حریت پسندکشمیری رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور کشمیر کی ایک نمایاں سیاسی شخصیت پروفیسر عبدالغنی بٹ شمالی کشمیر کے اپنے آبائی علاقے سوپور میں انتقال کر گئے۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق سمیت دیگر سیاسی شخصیات نے پروفیسر عبدالغنی کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
پروفیسر عبدالغنی بارہمولہ ضلع کے بوٹینگو، سوپور کے رہائشی تھے اور اہل خانہ کے مطابق مختصر علالت کے بعد وہ اپنے گھر پر ہی فوت ہو گئے۔ وہ کئی دہائیوں تک کشمیر کی علیحدگی پسند سیاست میں متحرک رہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی حقِ خودارادیت کی جدوجہد کے لیے وقف کی، ان کی بلند سوچ، جرات مندانہ موقف اور سیاسی بصیرت کشمیری عوام کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ مرحوم کی وفات نہ صرف کشمیر بلکہ پوری تحریکِ آزادی کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
سابق حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کا انتقال
https://t.
— Kashmir Uzma (@kashmiruzma) September 17, 2025
Post Views: 7ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پروفیسر عبدالغنی
پڑھیں:
کشمیری رہنماﺅں کو عبدالغنی کے جنازے میں شرکت سے روک دیاگیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سرینگر: مودی سرکاری نے کشمیری رہنماﺅں کو حریت رہنما عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کے لیے گھر وں پر نظر بند کردیا۔مقبوضہ کشمیر کی کئی سیاسی لیڈروں نے انہیں خانہ نظر بند کر کے حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ ”جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت“ کو عیاں کرتا ہے۔
انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ”صرف اس لیے گھروں میں نظر بند کیا گیا کہ ہم سوپور جا کر پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر تعزیت نہ کر سکیں۔“محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ ”دکھ اور بے چینی کو سیاسی مفاد کے لیے ہتھیار بنا رہی ہے۔“پروفیسر بٹ کے قدیم ساتھی اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سوپور جانے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا ”میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی ضرورت تھی۔ پروفیسر صاحب ایک پرامن شخصیت کے مالک تھے اور برسوں سے عملی سیاست سے الگ ہو چکے تھے۔ ان کو آخری الوداع کہنا سب کا حق تھا۔“
ادھر میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق، جو ان کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں، نے الزام عائد کیا کہ حکام نے جنازہ جلد بازی میں کرایا اور انہیں بٹ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا ”یہ ناقابلِ بیان دکھ ہے کہ حکام نے پروفیسر صاحب کے جنازے کو عجلت میں نمٹا دیا۔ مجھے گھر میں بند رکھا گیا اور آخری سفر میں شریک ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ میری رفاقت اور رہنمائی کا رشتہ 35 سال پر محیط تھا۔ اتنے لوگوں نے ان کا آخری دیدار کرنے کی خواہش کی تھی، مگر ہمیں اس حق سے بھی محروم رکھنا ظلم ہے۔“