Express News:
2025-08-01@16:40:05 GMT

اخلاق کریمانہ، تربیت اطفال کی بنیاد

اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT

بچوں کی تربیت محض دنیاوی سہولیات کی فراہمی تک محدود نہیں، بل کہ ان کے باطن میں خیر، حیا، سچائی اور عدل جیسے اوصاف پیدا کرنا اصل کام یابی ہے۔ جس معاشرے کے والدین اپنی اولاد کے ظاہر سے زیادہ ان کے اخلاق پر توجہ دیتے ہیں، وہی قومیں دیرپا ترقی کرتی ہیں۔

اخلاق کریمانہ یعنی عمدہ اخلاق بچوں کے دلوں کو نرمی، محبت، اور انسان دوستی سے لبریز کر دیتے ہیں۔ ان خوبیوں کا آغاز گھر کے ماحول سے ہوتا ہے، جہاں ہر دن ایک سبق، اور ہر عمل ایک نمونہ بن جاتا ہے۔ والدین کی زبان، مزاج، اور کردار ہی بچوں کی اصل درس گاہ ہوتے ہیں۔ اگر ان کی اپنی زندگی میں اخلاق کا نُور ہو، تو بچے قدرتی طور پر اسی راہ کے مسافر بنتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک صالح فرد، اور پھر ایک مثالی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔

والدین پہلی درس گاہ

بچوں کے لیے والدین صرف نگران نہیں بل کہ آئینہ ہوتے ہیں، جن میں وہ اپنا آپ دیکھتے اور پہچانتے ہیں۔ اگر والدین کی باتوں میں نرمی، رویے میں تحمل، اور دل میں وسعت ہو تو بچے انھیں ہی معیار بناتے ہیں۔

بچوں کی پہلی تربیت زبان سے کم، طرزِ عمل سے زیادہ ہوتی ہے۔ جب بچہ غصہ، تلخی یا بے صبری دیکھتا ہے، تو وہی انداز اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ماں باپ اگر گھر میں رواداری، شکر گزاری اور خندہ پیشانی کا ماحول رکھیں تو یہ مزاج بچے میں راسخ ہو جاتا ہے۔ قرآن نے رسول اﷲ ﷺ کے نرم دل ہونے کو لوگوں کے قریب کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔ بچوں کی پہلی تربیت محبت، قبولیت اور اعتماد سے ہی ممکن ہوتی ہے۔

سچائی کی بنیاد بچپن میں رکھیں

بچپن میں جو بات دل میں بیٹھ جائے، وہ پوری زندگی کا اصول بن جاتی ہے۔ اگر سچ بولنا والدین کے عمل اور گفت گو میں نمایاں ہو، تو بچے اسے معمول سمجھ کر اپناتے ہیں۔ سچائی صرف بولنے کی عادت نہیں بل کہ کردار، عزت اور اعتماد کی جڑ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے وعدے کر کے پورے کریں، اور جھوٹ یا فریب کو معمولی بھی نہ سمجھیں۔ بچوں کو سچ بولنے پر سراہا جائے، نہ کہ ڈرایا جائے۔ سچ بولنے والا بچہ زندگی کے ہر موڑ پر صاف ضمیر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

نرم گفتاری سکھائیں

بچوں کی زبان پر وہی الفاظ آتے ہیں جو وہ سنتے ہیں، اور ان کے لہجے میں وہی اثر ہوتا ہے جو وہ ماحول سے جذب کرتے ہیں۔ والدین اگر غصے، طنز یا سختی سے بات کرتے ہیں، تو بچوں میں بھی یہی رنگ آ جاتا ہے۔ اگر ماں، باپ محبت، لحاظ اور ادب سے گفت گُو کریں، تو بچہ نرم گو، صلح جُو اور ملن سار بنتا ہے۔ نرمی سے بات کرنا دل کو کھولتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے جابر کے سامنے بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔ بچوں کی زبان پر نرمی لانے کے لیے خود والدین کی زبان میں نرمی ضروری ہے۔ نرم گفتاری انسان کے اخلاق کا پہلا زینہ ہے۔

معافی اور درگزر کی عادت ڈالیں

ہر بچہ غلطی کرتا ہے، لیکن اصل تربیت یہ ہے کہ اسے معاف کرنا سکھایا جائے، نہ کہ مسلسل شرمندہ کیا جائے۔ بچوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ درگزر کرنا کم زوری نہیں بل کہ بڑا ظرف ہے۔ انہیں سمجھایا جائے کہ دوسروں کو معاف کر دینا ایک روحانی طاقت ہے جو انسان کو بلند کر دیتی ہے۔ اگر بچہ غصے میں ہو، تو اس وقت اسے سختی سے روکنے کے بہ جائے نرمی سے سمجھایا جائے کہ تحمل ہی اصل طاقت ہے۔ قرآن حکیم میں ہمیں بتایا گیا ہے، مفہوم: ’’جو معاف کرے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اﷲ کے ذمے ہے۔‘‘ (الشوریٰ) بچوں کے دل میں وسعت پیدا کرنا، ان کے لیے مستقبل میں کام یابی کے دروازے کھولتا ہے۔ درگزر کا مزاج معاشرتی ہم آہنگی کی جڑ ہے۔

شکرگزاری اور عاجزی سکھائیں

بچے اگر چھوٹی نعمتوں پر شکر ادا کرنا سیکھ جائیں، تو ان کے دل میں حرص اور ناشکری کی جگہ قناعت پیدا ہو جاتی ہے۔ والدین خود الحمدﷲ، جزاک اﷲ اور ماشاء اﷲ جیسے الفاظ استعمال کریں تاکہ بچے بھی یہ زبان سیکھیں۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت انہیں خاک ساری سکھاتا ہے۔ اگر بچے ہر نعمت کو اﷲ کی عطا سمجھیں، تو ان میں تکبر، حسد اور منفی مسابقت ختم ہو جاتی ہے۔ والدین کا عمل اگر شکر گزاری ہو تو بچے خود بہ خود اس روش پر آتے ہیں۔ ایسے بچے دوسروں کے لیے بھی سکون اور خیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عاجزی اور شکر گزاری دل کو روشن اور زبان کو نرم بناتی ہے۔

دوسروں کا ادب اور احترام

ادب و احترام کسی نصاب کی کتاب میں نہیں، بل کہ ماحول سے منتقل ہوتا ہے۔ اگر بچہ اپنے گھر میں ملازم، مہمان یا پڑوسی کے ساتھ عزت  و احترام کا سلوک دیکھے، تو وہی جذبہ اس کے اندر پنپتا ہے۔ بچوں کو احترام انسانیت سکھائیں کہ انسان کی قدر اس کی حیثیت سے نہیں بل کہ انسانیت سے ہوتی ہے۔ استاد، ہمسایہ، کسان، مزدور، خاکروب حتیٰ کہ راہ چلتے لوگ، سبھی ادب کے مستحق ہیں۔ ایسے بچے بڑے ہو کر عاجز، مہذب اور باوقار ہوتے ہیں۔ یہ سلیقہ اگر بچپن میں سکھایا جائے تو ان کی پوری شخصیت باادب بن جاتی ہے۔ یاد رکھیں! ادب محبت کی جڑ، اور بے ادبی محرومی کی بنیاد ہے۔

خود احتسابی کی روش

بچوں کو اپنی غلطی کا اعتراف سکھانا ایک اعلی وصف ہے، جو انھیں مستقل طور پر سیکھنے والا انسان بناتی ہے۔ انھیں یہ نہ سکھائیں کہ غلطی پر پردہ ڈالیں، بل کہ یہ سکھائیں کہ سچائی تسلیم کریں اور آئندہ بہتری کی کوشش کریں۔ جب بچے اپنی کوتاہی پر والدین کی شفقت محسوس کریں گے تو ان میں اعتماد پیدا ہوگا۔ انھیں شرمندگی سے بچانے کے ساتھ اصلاح کی راہ بھی دکھائیں۔ یہ تربیت انھیں ضد، انا، اور جھوٹی عزت نفس سے بچاتی ہے۔ خود احتسابی انسان کو ہمیشہ نرمی اور بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسے افراد ہی معاشرے کو ترقی کی راہ پر لاتے ہیں۔

دعاؤں کا انداز سکھائیں

دعائیں صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بل کہ روح کی پرورش ہوتی ہیں۔ بچوں کو سکھائیں کہ وہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی اﷲ کا شکر ادا کریں اور دعا مانگیں۔ والدین اگر خود بچوں کے لیے نرمی، ہدایت اور حسنِ اخلاق کی دعائیں مانگیں تو بچے اس مزاج کو اپناتے ہیں۔ دعاؤں سے بچوں کے دل میں اﷲ کا قرب اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ بچوں کو دعائیں زبردستی نہ رٹوائیں بل کہ ان کے مفہوم اور اثرات سے جوڑیں۔ جب بچہ نرمی کرے، سچ بولے یا معاف کرے تو اس پر اﷲ کی رضا کی بات کریں۔ اس تعلق سے بچے کا اخلاق عبادت بن جاتا ہے۔

برداشت اور صبر کی تربیت

زندگی میں اختلافات اور تنقید سے بچنا ممکن نہیں، مگر ان سے نمٹنے کا سلیقہ سکھایا جا سکتا ہے۔ بچوں کو سمجھایا جائے کہ ہر ناپسندیدہ بات پر ردعمل دینا ضروری نہیں، بعض اوقات خاموشی ہی بہترین جواب ہوتا ہے۔ صبر، تحمل اور برداشت ان کی شخصیت میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ والدین کو خود بھی ایسے مواقع پر صبر و ضبط کا نمونہ بننا چاہیے۔ اگر بچہ ناانصافی یا سختی کا سامنا کرے، تو اسے ہم دردی سے سنیں اور برداشت کی فضیلت بتائیں۔ ایسے بچے ذہنی طور پر مضبوط اور معاشرتی طور پر پختہ بنتے ہیں۔ صبر انسان کو مایوسی اور نفرت سے بچاتا ہے۔

روزمرہ زندگی کو عملی تربیت بنائیں

بچوں کی تربیت کے لیے الگ وقت یا لیکچر ضروری نہیں، بل کہ روزمرہ کے چھوٹے واقعات ہی اصل سبق ہوتے ہیں۔ اگر والدین معمولی باتوں میں بھی اخلاقی سبق چھپا دیں، تو بچے غیر محسوس انداز میں سیکھتے جاتے ہیں۔ جیسے کسی بے کس کو کھانا دینا، یا کسی پرندے کو دانہ ڈالنا، یہ چھوٹے عمل بچوں کو رحم دلی سکھاتے ہیں۔ والدین اگر خود جھوٹ، غصہ یا بے ادبی سے بچیں، تو یہی چیز بچوں پر اثر ڈالتی ہے۔ عمل بولتا ہے، اور بچوں کے دل پر سب سے گہرا نقش عمل ہی چھوڑتا ہے۔ عملی تربیت سب سے پائیدار اور موثر تربیت ہے۔

آخری سوچ: ایک اخلاقی وراثت

بچوں کو علم و دولت دینا اہم ہے، مگر ان کے دل میں اخلاق کی روشنی منتقل کرنا سب سے بڑی وراثت ہے۔ والدین اگر اپنے عمل، طرزِ گفت گُو اور فیصلوں میں اخلاق کریمانہ کا عکس دکھائیں، تو ان کی نسلیں ناصرف دنیا میں کام یاب ہوں گی بل کہ آخرت میں بھی سرخ رُو رہیں گی۔ یہ وراثت نہ چھنتی ہے، نہ زائل ہوتی ہے، بل کہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اگر آج آپ بچوں کو نرمی، عدل، سچائی اور درگزر سکھاتے ہیں تو کل یہی بچے معاشرے کی روشنی بنیں گے۔ اخلاق صرف تربیت نہیں، بل کہ ایک نسل کی سمت کا تعین ہے۔

اﷲ تعالی ہمیں اپنی نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سکھائیں کہ والدین اگر بچوں کے دل نہیں بل کہ والدین کی کے دل میں ہوتے ہیں معاف کر کی زبان جاتی ہے ہوتا ہے بچوں کی جاتا ہے بچوں کو کے ساتھ ہوتی ہے جائے کہ بل کہ ا سے بچے تو بچے کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو والد کی پینشن حق کی بنیاد پر دینے کا فیصلہ

فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو والد کی پینشن شادی کی حیثیت سے نہیں بلکہ حق کی بنیاد پر دینے کا فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو والد کی پینشن دینے سے متعلق فیصلہ جاری کرتے ہوئے سندھ حکومت کا امتیازی سرکلر کالعدم قرار دے دیا۔

جسٹس عائشہ ملک کے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پینشن خیرات یا بخشش نہیں بلکہ ایک آئینی و قانونی حق ہے جو سرکاری ملازم کے اہل خانہ کو منتقل ہوتا ہے اور اس میں تاخیر جرم کے زمرے میں آتی ہے۔

سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت نے واضح کیا کہ بیٹی کی پینشن شادی کی حیثیت کے بجائے مالی ضرورت اور حق کی بنیاد پر دی جانی چاہیے، طلاق کا وقت والد کی وفات سے پہلے یا بعد میں غیر متعلقہ ہے۔

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے 2022 کے امتیازی سرکلر کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیٹی کی پینشن کو شادی سے مشروط کرنا آئین کے آرٹیکل 9، 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا صنفی مساوات میں عالمی درجہ بندی میں آخری نمبر پر ہونا افسوس ناک ہے۔

واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے درخواست گزار فاطمہ کی پینشن بحال کی تھی تاہم سندھ حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جسے مسترد کر دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • بنگلہ دیشی فوج نے میجر صادق کو حراست میں لے لیا، حکومتی مخالفین کی تربیت کا الزام
  • دودھ پلانا ہمارے بچوں کو تحفظ دینے کے چند فطری اور موثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے،خاتون اول
  • مستونگ واقعہ ،پسند کی شادی کرنیوالوں کی جان کس طرح لی گئی ،انکشاف سے ہلچل مچ گئی
  • ڈی این اے نے 40 سالہ شادی کا پول کھول دیا: بچے کسی اور کے نکلے
  • کوئٹہ میں دل دہلا دینے والا واقعہ، دو کمسن بچیوں کی بوری بند لاشیں برآمد
  • دہلی سے 3 کم عمر مداح سلمان خان سے ملنے کیلیے گھر سے بھاگ گئے، پھر کیا ہوا؟
  • سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو والد کی پینشن حق کی بنیاد پر دینے کا فیصلہ
  • والدین اولاد کو تربیت دیں کہ’’ ایمان ہے تو امان ہے‘‘، ڈاکٹر طاہر القادری
  • 30لاکھ نوجوانوں کو مفت ڈیجیٹل اسکلز کی تربیت فراہم کرنے کا پروگرام پرسوں سے شروع