الیکٹرک بائیکس اور رکشوں پر 50 ہزار روپے کی سبسڈی، کیا عام صارف کو بھی فائدہ ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
وفاقی حکومت 14 اگست کو ملک کی نئی 5 سالہ الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی متعارف کرانے جا رہی ہے، جس کا مقصد الیکٹرک بائیکس اور رکشوں کو فروغ دینا ہے۔
واضح رہے کہ اس پالیسی کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی معاونت حاصل ہے، جس نے موجودہ مالی سال کے دوران توانائی کی بچت پر مبنی ٹرانسپورٹ سسٹم کے فروغ کے لیے 9 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ یہ رقم حکومت کے 100 ارب روپے کے سبسڈی پیکیج کا حصہ ہے، جس کے تحت اگلے 2 سال میں 116,000 الیکٹرک بائیکس تقسیم کیے جائیں گے۔
اس پالیسی کے تحت ہر الیکٹرک بائیک اور رکشے پر تقریباً 50 ہزار روپے کی سبسڈی دی جائے گی تاکہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جا سکے اور توانائی کے مؤثر استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے ہونڈا نے سی جی 150 اور الیکٹرک بائیک لانچ کردی، قیمتیں بھی حیران کن
تاہم ماہرین اس پالیسی کی کامیابی کو صرف سبسڈی تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس کی اصل افادیت مقامی سطح پر پیداوار، پرزہ جات کی لوکلائزیشن اور انفراسٹرکچر کی دستیابی سے جوڑتے ہیں۔
آل پاکستان موٹر کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے نمائندے ایچ ایم اکبر شہزاد کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی وینڈرز اور اسمبلرز کو اس عمل کا حصہ بنائے تاکہ آنے والے وقت میں یہ گاڑیاں عام شہریوں کی پہنچ میں آ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سنجیدگی سے چارجنگ اسٹیشنز کا جال بچھائے اور مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دے تو الیکٹرک ٹرانسپورٹ نہ صرف سستی ہو سکتی ہے بلکہ اس سے پیٹرول پر انحصار کم ہو کر ملکی درآمدی بوجھ میں بھی واضح کمی آ سکتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی کے ذریعے غریب طبقہ بہتر اور ماحول دوست سواری سے مستفید ہو سکتا ہے، لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ رکشے اور موٹر بائیکس کی قیمتیں کن حدود میں رہتی ہیں اور سبسڈی کتنے افراد تک پہنچتی ہے۔
دوسری جانب آٹو انڈسٹری سے وابستہ ماہر شوکت قریشی اس پالیسی کو ایک اور سرکاری ’اعلان برائے اعلان‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی 3 پانچ سالہ پالیسیاں آ چکی ہیں جو مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئیں۔ خدشہ ہے کہ یہ نئی اسکیم بھی محض کاغذوں تک محدود رہے گی۔
ان کے مطابق جب تک حکومت پالیسی کو زمینی حقائق سے جوڑ کر نافذ نہیں کرتی، ایسے اعلانات محض دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔
پالیسی کی حتمی تفصیلات اور اس کا نفاذ ہی طے کرے گا کہ آیا یہ اقدام واقعی ماحولیاتی بہتری، توانائی کی بچت اور عوامی ریلیف کا مؤثر ذریعہ بنے گا یا صرف ایک اور سرکاری دعویٰ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کا کیا فیوچر ہے؟
آٹو ایکسپرٹ فاروق پٹیل کا کہنا تھا کہ ملک میں 13 سے زائد چائنیز کمپنیاں ہیں جو الیکٹرک بائیکس بنا رہی ہیں۔ مگر ان کی سیل 50 ہزار سے زائد کی نہیں ہے۔ کیونکہ الیکٹرک بائیکس نہ صرف مہنگے ہیں بلکہ ان کی مینٹیننس بھی بہت مشکل اور دوسرے بائیک کی نسبت مہنگی ہے۔ جس کی وجہ سے صرف شوقین افراد ہی اس کی خریداری کرتے ہے۔
ان کا کہنا تھا اگرچہ حکومت سبسڈی دے رہی ہے تاہم اس کے باوجود الیکٹرک بائیکس مہنگے ہیں۔ سبسڈی کے باوجود عام صارفین کے لیے بائیک لینا مشکل ہوگا جن کے لیے یہ سکیم بنائی گئی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ راستے میں کہیں چارجنگ ختم ہو جائے تو چارجنگ اسٹیشنز بھی موجود نہیں ہیں۔اس اعتبار سے یہ غریب عوام کے لیے زیادہ مہنگا سودا ہوگا۔ اس لیے حکومت کو پہلے انفراسٹرکچر پر دیہان دینا چاہیے، پھر اس طرح کی سبسڈی دینی چاہیے تاکہ غریب سبسڈی کے چکر میں ذلیل نہ ہو جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکٹرک بائیکس الیکٹرک رکشا الیکٹرک وہیکل پالیسی شہباز شریف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکٹرک بائیکس الیکٹرک رکشا الیکٹرک وہیکل پالیسی شہباز شریف الیکٹرک بائیکس الیکٹرک بائیک اس پالیسی کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔