے باہمی تعلقات بڑھائیں اور اردن میں ہونے والے واقعات کی رپورٹ وطن واپس بھیجیں۔ لیکن بریگیڈیئر ضیا الحق نے اپنے دیے گئے مینڈیٹ سے بڑھ کر بھی ذمہ داریاں نبھائیں جس کا تذکرہ اردن میں اُس وقت موجود سی آئی اے کے افسر ”جیک او کونل“ نے اپنی کتاب ”کنگز کونسل “میں کیا ہے۔
جیک او کونل، جنہوں نے خود لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دو سال گزارے تھے، لکھتے ہیں کہ سنہ 1970ء میں جب شامی افواج اردن پر چڑھائی کی غرض سے ٹینک لے کر آگئیں اور اردن کو امریکہ کی جانب سے امداد کے بارے میں کوئی جواب نہ ملا تو شاہ حسین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاہ حسین نے اپنے ”دوست“ ضیا الحق سے درخواست کی کہ وہ شامی محاذ کا دورہ کریں اور انہیں زمینی صورتحال سے آگاہ کریں۔ جیک او کونل لکھتے ہیں کہ جب ضیاالحق سے اردنی حکام نے حالات کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ”حالات بہت خراب ہیں“۔ بروس ریڈیل اپنی کتاب کے باب چار میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ضیا الحق نے شاہ حسین کو مشورہ دیا کہ اردنی فضائیہ کو شامی فوج کے خلاف استعمال کیا جائے اور یہی وہ فیصلہ تھا جس کے باعث اردن جنگ جیتنے میں کامیاب ہوا۔
”بلیک ستمبر“ میں ضیاالحق کے کردار کے حوالے سے سب سے اہم گواہی شاہ حسین کے بھائی اور اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال نے بروس ریڈیل سے بات کرتے ہوئے دی۔ بروس ریڈیل لکھتے ہیں کہ شہزادہ حسن بن طلال نے اپریل 2010ء میں انہیں بتایا کہ ضیاالحق، شاہ حسین کے دوست اور ہم راز تھے اور شاہی خاندان اس جنگ میں ان کی مدد کا بہت شکر گزار تھا۔ اس جنگ میں ان کی موجودگی اس حد تک تھی کہ وہ تقریباً فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ بروس ریڈیل کے مطابق ضیاالحق کا یہ فعل پاکستان میں حکام کو ناگوار گزرا کیونکہ یہ واضح تھا کہ ضیاالحق نے اردنی فوج کے ساتھ لڑ کر اپنی سفارتی ذمے داریوں اور احکامات سے تجاوز کیا ہے۔ لیکن ان خدمات کا صلہ ضیاالحق کو شاہ حسین کی جانب سے کی گئی سفارش کی صورت میں ملا۔
شاہ حسین نے پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاالحق کے ”بلیک ستمبر“ کی جنگ کے کارناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے ضیاالحق کو بریگیڈیئر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر راجہ انوار اپنی کتاب ”دا ٹیررسٹ پرنس“ میں وزیراعظم بھٹو کے غلط فیصلوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر شاہ حسین اس موقع پر ضیاالحق کی سفارش نہ کرتے تو حد درجہ ممکن تھا کہ ضیاالحق کا فوجی کیریئر بطور بریگیڈیئر ہی ختم ہو جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق نے بلیک ستمبر کے قتل عام میں حصہ لیا تھا اور اپنی فوجی اور سفارتی ذمے داریوں سے کوتاہی برتی اور قواعد کی خلاف ورزی کی۔ لیکن شاہ حسین کی سفارش نے شاید وزیراعظم بھٹو کو یہ عندیہ دیا کہ ضیاالحق ان کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
سرکاری طور پر یہ جنگ 16 ستمبر سے 27 ستمبر تک جاری رہی جس کے بعد چھوٹے پیمانے پر جھڑپیں اگلے برس جولائی تک چلتی رہیں۔ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے بقول اس جنگ میں بہت بڑی تعداد میں فدائین کو نقصان اٹھانا پڑا جن کی تعداد 20 سے 25 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ طارق علی اپنی کتاب ”دا ڈوئیل“ میں نامور اسرائیلی جنرل ”موشے دایان“ سے منسوب بیان دہراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”شاہ حسین نے 11 دن میں جتنے فلسطینی ہلاک کیے اتنے تو اسرائیل 20 برسوں میں بھی نہیں ہلاک کر سکتا۔“ فلسطینی زخمیوں کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ایئرپورٹ پر عالمی تنظیم ریڈ کراس کی جانب سے اردن کے دارالحکومت عمان سے لایا گیا تھا۔
ایک صحافی کے بقول شاہ حسین نے ضیا الحق کی مدد سے اپنی بدؤوں پر مشتمل فوج فلسطینیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھیجی اور اس کے بعد ایک ایسا قتل عام ہوا جس کا کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن اس بیانیے کے بالکل برعکس بیانیہ ایک سابق پاکستانی سفارتکار نے پیش کیا جو ستمبر 1970ء میں خود اردن میں تعینات تھا۔ اگست 2010 میں انگریزی اخبار ”دا نیوز“ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں سابق سفیر طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ چھے روزہ جنگ میں شکست کے بعد مختلف عرب ممالک نے پاکستان سے عسکری مدد اور تربیت کی درخواست کی تھی جس کے بعد پاکستان نے اردن، شام اور عراق میں اپنے افسران کو بھیجا تھا۔ طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ اردن بھیجے جانے والوں میں تینوں افواج کے 20 اعلیٰ افسران شامل تھے جن کی سربراہی بری فوج کے میجر جنرل نوازش علی کر رہے تھے اور ضیاالحق ان کے نائب تھے۔
طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ بعد ازاں پاکستانی فضائیہ کا بھی ایک رجمنٹ شاہ حسین کی درخواست پر اردن پہنچ گیا لیکن اس پوری ٹیم کا مینڈیٹ صرف اور صرف اردنی افواج کو تربیت دینا تھا اور کسی قسم کی جنگ میں حصہ لینا نہیں تھا۔ طیب صدیقی کے بقول ضیاالحق نے فوجی دستے کی کمانڈ سنبھال لی لیکن کوئی فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی اور اسرائیلی دباؤ میں آ کر شام نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ طیب صدیقی اپنے مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ پاکستانی سفیر اور فوجی دستے کے سربراہ کی غیر موجودگی میں وہ سفارتخانے کی قیادت کر رہے تھے۔ دو ستمبر کو انہیں ضیاالحق کا فون موصول ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ شاہ حسین نے شامی سرحد کے نزدیک موجود ”اربد“ شہر میں انہیں فوجی ڈویژن کی قیادت کرنے کو کہا ہے کیونکہ اردنی کمانڈر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔
طیب صدیقی آگے لکھتے ہیں کہ میں نے فوراً سیکریٹری دفاع غیاث الدین کو فون کرکے معاملہ بتایا تو انھہوں نے غیر متوقع طور پر، بلا توقف اجازت دے دی۔ میں نے اس پر اعتراض کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا ”ہم نے استخارہ کر لیا ہے۔ ہاشمی سلطنت کا ستارہ عروج پر جا رہا ہے، بادشاہ کی ہدایات پر عمل کرو۔ طیب صدیقی کے بقول ضیاالحق نے فوجی دستے کی کمانڈ سنبھال لی لیکن کوئی فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی اور اسرائیلی دباؤ میں آ کر شام نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ ان کے مطابق فلسطینیوں کے مبینہ قتل عام میں ضیاالحق کا کُل کردار یہی تھا۔
طیب صدیقی نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا کہ ”عمومی طور پر یہ وثوق سے کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق ہزاروں فلسطینیوں کے قتل میں ملوث تھے اور یہ کہ اس کے بعد یاسر عرفات نے عہد کیا تھا کہ وہ کبھی پاکستان نہیں جائیں گے لیکن اس بات کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یاسر عرفات بعد میں متعدد بار پاکستان کے دورے پر گئے۔“ البتہ یہ حقیقت ہے کہ یاسر عرفات جنرل ضیاءالحق کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ 1970ء میں 16 ستمبر سے لے کر 27 ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ کو تاریخ میں ”بلیک ستمبر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کئی مبصرین نے بعد ازاں لکھا ہے کہ اردن کے شاہ حسین کو اس جنگ میں فیصلہ کن مشورہ دینے والے مستقبل میں پاکستان کے فوجی آمر محمد ضیا الحق تھے جن کی مدد سے اردنی فوج کو جنگ جیتنے میں مدد ملی۔