ڈالر کتنا گرنے والا ہے، کیا اب یہ آپ کو بیچ دینے چاہییں؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل تنزلی آرہی ہے۔ ایکسچینج کمپنیز کے مطابق گزشتہ روز اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر50 پیسے سستا ہوگیا جبکہ انٹربینک میں امریکی ڈالرکی قدرمیں 5 پیسے کی کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ انٹربینک میں امریکی ڈالر 283 روپے پر آگیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈالر اسمگلنگ: طورخم بارڈر کا ڈالر ریٹ سے کیا تعلق؟
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ ڈالر کو 270 روپے سے 288 روپے تک آنے میں 2 سال لگے تھے لیکن اب ڈالر کو گرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ پہلے لوگوں کو لگتا تھا یہ وقتی کمی ہے لیکن اب لوگ یقین کرنے لگے ہیں کہ واقعی ڈالر گر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر روپے کے مقابلے میں کچھ عرصے میں 270 روپے تک آئے گا اور ہماری کوشش رہے گی کہ یہ مزید گر کے 250 تک چلا جائے، انکا کہنا تھا کہ ڈالر خریدنے والا اس وقت کوئی نہیں سب ڈالرز بیچنے آرہے ہیں 15 سے 20 ملین ڈالر نہ بکنے کی وجہ سے ہم روزانہ بینکوں کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مہنگا رکھا جارہا ہے، وزیراعظم نوٹس لیں، پاکستان بزنس فورم کا مطالبہ
ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ایکسپورٹرز اس امید سے تھے کہ ڈالر 290 روپے کو جائے گا لیکن ان کی امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈالر گر رہا ہے اور مزید گرے گا جس کے پاس بھی ڈالرز ہیں وہ بیچیں۔
ان کا کہنا ہے حکومت پاکستان اور قانون نافظ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ روپے کے استحکام کے لیے جو ممکن ہوسکے وہ کریں۔
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے وی نیوز کو بتایا کہ بینکوں اور کچھ ایکسچینج کمپنیز نے ملکر ڈالر کا ریٹ بڑھایا جو اسکرین پر 285 تھا اور مارکیٹ 290 میں بکتا رہا اس بات کو ہم نے جہاں ضروری تھا وہاں رکھا اور اس پر نہ صرف ایکشن ہوا بلکہ ڈالر نیچے آنا شروع ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
ظفر پراچہ نے کہا کہ ملک کے اندر بارڈرز پر ہر جگہ ڈالرز پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے اور ان اصلاحات کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ڈالر بہت جلد 270 روپے کا ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن کو ڈالرز سے کمانا تھا وہ سمجھتے تھے کہ ڈاکر 290 سے اوپر جانے والا ہے ہوا کچھ یوں کہ ڈالر نیچے آرہا ہے اور مزید نیچے آئے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی ڈالر ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان ڈالر کیا ڈالر بیچ دیں گرتا ہوا ڈالر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی ڈالر ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان ڈالر کیا ڈالر بیچ دیں گرتا ہوا ڈالر ایکسچینج کمپنیز کہ ڈالر کا کہنا رہا ہے
پڑھیں:
پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے، پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،
آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔
انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی، وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے، خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے اور محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے، تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔