حریت کانفرنس کشمیر یوں کا ایک مستند نمائندہ پلیٹ فارم ہے، محمد صفی
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں حریت کنوینر کا کہنا تھا کہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران حریت کانفرنس کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے کر کشمیریوں کی پرامن جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے حالیہ اشتعال انگیز بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”حریت کانفرنس” ایک دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ حق خوداردیت کیلئے پرامن جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کا ایک مستند نمائندہ پلیٹ فارم ہے۔ ذرائٰع کے مطابق حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران حریت کانفرنس کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے کر کشمیریوں کی پرامن جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کی ایک بھونڈی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کا یہ بیان مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی مسلسل ناکامیوں، بھرپور عوامی مزاحمت اور عالمی برادری کی تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بڑھتی ہوئی دلچسپی سے پیدا ہونے والی بھارتی بوکھلاہٹ کا واضح عکاس ہے۔
انہوں کہا کہ حریت کانفرنس کشمیریوں کی معتبر نمائندہ آواز ہے جو اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے۔
غلام محمد صفی نے مزید کہا کہ مودی حکومت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت سلب کر کے دراصل علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا راستہ ہموار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری حسب سابق 5 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منا کر بھارت کو یہ واضح پیغام دیں گے کہ وہ اس کے غیر قانونی اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور حق خودارادیت کے لیے اپنی جدوجہد کو ہر قیمت پر اسکے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور یورپی یونین سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں انسانیت کے خلاف جاری سنگین جرائم کا نوٹس لیں اور کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق، حق خودارادیت دلانے کیلئے کردار ادا کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حریت کانفرنس کہا کہ
پڑھیں:
وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے کہا کہ یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو منسوخ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے وقف قانون کی کچھ دفعات پر جزوی ترمیم اور ایک پر مکمل طور سے روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ ’’انصاف اب بھی زندہ ہے‘‘۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق اپنا یہ اطمینان ظاہر کیا ہے۔
اس پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کرتی ہے۔ اس عبوری راحت نے ہماری اس امید کو یقین میں بدل دیا ہے کہ انصاف اب بھی زندہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ جمعیۃ علماء ہند اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لینے کی ایک آئین مخالف سازش ہے، اس لئے جمعیۃ علماء ہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل آئینی انصاف فراہم کرے گا۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے آج وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی کچھ دفعات پر روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے وقف کرنے کے لئے 5 سال تک اسلام پر عمل کرنا لازمی قرار دینے والے التزام پر اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ متعلقہ ضابطہ قائم نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ اب کلکٹر کو جائیداد تنازعہ پر فیصلہ لینے کا حق نہیں ہوگا۔ اپنے عبوری فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زائد غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ مرکزی وقف بورڈ میں 4 سے زائد غیر مسلم اراکین نہیں ہوں گے۔