سیلاب میں بہہ جانیوالوں کی تلاش ختم، غائبانہ نماز جنازہ ادا کردی گئی
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
گلگت بلتستان میں بابو سرٹاپ پر سیلابی ریلے میں بہنے والے 10 افراد کی تلاش میں کامیابی نہ مل سکی اور 14 روز بعد سرچ آپریشن روک دیا گیا جب کہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق بابو سرٹاپ کے مقام پر سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے افراد کے بچنے کی امیدیں ختم ہوگئیں، لاپتہ افراد کی تلاش روک دی گئی جب کہ سرچ آپریشن 14 روز تک جاری رہا۔
ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللہ فراق کے مطابق آپریشن کے دوران ملبے سے تمام گاڑیاں نکال جاچکی ہیں لیکن لاپتہ افراد کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
ترجمان گلگت بلتستان حکومت کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشن ختم کرکے لاپتہ افراد کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کر دی گئی ۔
حالیہ مون سون سیزن میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں بھی دریا سے ملحقہ علاقوں میں کافی نقصان ہوا ، جہلم میں 16 روز بعد بھی سڑکیں اوررابطہ پل بحال نہ ہوسکے۔
تونسہ کے مقام پر سیلابی پانی سے 33 کے قریب مواضعات زیرآب آگئے جبکہ لیہ کے نشیبی علاقے میں بہہ جانے والے گائیڈ بند کی تعمیر دوبارہ شروع کردی گئی ۔
ادھر محکمہ موسمیات نے گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں رواں ہفتے طوفانی بارش کا امکان ظاہر کردیا ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں گلیشیئر اور جھیل پھٹنے کا الرٹ جاری کردیا گیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق برفانی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور فلیش فلڈز کا خدشہ ہے، بعض مقامات پر موسلا دھار بارشیں متوقع ہے۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں اور متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ ممکنہ خطرات کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ کو خبردار کر دیا گیا ۔
یاد رہے کہ حالیہ مون سون بارشوں نے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں شدید تباہی مچائی ہے اور بارشوں کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔
ضلع دیامر، گلگت اور غذر میں ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے، 21 جولائی کو شاہراہ بابوسر پر ریلہ کئی سیاحوں کو بہا لے گیا تھا، اب تک 10 سے زائد افراد لاپتا ہیں جن کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان علاقوں میں
پڑھیں:
معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
گلگت:سن 1948 کی جنگِ آزادی میں گلگت بلتستان کے جانبازوں نے اپنی جرات، بہادری اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔
اسی معرکے کے ایک غازی، علی مدد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس تاریخی جدوجہد کی جھلک پیش کی۔
غازی علی مدد کے مطابق ’’میں 1948 میں گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ جنگ آزادی کے دوران بھارت کی جانب سے ہم پر بمباری کی جاتی تھی۔ دشمن نے اسپتالوں، پلوں اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر ایمان، عزم اور وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں ناقابلِ شکست قوت بخشی۔ ڈمبوداس کے مقام پر ہم نے گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کیا۔ کئی دشمن مارے گئے اور تقریباً 80 کو قیدی بنا کر ان کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔
غازی علی مدد نے مزید بتایا کہ گلگت کے جانبازوں نے دشمن کو اسکردو سے پسپا کرتے ہوئے کھرمنگ اور پھر لدّاخ تک کا سفر کیا۔ ہم لدّاخ پہنچے تو دشمن وہاں سے فرار ہو چکا تھا، تین سال بعد ہم واپس گلگت لوٹے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے پہلے مہاراجا کی فوج گلگت چھوڑ کر جا چکی تھی، جس کے بعد علاقے کی دفاعی ذمہ داری گلگت اسکاؤٹس کے سپرد کی گئی۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بونجی کے پل کو جلانے کی ذمہ داری ایک پلٹن کو دی گئی، جس کے بعد مختلف مقامات پر شدید لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کے ٹھکانوں اور دکانوں پر قبضہ کیا اور مقامی علاقوں کو محفوظ بنایا۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کروں، مگر یہ اعزاز میرے بیٹے کو نصیب ہوا۔ میرے تین بیٹے اب بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وطن کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
غازی علی مدد اور ان جیسے بے شمار جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1948 میں گلگت بلتستان نے آزادی حاصل کی۔ آج بھی یہ غازیانِ وطن پاکستان کے دفاع اور آزادی کی علامت ہیں۔