ننجا تلواریں کیوں بین ہو گئیں؟ برطانیہ کا حیران کن قدم
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
برطانیہ کے وزیرِ اعظم نے ’ننجا تلواروں‘ پر پابندی عائد کر دی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق یہ پابندی انگلینڈ اور ویلز میں جمعہ سے نافذ ہو چکی ہے، اور اب کسی بھی شخص کے لیے ایسی تلوار کو عوامی مقام پر رکھنے پر چار سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:برطانیہ میں فسادات: چینل 3 ناؤ کا گرفتار صحافی 4 روزہ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے
یہ فیصلہ چاقو سے ہونے والے پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے حکومت کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔
جولائی میں ایک ماہ پر مشتمل معافی مہم کے دوران ایک ہزار سے زائد خطرناک ہتھیار عوام سے واپس لیے گئے۔
یہ پابندی اس وقت عمل میں آئی جب 2024 میں 17 سالہ ایکسل روداکوبانا نے جنوبی بندرگاہی شہر ساؤتھ پورٹ میں ایک بچوں کے پروگرام کے دوران 3 لڑکیوں کو قتل اور 10 دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔
یہ واقعہ امریکا کی گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ سے منسوب ایک تقریب میں پیش آیا۔
اس سانحے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور حکومت نے آن لائن ہتھیاروں کی فروخت پر سخت قوانین، عمر کی سخت تصدیق، اور ’زومبی نائفز‘ و ’میچیٹیز‘ جیسے خنجر نما ہتھیاروں پر مکمل پابندی کا وعدہ کیا۔
2024 میں وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے چاقو سے متعلق جرائم کو ’وبا کی سطح تک پہنچا ہوا مسئلہ‘ قرار دیا تھا اور اس کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ کیا۔
انہوں نے بعد ازاں ننجا تلواروں پر پابندی کی بھی تصدیق کی اور کہا کہ حکومت اپنے وعدے پورے کرے گی۔
یہ نیا قانون ’رونن لا‘ کا حصہ ہے، جس کا نام 16 سالہ رونن کانڈا کے نام پر رکھا گیا ہے، جسے 2022 میں ننجا تلوار سے قتل کیا گیا تھا۔
پولیس و کرائم کمشنرز کی ایسوسی ایشن (APCC) کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے خاص طور پر گینگ تشدد سے منسلک ہتھیاروں کی دستیابی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ لوگ چاقو کیوں رکھتے ہیں اور اس رجحان کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔
پابندی سے پولیس کو یہ ہتھیار ضبط کرنے اور عوام کو تحفظ دینے کے لیے اضافی اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔
گھر میں ننجا تلوار رکھنے پر 6 ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، تاہم اگر پارلیمنٹ میں زیرِ غور نئے کرائم اینڈ پولیسنگ بل کو منظور کر لیا گیا تو یہ سزا 2 سال تک بڑھ سکتی ہے۔
برطانوی وزارتِ داخلہ کے مطابق گزشتہ دہائی میں چاقو سے متعلق جرائم میں 87 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
صرف گزشتہ سال کے دوران 55,000 سے زائد چاقو حملوں کے واقعات رپورٹ ہوئے، جو کہ 2023 کے مقابلے میں 2 فیصد زیادہ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹارمر برطانوی وزارت داخلہ برطانیہ چاقو رونن لا ننجا تلوار.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹارمر برطانوی وزارت داخلہ برطانیہ چاقو رونن لا ننجا تلوار ننجا تلوار چاقو سے کے لیے
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔