Express News:
2025-11-02@09:59:27 GMT

اخلاق کریمانہ، تربیت اطفال کی بنیاد

اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT

بچوں کی تربیت محض دنیاوی سہولیات کی فراہمی تک محدود نہیں، بل کہ ان کے باطن میں خیر، حیا، سچائی اور عدل جیسے اوصاف پیدا کرنا اصل کام یابی ہے۔ جس معاشرے کے والدین اپنی اولاد کے ظاہر سے زیادہ ان کے اخلاق پر توجہ دیتے ہیں، وہی قومیں دیرپا ترقی کرتی ہیں۔

اخلاق کریمانہ یعنی عمدہ اخلاق بچوں کے دلوں کو نرمی، محبت، اور انسان دوستی سے لبریز کر دیتے ہیں۔ ان خوبیوں کا آغاز گھر کے ماحول سے ہوتا ہے، جہاں ہر دن ایک سبق، اور ہر عمل ایک نمونہ بن جاتا ہے۔ والدین کی زبان، مزاج، اور کردار ہی بچوں کی اصل درس گاہ ہوتے ہیں۔ اگر ان کی اپنی زندگی میں اخلاق کا نُور ہو، تو بچے قدرتی طور پر اسی راہ کے مسافر بنتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک صالح فرد، اور پھر ایک مثالی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔

والدین پہلی درس گاہ

بچوں کے لیے والدین صرف نگران نہیں بل کہ آئینہ ہوتے ہیں، جن میں وہ اپنا آپ دیکھتے اور پہچانتے ہیں۔ اگر والدین کی باتوں میں نرمی، رویے میں تحمل، اور دل میں وسعت ہو تو بچے انھیں ہی معیار بناتے ہیں۔

بچوں کی پہلی تربیت زبان سے کم، طرزِ عمل سے زیادہ ہوتی ہے۔ جب بچہ غصہ، تلخی یا بے صبری دیکھتا ہے، تو وہی انداز اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ماں باپ اگر گھر میں رواداری، شکر گزاری اور خندہ پیشانی کا ماحول رکھیں تو یہ مزاج بچے میں راسخ ہو جاتا ہے۔ قرآن نے رسول اﷲ ﷺ کے نرم دل ہونے کو لوگوں کے قریب کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔ بچوں کی پہلی تربیت محبت، قبولیت اور اعتماد سے ہی ممکن ہوتی ہے۔

سچائی کی بنیاد بچپن میں رکھیں

بچپن میں جو بات دل میں بیٹھ جائے، وہ پوری زندگی کا اصول بن جاتی ہے۔ اگر سچ بولنا والدین کے عمل اور گفت گو میں نمایاں ہو، تو بچے اسے معمول سمجھ کر اپناتے ہیں۔ سچائی صرف بولنے کی عادت نہیں بل کہ کردار، عزت اور اعتماد کی جڑ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے وعدے کر کے پورے کریں، اور جھوٹ یا فریب کو معمولی بھی نہ سمجھیں۔ بچوں کو سچ بولنے پر سراہا جائے، نہ کہ ڈرایا جائے۔ سچ بولنے والا بچہ زندگی کے ہر موڑ پر صاف ضمیر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

نرم گفتاری سکھائیں

بچوں کی زبان پر وہی الفاظ آتے ہیں جو وہ سنتے ہیں، اور ان کے لہجے میں وہی اثر ہوتا ہے جو وہ ماحول سے جذب کرتے ہیں۔ والدین اگر غصے، طنز یا سختی سے بات کرتے ہیں، تو بچوں میں بھی یہی رنگ آ جاتا ہے۔ اگر ماں، باپ محبت، لحاظ اور ادب سے گفت گُو کریں، تو بچہ نرم گو، صلح جُو اور ملن سار بنتا ہے۔ نرمی سے بات کرنا دل کو کھولتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے جابر کے سامنے بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔ بچوں کی زبان پر نرمی لانے کے لیے خود والدین کی زبان میں نرمی ضروری ہے۔ نرم گفتاری انسان کے اخلاق کا پہلا زینہ ہے۔

معافی اور درگزر کی عادت ڈالیں

ہر بچہ غلطی کرتا ہے، لیکن اصل تربیت یہ ہے کہ اسے معاف کرنا سکھایا جائے، نہ کہ مسلسل شرمندہ کیا جائے۔ بچوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ درگزر کرنا کم زوری نہیں بل کہ بڑا ظرف ہے۔ انہیں سمجھایا جائے کہ دوسروں کو معاف کر دینا ایک روحانی طاقت ہے جو انسان کو بلند کر دیتی ہے۔ اگر بچہ غصے میں ہو، تو اس وقت اسے سختی سے روکنے کے بہ جائے نرمی سے سمجھایا جائے کہ تحمل ہی اصل طاقت ہے۔ قرآن حکیم میں ہمیں بتایا گیا ہے، مفہوم: ’’جو معاف کرے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اﷲ کے ذمے ہے۔‘‘ (الشوریٰ) بچوں کے دل میں وسعت پیدا کرنا، ان کے لیے مستقبل میں کام یابی کے دروازے کھولتا ہے۔ درگزر کا مزاج معاشرتی ہم آہنگی کی جڑ ہے۔

شکرگزاری اور عاجزی سکھائیں

بچے اگر چھوٹی نعمتوں پر شکر ادا کرنا سیکھ جائیں، تو ان کے دل میں حرص اور ناشکری کی جگہ قناعت پیدا ہو جاتی ہے۔ والدین خود الحمدﷲ، جزاک اﷲ اور ماشاء اﷲ جیسے الفاظ استعمال کریں تاکہ بچے بھی یہ زبان سیکھیں۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت انہیں خاک ساری سکھاتا ہے۔ اگر بچے ہر نعمت کو اﷲ کی عطا سمجھیں، تو ان میں تکبر، حسد اور منفی مسابقت ختم ہو جاتی ہے۔ والدین کا عمل اگر شکر گزاری ہو تو بچے خود بہ خود اس روش پر آتے ہیں۔ ایسے بچے دوسروں کے لیے بھی سکون اور خیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عاجزی اور شکر گزاری دل کو روشن اور زبان کو نرم بناتی ہے۔

دوسروں کا ادب اور احترام

ادب و احترام کسی نصاب کی کتاب میں نہیں، بل کہ ماحول سے منتقل ہوتا ہے۔ اگر بچہ اپنے گھر میں ملازم، مہمان یا پڑوسی کے ساتھ عزت  و احترام کا سلوک دیکھے، تو وہی جذبہ اس کے اندر پنپتا ہے۔ بچوں کو احترام انسانیت سکھائیں کہ انسان کی قدر اس کی حیثیت سے نہیں بل کہ انسانیت سے ہوتی ہے۔ استاد، ہمسایہ، کسان، مزدور، خاکروب حتیٰ کہ راہ چلتے لوگ، سبھی ادب کے مستحق ہیں۔ ایسے بچے بڑے ہو کر عاجز، مہذب اور باوقار ہوتے ہیں۔ یہ سلیقہ اگر بچپن میں سکھایا جائے تو ان کی پوری شخصیت باادب بن جاتی ہے۔ یاد رکھیں! ادب محبت کی جڑ، اور بے ادبی محرومی کی بنیاد ہے۔

خود احتسابی کی روش

بچوں کو اپنی غلطی کا اعتراف سکھانا ایک اعلی وصف ہے، جو انھیں مستقل طور پر سیکھنے والا انسان بناتی ہے۔ انھیں یہ نہ سکھائیں کہ غلطی پر پردہ ڈالیں، بل کہ یہ سکھائیں کہ سچائی تسلیم کریں اور آئندہ بہتری کی کوشش کریں۔ جب بچے اپنی کوتاہی پر والدین کی شفقت محسوس کریں گے تو ان میں اعتماد پیدا ہوگا۔ انھیں شرمندگی سے بچانے کے ساتھ اصلاح کی راہ بھی دکھائیں۔ یہ تربیت انھیں ضد، انا، اور جھوٹی عزت نفس سے بچاتی ہے۔ خود احتسابی انسان کو ہمیشہ نرمی اور بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسے افراد ہی معاشرے کو ترقی کی راہ پر لاتے ہیں۔

دعاؤں کا انداز سکھائیں

دعائیں صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بل کہ روح کی پرورش ہوتی ہیں۔ بچوں کو سکھائیں کہ وہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی اﷲ کا شکر ادا کریں اور دعا مانگیں۔ والدین اگر خود بچوں کے لیے نرمی، ہدایت اور حسنِ اخلاق کی دعائیں مانگیں تو بچے اس مزاج کو اپناتے ہیں۔ دعاؤں سے بچوں کے دل میں اﷲ کا قرب اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ بچوں کو دعائیں زبردستی نہ رٹوائیں بل کہ ان کے مفہوم اور اثرات سے جوڑیں۔ جب بچہ نرمی کرے، سچ بولے یا معاف کرے تو اس پر اﷲ کی رضا کی بات کریں۔ اس تعلق سے بچے کا اخلاق عبادت بن جاتا ہے۔

برداشت اور صبر کی تربیت

زندگی میں اختلافات اور تنقید سے بچنا ممکن نہیں، مگر ان سے نمٹنے کا سلیقہ سکھایا جا سکتا ہے۔ بچوں کو سمجھایا جائے کہ ہر ناپسندیدہ بات پر ردعمل دینا ضروری نہیں، بعض اوقات خاموشی ہی بہترین جواب ہوتا ہے۔ صبر، تحمل اور برداشت ان کی شخصیت میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ والدین کو خود بھی ایسے مواقع پر صبر و ضبط کا نمونہ بننا چاہیے۔ اگر بچہ ناانصافی یا سختی کا سامنا کرے، تو اسے ہم دردی سے سنیں اور برداشت کی فضیلت بتائیں۔ ایسے بچے ذہنی طور پر مضبوط اور معاشرتی طور پر پختہ بنتے ہیں۔ صبر انسان کو مایوسی اور نفرت سے بچاتا ہے۔

روزمرہ زندگی کو عملی تربیت بنائیں

بچوں کی تربیت کے لیے الگ وقت یا لیکچر ضروری نہیں، بل کہ روزمرہ کے چھوٹے واقعات ہی اصل سبق ہوتے ہیں۔ اگر والدین معمولی باتوں میں بھی اخلاقی سبق چھپا دیں، تو بچے غیر محسوس انداز میں سیکھتے جاتے ہیں۔ جیسے کسی بے کس کو کھانا دینا، یا کسی پرندے کو دانہ ڈالنا، یہ چھوٹے عمل بچوں کو رحم دلی سکھاتے ہیں۔ والدین اگر خود جھوٹ، غصہ یا بے ادبی سے بچیں، تو یہی چیز بچوں پر اثر ڈالتی ہے۔ عمل بولتا ہے، اور بچوں کے دل پر سب سے گہرا نقش عمل ہی چھوڑتا ہے۔ عملی تربیت سب سے پائیدار اور موثر تربیت ہے۔

آخری سوچ: ایک اخلاقی وراثت

بچوں کو علم و دولت دینا اہم ہے، مگر ان کے دل میں اخلاق کی روشنی منتقل کرنا سب سے بڑی وراثت ہے۔ والدین اگر اپنے عمل، طرزِ گفت گُو اور فیصلوں میں اخلاق کریمانہ کا عکس دکھائیں، تو ان کی نسلیں ناصرف دنیا میں کام یاب ہوں گی بل کہ آخرت میں بھی سرخ رُو رہیں گی۔ یہ وراثت نہ چھنتی ہے، نہ زائل ہوتی ہے، بل کہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اگر آج آپ بچوں کو نرمی، عدل، سچائی اور درگزر سکھاتے ہیں تو کل یہی بچے معاشرے کی روشنی بنیں گے۔ اخلاق صرف تربیت نہیں، بل کہ ایک نسل کی سمت کا تعین ہے۔

اﷲ تعالی ہمیں اپنی نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سکھائیں کہ والدین اگر بچوں کے دل نہیں بل کہ والدین کی کے دل میں ہوتے ہیں معاف کر کی زبان جاتی ہے ہوتا ہے بچوں کی جاتا ہے بچوں کو کے ساتھ ہوتی ہے جائے کہ بل کہ ا سے بچے تو بچے کے لیے

پڑھیں:

لاکھوں نوجوانوں کو اے آئی کی مفت تربیت کیلئے سعودیہ بھجوائیں گے: وزیراعظم

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ہونہار طلبہ وطالبات کے لئے لیپ ٹاپ سکیم 2025ء کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج اے آئی، آئی ٹی، جدید مہارت اور ٹیکنالوجیز دنیا میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کے نوجوانوں کو اے آئی اور آئی ٹی میں مفت تربیت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ سعودی ویژن 2030ء  اور فیفا ورلڈ کپ کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت سعودی عرب بھجوائیں گے۔ سعودی عرب کے معاشی پیکج پر عملدرآمد  سے پاکستان کی معیشت ترقی کرے گی۔ طلبہ وطالبات کے لیے جتنے بھی وسائل خرچ کرنا پڑے کریں گے۔ قوم کے عظیم بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم، ہنر اور ان کو عظیم پاکستانی بنانے کے لیے 50 ارب تو کیا 500 ارب بھی خرچ ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو پرائم منسٹر یوتھ لیپ ٹاپ سکیم 2025ء  کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میرے لیے یہ خوشی کا دن ہے کہ ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع دیا ہے کہ قوم کے انتہائی قابل اور ہونہار بچوں کے سامنے کھڑا ہوں جو والدین اور اساتذہ کرام کی محنت اور دعاؤں کے نتیجے میں قوم کے عظیم معمار بن رہے ہیں۔ اپنی طرف سے اور اپنی حکومت کی طرف سے بلکہ پوری قوم کی طرف سے انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ لیپ ٹاپ کے پروگرام  میں کچھ  تاخیر ہو گئی ہے کیونکہ جب یہ لیپ ٹاپ پاکستان پہنچے تو ان کے اوپر جو لوگو  لگا ہوا تھا وہ کسی حوالے سے ذاتی تشہیر کے مترادف تھا تو میں نے کہا کہ اس کے اوپر لگا لوگو مناسب نہیں  ہے، لوگو تبدیل کرنا چاہئے۔ ملک کے یہ نوجوان، یہ بیٹیاں لیپ ٹاپ لے کر پاکستان کو عظیم بنائیں گی۔ یہ میرٹ  اور شبانہ روز محنت کا امتحان ہے۔ پورے ملک میں ایک لاکھ لیپ ٹاپ میرٹ پر تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 2011ء  سے یہ پروگرام شروع ہوا۔ اگر مجموعی قیمت لگائی جائے تو تقریبا 40، 50 ارب روپے خرچ ہو چکے ہوں گے۔  50 ارب کیا 500 ارب بھی خرچ ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں۔ سعودی عرب  اے آئی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے اور اس نے اربوں ڈالر کا روڈ میپ اور انفراسٹرکچر  بنایا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستانی نوجوانوں کو اے آئی اور آئی ٹی میں مفت تربیت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، ایک نیا راستہ کھلا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے لیے معاشی پیکج دینے پر سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا۔ مجھے پوری امید ہے جب ہم سب مل کر اس پر عمل پیرا ہوں گے تو زراعت، معدنیات،کانکنی اور آئی ٹی سمیت پاکستان کی معیشت ترقی کرے گی۔ سعودی عرب میں 2030ء  میں ایک بین الاقوامی نمائش ہونے جا رہی ہے۔ وہاں پر 2034ء  میں فیفا کپ کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ اس کے لیے سعودی عرب کو  نہ صرف اربوں ڈالر کی تعمیرات کرنی ہیں بلکہ ان کو ہزاروں لاکھوں انتہائی مہارت کی حامل افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ پوری کوشش ہوگی اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ہزاروں لاکھوں ہنر مند بچے اور بچیوں کو سعودی عرب بھجوائیں گے اور پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔ لیپ ٹاپ وصول کرنے والے طلباء  و طالبات نے دن رات محنت کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ نوجوان  ذاکر اللہ نے بہت خوبصورت اردو اور عربی میں  بات کی۔ میں عربی بولنے میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہاں پر قوم کے ایک شہید کے بیٹے  سٹیج پہ آئے، ان کے والد نے قوم کے بچوں اور بچیوں کو یتیم ہونے سے بچانے کیلئے اپنا خون پاکستان کو دیا اور جام شہادت نوش کیا۔ شہید نے اپنے بیٹے کو یتیم کر دیا لیکن  قوم کے لاکھوں کروڑوں بیٹوں اور بیٹیوں کو یتیم ہونے سے بچایا۔  وزیراعظم نے لیپ ٹاپ سکیم کی تقریب کو کامیاب بنانے پر وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خان اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور ان کی پوری ٹیم کو سراہا۔ وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم کے بارے میں نوجوانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم کو سراہا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے ایم فل کرنے والے  طالب علم ذاکر اللہ نے کہا کہ یہ لیپ ٹاپ میرے لیے کافی معاون ثابت ہوا ہے۔ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد سے تعلق رکھنے والے طالب علم کامران خان نے کہا کہ  ہم سات بہن بھائی ہیں اور الحمدللہ سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔  لیپ ٹاپ سکیم کا پہنچنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ 2024ء میں لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے محمد رفیق آفریدی نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کا بیٹا ہوں۔ شہید والد کے مشن کو پورا کرنے میں وزیراعظم شہباز شریف نے میرا ساتھ دیا ہے۔ لیپ ٹاپ سکیم نے تعلیم کے حصول میں سہولت فراہم کی۔ یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کی طالبات سمیہ ضیاء  اور عائشہ ضیاء  نے بھی وزیراعظم لیپ ٹاپ سکیم کی تعریف کی اور اسے ہونہار طلبہ و طالبات کے لئے تاریخی اقدام قرار دیا۔ تقریب میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ہونہار طلباء  و طلبات میں لیپ ٹاپ بھی تقسیم کئے۔ علاوہ ازیں  وزیراعظم شہبازشریف نے صدر آصف زرداری سے ملاقات کی جس میں سیاسی امور اور پاک افغان کشیدگی پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف اور صدر آصف علی زرداری کی ملاقات ایوان صدر میں ہوئی۔ ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری، وزیر داخلہ محسن نقوی، راجہ پرویز اشرف، طارق فضل چوہدری، فاروق ایچ نائیک اور شیری رحمان، رانا ثناء اللہ، اعظم نذیرتارڑ نے بھی شرکت کی جبکہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ویڈیولنک پر ملاقات میں شریک ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے صدر مملکت کو دورہ سعودی عرب کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔ ملاقات میں آزاد کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں نئے وزیراعظم آزاد کشمیرکے نام اور حکومت سازی پر بھی بات چیت کی گئی۔ دریں اثنا وزیراعظم نے ایف بی آر میں اصلاحات کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔ 2018ء میں ہونے والے سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کیخلاف 3 ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی۔ شہبازشریف نے ہدایت کی کہ پرال کے نظام کا انٹرنیشنل فرم سے فرانزک کرایا جائے۔ اجلاس میں ورلڈ بنک کانفرنس میں شمولیت کے حوالے سے وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے ماضی میں سیلز ٹیکس میں کئے گئے فراڈ پر برہمی کا اظہار کیا۔ فراڈ اداروں، کمپنیوں اور افراد کی شناخت کے لئے تحقیقات کی ہدایت کی۔ دریں اثناء وزیراعظم شہبازشریف سے وزیر داخلہ محسن نقوی نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی۔ محسن نقوی نے اپنے حالیہ دورہ ایران اور عمان سے متعلق آگاہ کیا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم سے بلوچستان کے ممبر قومی اسمبلی میاں خان بگٹی بھی ملے۔ ملاقات کے دوران حلقے کے مسائل اور دیگر امور پر گفتگو کی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • لاکھوں نوجوانوں کو اے آئی کی مفت تربیت کیلئے سعودیہ بھجوائیں گے: وزیراعظم
  • پولیس رویہ۔۔ حسنین اخلاق بھی عدیل اکبر کی راہ پر؟
  • اُف نہ کہنا، غُصّے کا اظہار نہ کرنا
  • بلوچستان میں والدین و اساتذہ پر مشتمل اسکول انتظامی کمیٹیوں کا قیام
  • سعودی عرب نے نوجوانوں کو اے آئی، آئی ٹی تربیت دینے کی پیشکش کی ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • وفاقی حکومت طلبہ کو اے آئی تربیت کے لیے سعودی عرب بھجوائے گی، وزیراعظم کا اعلان
  • نیشنل لاء یونیورسٹی کے قیام کو لیکر بی جے پی کا عمر عبداللہ پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام
  • بچوں کی تعلیم کیلئے غیر سرکاری اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، گلبر خان