واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس سے تیل خریدنے پر بھارت کو اضافی تجارتی ٹیرف کی دھمکی کے بعد بھارت نے سخت ردعمل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ امریکہ خود بھی روس سے مختلف اشیاء درآمد کرتا ہے، اس لیے بھارت پر تنقید غیر منصفانہ ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں کہا ”امریکہ اپنی نیوکلیئر انڈسٹری کے لیے روس سے یورینیم کمپاؤنڈ خریدتا ہے، اسے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر بھارت روس سے رعایتی تیل لے تو اعتراض شروع ہو جاتا ہے؟“

بھارتی حکام کے مطابق ہماری توانائی کی ضروریات، معیشت اور صارفین کے مفادات کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ پر، بھارت کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ بھارت نے یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد روس سے تیل درآمد کرنا اس وقت شروع کیا جب روایتی سپلائیز یورپ کی طرف منتقل کر دی گئی تھیں۔ امریکہ نے اس وقت خود بھارت کو روسی درآمدات کی ترغیب دی تاکہ عالمی توانائی مارکیٹ میں استحکام قائم رکھا جاسکے۔

Statement by Official Spokesperson⬇️
???? https://t.

co/O2hJTOZBby pic.twitter.com/RTQ2beJC0W

— Randhir Jaiswal (@MEAIndia) August 4, 2025


بھارت کی جانب سے بیان بھی جاری کیا گیا جس مں کہا گیا کہ 2024 میں یورپی یونین نے روس کے ساتھ 67.5 ارب یورو کی اشیا کی دو طرفہ تجارت کی، جب کہ خدمات کی مد میں 17.2 ارب یورو کی تجارت ہوئی۔ اس کے برعکس بھارت کی روس کے ساتھ تجارت یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

بھارت نے بیان میں مزید کہا کہ 2024 میں یورپی ممالک نے روس سے 1 کروڑ 65 لاکھ ٹن قدرتی گیس درآمد کی، جو 2022 کے ریکارڈ 1 کروڑ 52 لاکھ ٹن سے بھی زیادہ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یورپ اور روس کی باہمی تجارت صرف توانائی تک محدود نہیں بلکہ کھاد، معدنیات، کیمیکل، فولاد، مشینری اور ٹرانسپورٹ آلات پر بھی مشتمل ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق امریکہ آج بھی روس سے جوہری صنعت کے لیے یورینیم ہیگزا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پیلڈیم، کھاد اور دیگر کیمیکل درآمد کر رہا ہے۔

قبل ازیں، حالیہ بیان میں روس سے تیل خریدنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر عائد ٹیرف مزید بڑھانے کا اعلان کردیا۔ سوشل میڈیا پر جاری بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت نہ صرف بڑی مقدار میں روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ اسے فروخت کرکے منافع بھی کما رہا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت کو کوئی پرواہ نہیں کہ یوکرین میں روسی فوج کے ہاتھوں کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اب بھارت پر ٹیرف میں اور بھی اضافہ کرنے جا رہا ہوں۔

واضح رہے کہ بھارت روزانہ تقریباً 20 لاکھ بیرل روسی تیل درآمد کرتا ہے اور یہ اس کی کل تیل درآمدات کا بڑا حصہ بن چکا ہے، جس سے بھارت کو مالی طور پر بڑا فائدہ ہو رہا ہے۔

اضافی تجارتی ٹیرف بعد بھارتی صحافیوں کا رد عمل

ٹرمپ کی طرف سے بھارت پر مزید اضافی ٹیرف لگائے جانے پر بھارتی صحافیوں کا ردعمل سامنے آیا ہے۔

بھارتی صحافی راہول شوشنکر نے ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ٹرمپ نے بھارت کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیرف میں ”کافی حد تک اضافہ“ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کے سامنے ’’مودی کے ہتھیار ڈالنے‘‘ کی بات سراسر غلط ہے۔

TOTALLY LOST IT!

Trump threatens to "substantially raise" tariffs paid by India.

What this proves is that the talk of "Modi surrendering" to U.S.A led by Trump is totally misconceived. pic.twitter.com/li8Bp74zWs

— Rahul Shivshankar (@RShivshankar) August 4, 2025


سونم ماہاجن نامی خاتون صحافی نے لکھا کہ اسٹریٹجک لحاظ سے واشنگٹن ایشیا میں اپنے سب سے اہم شراکت داری کو تیزی کے ساتھ ضائع کر رہا ہے۔ نیو دہلی کو اب علاقے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

In strategic terms, Washington is fast squandering its most consequential partnership in Asia. New Delhi must now prepare for heightened regional volatility.

— Sonam Mahajan (@AsYouNotWish) August 4, 2025


ایک اور بھارت کے صحافی شیکھر گپتا نے ایکس پر اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ ٹرمپ کا غصہ کسی اصول یا پالیسی پر نہیں ہے۔ یہ ایک خود پسند شخص کا غصہ ہے جو جنگ بندی کے لیے تعریفی سراہنا نہ ملنے پر دونوں ممالک (بھارت-امریکہ) کے تعلقات کو نقصان پہنچا رہا ہے جو تین دہائیوں میں تعمیر ہوئے تھے۔

متھو کرشنن نامی صحافی نے بھارت پر ٹرمپ کے عائد کردہ اضافی ٹیرف کے خلاف ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ روسی تیل خریدنا ہماری مرضی ہے، حالانکہ یہ اب بھارت اور امریکہ کے درمیان تنازعہ کا سبب بن چکا ہے۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی عوام کو روس سے سستا تیل درآمد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم ابھی بھی ایندھن کی قیمتیں بہت زیادہ ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ نہیں جانتا کہ روسی تیل سے کس کو فائدہ ہوا۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے بلند ٹیرف سے کئی شہری متاثر ہوں گے۔

کسی کو فائدہ نہیں، بس عام آدمی کے لیے درد ہی درد۔
برطانوی سیاستدان ربیکا اسمتھ نے بھی اس حوالے سے ٹوئٹ میں لکھا کہ ٹرمپ جانتا ہے کہ بھارت صرف دباؤ کے سامنے ردعمل دیتا ہے، انہوں نے پہلے بھی یہ کیا تھا، اور اب دوبارہ کر رہے ہیں۔

ربیکا اسمتھ کا کہنا تھا کہ ٹیرف لگانے سے لے کر بھارت کے روسی تیل کو دوبارہ فروخت کے کھیل کو بے نقاب کرنے تک، وہ مودی کے ”شراکت دار“ کے کردار کو نہیں خرید رہا۔ کیونکہ جب دباؤ ڈالا جاتا ہے تو بھارت ہر بار ہار مان لیتا ہے۔

علاوہ ازیں جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر سیکیورٹی اور ڈیٹرنس جیسے موضوعات کی خاص مہارت رکھنے والی ڈاکٹر رابعہ اختر نے بھارت کے خلاف ٹوئٹ میں لکھا کہ بھارت تم نے روسی تیل چھوڑا پھر اسے یورپ کی جانب بھیجا اور اب ہمیں الزام دیتے ہو کہ ہم وہی خرید رہے ہیں جو تم نے چھوڑا۔

انہوں نے لکھا کہ دہائیوں سے پاکستان کو ہر اقدام، ہر شراکت داری، اپنے دفاعی موقف، اور توانائی کے تنوع کی وضاحت دینا پڑی۔ چاہے ایران سے تعلقات بڑھانا ہو، چین کے ساتھ اسٹریٹجک ہم آہنگی برقرار رکھنی ہو، یا خود انحصاری کے لیے دوہری استعمال والی ٹیکنالوجیز کی تلاش ہو، مغرب سے جواب ہمیشہ ایک ہی رہا: غیر ذمہ دارانہ، عدم استحکام پیدا کرنے والا۔

ڈاکٹر رابعہ اختر نے مزید لکھا کہ اب بھارت روسی تیل کی درآمدات کا دفاع کرنے کے لیے ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کا حوالہ دیتا ہے، مگر سوال کیے جانے پر چڑھ جاتا ہے۔ اچانک قومی مفاد مقدس ہو گیا، اور خود مختاری غیر مذاکرہ شدہ ہوگئی۔ آخرکار بھارت کو وہ تجربہ ہو رہا ہے جو کبھی اس نے خود ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: تیل درآمد بھارت کو بھارت پر نے بھارت کہ بھارت روسی تیل رہے ہیں ٹرمپ کی لکھا کہ کے ساتھ رہا ہے کے لیے کی طرف

پڑھیں:

خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ

اسلام ٹائمز: ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں، جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔  خصوصی رپورٹ:
  ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ میں جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ تجربات کے اسٹریٹجک، سفارتی اور ماحولیاتی سطحوں پر وسیع اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے وزارتِ جنگ کو فوراً جوہری تجربات کے عمل کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حریف طاقتوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ایسی ہی پیشگی سرگرمیوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی کسی بھی حریف طاقت نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں کیے۔ اگرچہ امریکہ نے بھی 1992ء سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا، تاہم یہ اعلان اسٹریٹجک، سفارتی، ماحولیاتی، صحتی، معاشی اور داخلی سطحوں پر گہرے مضمرات کا حامل ہے۔

اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات: ٹرمپ کے اس اعلان سے دنیا میں جوہری توازن اور سیکورٹی کا عالمی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدام مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ’’زیرِ زمین دھماکوں کے ایک سلسلے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ روس نومبر 2023ء میں سی ٹی بی ٹی سے نکل گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے تجربات دوبارہ شروع کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بوروستنیک جیسے جوہری میزائلوں کے تجربے کیے ہیں، مگر ان میں کوئی جوہری دھماکہ شامل نہیں تھا۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کا یہ فیصلہ روس کو حقیقی جوہری دھماکوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، جس سے غلط حساب کتاب (miscalculation) اور عالمی کشیدگی میں خطرناک اضافہ ممکن ہے۔

چین اور دیگر جوہری طاقتیں: چین نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2020 میں 300 وارہیڈز سے بڑھا کر 2025 تک تقریباً 600 تک پہنچا دیا ہے، اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1000 تک پہنچ جائے گی بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے مطابق اس فیصلے کے بعد چین بھی اپنے پروگرام کی رفتار مزید تیز کر سکتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے آنکیٹ پانڈا نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام چین اور روس دونوں کے لیے ایک طرح کا کھلا چیک ہے، جس سے وہ بھی مکمل جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، حالانکہ چین نے 1996 سے اور روس نے 1990 سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی اپنے تجربات جاری رکھنے کا جواز مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ ٹرمپ کی پہلی صدارت (2017) کے دوران کیا تھا۔   سفارتی اثرات: اس اعلان نے عالمی سطح پر شدید منفی ردِعمل پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اس اقدام کو غیر پائیدار اور عالمی عدمِ پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور گزشتہ 80 برسوں میں ہونے والے 2000 سے زائد جوہری تجربات کے تباہ کن ورثے کی یاد دہانی کرائی۔ ٹرمپ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد چین نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ سی ٹی بی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور جوہری عدمِ پھیلاؤ کے نظام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ 

برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات: اگرچہ زیرِ زمین کیے جانے والے جوہری تجربات فضا میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتے ہیں، لیکن ان سے ماحولیاتی خطرات اب بھی شدید نوعیت کے رہتے ہیں۔ فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان تجربات کے نمایاں ماحولیاتی اور حفاظتی اخراجات ہیں، جب کہ ماضی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اثرات طویل المدت اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 1945 سے اب تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زیادہ جوہری تجربات کیے جا چکے ہیں، جنہوں نے فضا، سمندروں اور زیرِ زمین پانی میں تابکاری (ریڈیوایکٹیو) آلودگی پھیلائی ہے۔ مثال کے طور پر 1950 کی دہائی میں امریکہ کے بحرالکاہل کے اینیوٹاک اور بکینی ایٹول (مارشل جزائر) میں کیے گئے تجربات نے سیزیم 137 اور اسٹرانشیم 90 جیسے تابکار عناصر سے مسلسل آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں رونگلاپ جزیرہ ہمیشہ کے لیے غیر آباد ہو گیا۔   ریاست نیواڈا میں 1951 سے 1992 تک 928 سے زیادہ زیرِ زمین تجربات کیے گئے، جن سے زیرِ زمین پانیوں میں تابکاری رسنے لگی اور مقامی آبادی میں تھائرائڈ اور لیوکیمیا جیسے سرطانوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ زیرِ زمین دھماکے اکثر ریڈیوایکٹیو گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور ٹریٹیم سمیت مختلف فِشَن (fission) مصنوعات کو ماحول میں داخل کرتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام (ecosystem) اور خوراک کی زنجیر کو متاثر کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ تابکار آلودگی دہائیوں تک مٹی اور پانی میں برقرار رہ سکتی ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • ہمیں فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی دھمکی، مدارس کا کردار ختم کیا جا رہا: فضل الرحمن
  • متنازع اینٹی ٹیرف اشتہار: کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • ہمیں فورتھ شیڈول کی دھمکی نہ دی جائے،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے: مولانا فضل الرحمان
  • ہمیں دھمکی دیتے ہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیں گے، بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول، فضل الرحمان
  • اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم