پاکستان، بنگلہ دیش ویزا فری معاہدہ، بھارت کو پریشانی کیوں لاحق ہوئی؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
راولپنڈی(نیوز ڈیسک)پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی روابط میں بہتری آ رہی ہے، جس کا تازہ ثبوت دونوں ممالک کے درمیان سفارتی و سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے حکام کے لیے ویزا فری داخلے کا معاہدہ ہے۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب بنگلہ دیش میں عبوری حکومت نے محمد یونس کی قیادت میں عنانِ اقتدار سنبھالا ہے، اور دونوں ممالک تعلقات کو ازسرِنو استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا نے اس معاہدے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ اور ’دی پرنٹ‘ جیسے ذرائع ابلاغ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ویزا فری رسائی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں، بالخصوص آئی ایس آئی، کے لیے آسانی پیدا کر سکتی ہے۔
نئی دہلی کو خطرہ ہے کہ اس تعاون سے بنگلہ دیش میں بھارت مخالف اسلامی انتہا پسندی کو تقویت مل سکتی ہے، جو شمال مشرقی بھارت میں شورش پسند گروہوں کی پشت پناہی کر سکتی ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق یہ معاہدہ ڈھاکہ میں پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی اور ان کے بنگلہ دیشی ہم منصب لیفٹیننٹ جنرل (ر) جہانگیر عالم چودھری کے مابین ملاقات کے دوران طے پایا۔
ملاقات میں اندرونی سلامتی، انسدادِ منشیات، انسدادِ انسانی اسمگلنگ، اور پولیس ٹریننگ جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان و بنگلہ دیش کے تعلقات میں واضح بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے بنگلہ دیشی حکام کو پولیس ٹریننگ کی پیش کش کی، جبکہ ایک اعلیٰ سطحی بنگلہ دیشی وفد جلد اسلام آباد کا دورہ کرے گا تاکہ پاکستان کے سیف سٹی پراجیکٹ اور نیشنل پولیس اکیڈمی کا جائزہ لے سکے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش
پڑھیں:
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا بھارت کے ساتھ سب سے بڑا معاہدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) دونوں ممالک نے تجارتی معاہدے پر مذاکرات تین سال کے تعطل کے بعد مئی میں مکمل کیے تھے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے سائے میں ان دونوں ملکوں نے باہمی معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
بھارتی برآمدات 900 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان
ترقی کرتا ایشیا، لیکن پھر مشکلات کیا ہیں؟
دنیا کی پانچویں اور چھٹی بڑی معیشتوں کے درمیان اس معاہدے کا مقصد 2040ء تک باہمی تجارت میں مزید 25.5 بلین پاؤنڈ (34 بلین ڈالر) کا اضافہ کرنا ہے۔
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا سب سے بڑا تجاری معاہدہ2020ء میں یورپی یونین چھوڑنے کے بعد سے یہ برطانیہ کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ ہے۔
(جاری ہے)
بھارتکے لیے یہ ایک ترقی یافتہ معیشت کے ساتھ اس کی سب سے بڑی اسٹریٹجک شراکت داری کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ یورپی یونین کے ساتھ طویل عرصے سے زیر التوا معاہدے کے ساتھ ساتھ دیگر خطوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک نمونہ بھی فراہم کر سکتا ہے۔
اس معاہدے کا اطلاق توثیق کے عمل کے بعد ہوگا، جو ممکنہ طور پر ایک سال کے اندر مکمل ہو جائے گا۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کو 'بڑے فوائد‘ حاصل ہوں گے جس سے تجارت سستی، تیز تر اور آسان ہو جائے گی۔
اسٹارمر کا مزید کہنا تھا، ''ہم ایک نئے عالمی دور میں داخل ہو چکے ہیں اور یہی وہ دور ہے جس کے لیے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایک طرف ہو جانے ک… گہری شراکت داری اور اتحاد قائم کر کے۔
‘‘مودی نے کہا کہ یہ دورہ ''دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو آگے بڑھانے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔‘‘
دونوں رہنماؤں نے دفاع اور آب و ہوا جیسے شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے شراکت داری پر بھی اتفاق کیا اور کہا کہ وہ جرائم سے نمٹنے کے لئے تعاون کو مضبوط بنائیں گے۔
وہسکی اور کاروں پر ڈیوٹی میں کمیبرطانوی حکومت کے مطابق تجارتی معاہدے کے تحت اسکاچ وہسکی پر محصولات فوری طور پر 150 فیصد سے کم ہو کر 75 فیصد ہو جائیں گے اور پھر اگلی دہائی میں 40 فیصد تک گر جائیں گے۔
بھارت ایک کوٹہ سسٹم کے تحت گاڑیوں پر ڈیوٹی کو 100 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دے گا۔اس کے بدلے میں بھارتی مینوفیکچررز کو کوٹہ سسٹم کے تحت برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے لیے برطانیہ کی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہوگی۔
برطانوی وزارت نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت بھارت کے لیے برطانوی برآمدات کے 99 فیصد حصے کو صفر ڈیوٹی سے فائدہ ہوگا، جبکہ برطانیہ کو اپنے محصولات کے سلسلے میں 90 فیصد کمی کرنا ہو گی۔
ادارت: کشور مصطفیٰ