Juraat:
2025-07-30@23:58:31 GMT

 صحت کے مسائل اور بجٹ!

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

 صحت کے مسائل اور بجٹ!

وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے کہا کہ عوام کے لیے علاج معالجے کی سہولت اور بہتری کے لیے کوشاں ہیں،

ایک انٹیگریٹڈ سسٹم لانچ کرنے جا رہے ہیں تاکہ ہر مریض کو دیکھا جاسکے، پاکستان کی آبادی بڑھنے کی شرح 3.6فیصد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے کینسر کے وارڈ میں جائیں تو دل دہل جاتا ہے، مریض کو مریض بننے سے بچانا چاہتے ہیں،

ہمارا نظام اس قسم کا ہے کہ ہم مریض کا اسپتال میں انتظار کر رہے ہوتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ مریض کو مریض بننے سے روکیں۔

آج، جب پاکستان کی تقریباً آدھی آبادی بین الاقوامی سطح پر قابلِ موازنہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 16.

5 فیصد لوگ شدید غربت کا شکار ہیں، اور جب 2 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور 40 فیصد بچے نشوونما کی کمی (stunting) کا شکار ہیں، تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ یہ سمجھا جا سکے کہ اصل ضروریات کہاں ہیں اور عوامی پیسہ کہاں خرچ ہونا چاہیے۔

افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کا انسانی ترقیاتی انڈیکس (HDI) مسلسل گزشتہ 10 سال سے تنزلی کا شکار ہے۔ 2015 میں ہماری درجہ بندی 147 تھی، جبکہ اس سال کی رپورٹ کے مطابق ہم 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔پاپولیشن کونسل کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں حاملہ خواتین کی شرح اموات سعودی عرب، کویت، انڈونیشیا اور ملائیشیا سمیت دیگر اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل اور پاپولیشن کونسل کے اشتراک سے وسائل وآبادی میں توازن کے موضوع پر مشاورتی اجلاس میں پاپولیشن کونسل نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال 11 ہزار خواتین بوجہ حمل و زچگی موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔

پاپولیشن کونسل نے بتایا کہ پاکستان میں حاملہ خواتین کی شرح اموات دیگر اسلامی ممالک بشمول انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ملائیشیا، ایران، کویت اور سعودی عرب میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان میں 1000 میں سے 62 بچے ایک سال کی عمر سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں 5 سال سے کم عمر 40 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں، 18 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور 29 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں، پاپولیشن کونسل کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا بچہ اسکول سے باہر ہے۔

اس پس منظر میں،جب ہم 2025-26 کے صحت کے بجٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو صحت پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق، 2022 میں پاکستان میں صحت پر فی کس حکومتی اخراجات 68.11 بین الاقوامی ڈالر تھے؛ اسی سال ایران میں یہ 475.01، سری لنکا میں 245.91، چین میں 623.19 اور بھارت میں 106.83 ڈالر تھے۔

عالمی معیار کے مطابق، یونیورسل ہیلتھ کوریج (UHC) کے حصول کے لیے حکومتوں کو جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد صحت پر خرچ کرنا چاہیے۔ جبکہ صحت کے شعبے پر پاکستان کا خرچ 2022 میں صرف ایک فیصد کے آس پاس رہا، جبکہ ایران نے 2.63 فیصد، سری لنکا نے 1.76 فیصد، چین نے 2.95 فیصد اور بھارت نے 1.29 فیصد خرچ کیا۔

وزیراعظم شہباز کے ان دعووں کے برعکس کہ حکومت عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے کوشاں ہے حقیقت یہ ہے کہ رواں سال کے بجٹ میں وفاقی سطح پر، قومی وزارتِ صحت کی مجموعی ترقیاتی و غیر ترقیاتی بجٹ میں غیر معمولی کٹوتی کی گئی ہے، اور یہ بجٹ جو 2024-25 میں 54.87 ارب روپے تھا، اسے 2025-26 میں کم کر کے 46.10 ارب روپے کر دیا گیا ہے یعنی 8.77 ارب روپے کی کمی کی گئی ہے۔

خاص طور پر، غیر ترقیاتی بجٹ (جو زیادہ تر تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے) 28 ارب روپے سے بڑھا کر 32 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جبکہ ترقیاتی بجٹ میں 47 فیصد کی بھاری کٹوتی کی گئی ہے جو 27 ارب سے کم ہو کر 14 ارب روپے رہ گیا ہے۔

بلوچستان میں، جہاں حالات انتہائی خراب ہیں، صحت کا بجٹ صرف 6 فیصد بڑھا کر 87 ارب روپے کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا صوبہ ہے جو سیاسی بدامنی اور معاشی مسائل کا شکار ہے، جہاں پڑھے لکھے نوجوان مواقع اور سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے بغاوت کا حصہ بن چکے ہیں۔

سرکاری اندازے کے مطابق، صوبے کی 60 فیصد پرائمری ہیلتھ کیئر سہولتوں میں میڈیکل آفیسر موجود نہیں، اور بعض اضلاع میں 75 فیصد تک بچوں کو معمول کے مطابق حفاظتی ٹیکے بھی نہیں لگتے۔

تمام صوبوں میں بلوچستان یونیورسل ہیلتھ کوریج سروس انڈیکس (SCI) کے لحاظ سے سب سے پیچھے ہے جو کہ 100 میں سے صرف 40 ہے، اور کچھ اضلاع میں یہ 18 تک بھی ہے۔ یہ انڈیکس 14 بنیادی صحت کی سہولتوں کی دستیابی کو دیکھ کر بنایا جاتا ہے۔

موجودہ بجٹ میں صحت کارڈ پروگرام کے لیے 4.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اور بلوچستان میں پرائمری ہیلتھ کیئر کے لیے بجٹ تقریباً دوگنا کیا گیا ہے جو خوش آئند بات ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے موجودہ بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 276 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو گزشتہ سال سے 19 فیصد زیادہ ہے۔

صحت کارڈ پلس’ پروگرام کے لیے بجٹ 28 ارب سے بڑھا کر 35 ارب کر دیا گیا ہے، اور ضم شدہ اضلاع کے لیے اضافی 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ پروگرام یونیورسل ہے اور اس میں بون میرو ٹرانسپلانٹ اور کوکلیئر امپلانٹ جیسے مہنگے علاج بھی شامل ہیں۔

تاہم، پرائمری ہیلتھ کیئر (PHC) اب بھی اس صوبے میں نظر انداز ہو رہی ہے۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق، صوبے کی 80 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، اس لیے وہاں PHC کو مضبوط کرنا اور نجی شعبے میں PHC کے لیے ہیلتھ انشورنس کو وسعت دینا ضروری ہے۔ حکومت خیبر پختونخوا میں ”صحت سہولت پروگرام” پر نظرثانی کی ضرورت کو مسلسل نظر انداز کررہی ہے، کیونکہ یہ صرف تیسرے درجے کی سہولتوں پر مشتمل ہے جبکہ پرائمری سطح پر نجی شعبے میں کوئی کوریج نہیں۔سندھ حکومت نے صحت کے بجٹ میں تقریباً 7 فیصد اضافہ کیا ہے، اور صحت کیلئے بجٹ 347.57 ارب روپے سے بڑھا کر 371.87 ارب روپے کیا گیا ہے۔

اس میں 87.7 فیصد (326.5 ارب روپے) غیر ترقیاتی بجٹ ہے، جبکہ صرف 12.3 فیصد (45.37 ارب روپے) ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ دوسری جانب افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں مہنگے تیسرے درجے کے علاج پر توجہ برقرار ہے، جبکہ صوبے کے غریب اور مفلوک الحال عوام کیلئے سستی اور دیرپا احتیاطی صحت کی سہولتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کراچی کے تیسرے درجے کے اسپتالوں کے بارے میں سندھ کے وزرا ، وزیراعلیٰ یہاں تک سندھ کی حکمراں جماعت کے سربراہ بلاول زرداری یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ اچھی خدمات دے رہے ہیں، لیکن سندھ کے دیہی علاقے تو کجا کراچی کے کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں حقیقت ان دعووں کے برعکس نظر آئے گی، سرکاری ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ علاج معالجے کی سہولت حاصل کرنے کیلئے مریض کے لواحقین سفارش تلاش کرتے نظر آتے ہیں یا پھر نچلے درجے کے ملازمین یہاں تک کہ بعض حالات میں ڈاکٹر صاحبان کی مٹھی گرم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں،پورے ملک میں بیماریوں کی روک تھام کا کوئی موثر نظام نہیں ہے، احتیاطی ٹیکے لگانے کی مہم خانہ پری تک محدود نظر آتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بیماریوں کی روک تھام پر مالی توجہ نہیں دی جاتی، ہم محض سطحی صفائی کرتے رہیں گے۔ سندھ میں گورننس اور بجٹ کے غلط استعمال ترقیاتی اور غیر ترقیاتی دونوں سطحوں پر اب بھی بڑے چیلنجز ہیں۔

پنجاب نے اپنے صحت کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور بجٹ 539 ارب روپے سے بڑھا کر 630.5 ارب روپے کر دیا گیا ہے، یعنی 91.5 ارب روپے یا تقریباً 17 فیصد کا اضافہ۔ اس میں سے 181 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے لیے ہیں۔

اگرچہ یہ اضافہ قابلِ تعریف ہے، لیکن اب بجٹ میں سے کتنے فیصد عام آدمی کو علاج معالجے کی سہولت پر خرچ ہوسکے گا اس بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں کیونکہ پنجاب کے بڑے شہروں یہاں تک کہ دارالحکومت کے معروف سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کو ہسپتالوں کے دوروں کے دوران بد انتظامی،ا اور فرائض سے غفلت کی بنیاد پر متعلقہ ڈاکٹروں اور انتظام کاروں کے خلاف کارروائی کرنے یہاں تک کہ انھیں گرفتار کرانے پر بھی مجبور ہونا پڑتا ہے۔

پنجاب میں عام طورپرصحت کی سہولتوں میں عدم مساوات ایک بڑا مسئلہ ہے ، زیادہ تر نئی اسکیمیں لاہور میں ہیں، اور اس بار لاہور میں میڈیکل ڈسٹرکٹ کے قیام کے لیے 109 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جسے حکومت اپنا ”فلیگ شپ” منصوبہ کہتی ہے۔

وزارتِ صحت کے 2024 کے ضلعی تجزیے کے مطابق، لاہور میں فی کس حکومتی صحت اخراجات 70 ڈالر سے زیادہ تھے، جبکہ پنجاب کے 36 میں سے 24 اضلاع میں یہ ایک ڈالر سے بھی کم تھے، یہ اعداد و شمار خود ہی بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں صحت کا ہر پہلو سیاست زدہ ہے ہر منصوبے کو وزیراعلیٰ کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن جب اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تو پھر غالباً عقل غالب آ گئی۔بظاہر، ملک بھر میں صحت کے بجٹ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ اب بھی ملکی صحت کے بحران اور UHC کے حصول کے لیے درکار کم از کم معیار سے کہیں کم ہے۔

ان حقائق سے ظاہرہوتا ہے کہ صحت کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات اب بھی غیر متوازن ہیں ہم ٹرانسپلانٹس اور کینسر کے علاج پر مناسب خرچ کرنے کو تیار نظر نہیں آتے، کینسر کی دوائیں چونکہ بہت زیادہ مہنگی ہیں اس لئے عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں اور وہ علاج کے بغیر ہی ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہوجاتاہے، اس کے ساتھ ہی ہمارے حکمران خاص طور صحت کے متعلقہ وزرا اور ذمہ دار غیر متعدی بیماریوں اور اعضا کی خرابی کی روک تھام پر مناسب توجہ نہیں دے رہے۔

صحت کا شعبہ گورننس کے مسائل سے بھی دوچار ہے ، اب سوال یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم متعلق وزرا اور ارباب اختیاران مسائل پر قابو پانے پر توجہ دیں گے یا صرف زبانی جمع خرچ کرکے ہی اپنی مدت پوری کرنے کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: صحت کی سہولتوں کر دیا گیا ہے پاکستان میں غیر ترقیاتی ترقیاتی بجٹ کا شکار ہیں کہ پاکستان کے بجٹ میں سے بڑھا کر کیا گیا ہے صحت کے بجٹ ارب روپے کے مطابق یہ ہے کہ یہاں تک ہیں اور گئے ہیں کی گئی اب بھی کے لیے صحت کا ہے اور

پڑھیں:

اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کا حل اولین ترجیح ہے۔ چوہدری سالک حسین

امریکہ نیویارک ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 جولائی2025ء ) صوبائی وزیر صنعت وتجارت پنجاب چوہدری شافع حسین اور وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز و ہیومن ریسورس ڈوویلپمنٹ چوہدری سالک حسین صاحب کے اعزاز میں پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کی جانب سے پر تکلف ظہرانہ دیا گیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر نیویارک میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عامر احمد اتوزئی بھی شریک ہوئے۔

متعلقہ مضامین

  • پی آئی اے ہولڈنگ کے منافع میں 42.90 فیصد اضافہ
  • سرکاری حج ساڑھے 11 لاکھ سے ساڑھے 12 لاکھ روپے تک ہوگا، حج پالیسی منظور
  • پی ایس ایل سیزن 10؛ 97 کروڑ روپے کی سلامی ہر فرنچائز کے لیے تیار
  • تعلیم اور درسگاہوںکے مسائل
  • اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کا حل اولین ترجیح ہے۔ چوہدری سالک حسین
  • وفاقی حکومت کا تمام شوگر ملز کے سٹاکس کی کڑی نگرانی کا فیصلہ
  • پاکستان بزنس فورم کا وزیراعظم سے ڈالر کو فوری کنٹرول کرنے کا مطالبہ
  • گیس کی فی یونٹ قیمت میں 590 روپے کا ہوشربا اضافہ
  • ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مہنگا رکھا جارہا ہے، وزیراعظم نوٹس لیں، پاکستان بزنس فورم کا مطالبہ