WE News:
2025-11-03@20:59:10 GMT

کپتان کی گرفتاری کی برسی، رہائی کے لیے ختم شریف ٹرائی کریں

اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT

کپتان کو دوسری بار 5 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاری توشہ خانہ کیس میں سزا سنائے جانے پر عمل میں آئی تھی۔ 3 سال قید اور 5 سال کی نااہلی کی سزا ہونے کے بعد کپتان کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ کپتان کے مداحوں کے خیال میں اب وہ اندر بیٹھا ایک بہت بڑی گیم لگا رہا ہے۔ اب اس گیم کو براہ راست دیکھنے کے لیے انتظام ہوگیا ہے اور پی ٹی آئی قیادت کی بڑی تعداد جلد جیل پہنچ کر اس گیم کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گی اور سمجھنے کی کوشش کرے گی کہ گیم ہے کیا۔

کپتان کو 9 مئی 2023 کو پہلی بار اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تب گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس میں ہوئی تھی۔ اس گرفتاری کے بعد کپتان کے مداحوں نے ملک بھر میں چھاؤنیوں کا رخ کرلیا تھا۔ انہونی ہوئی تھی جسے اب پی ٹی آئی بھگت رہی ہے۔

5 اگست کو کپتان کی دوسری گرفتاری کی برسی ہی نہیں ہے بلکہ اس دن کی ایک اور اہمیت بھی ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جموں اور کشمیر کا آئینی اسٹیٹس تبدیل کردیا تھا۔ آرٹیکل 370 اے اور آرٹیکل 35 کے تحت بھارتی آئین میں جو خصوصی حیثیت جموں و کشمیر کو حاصل تھی وہ آئینی ترمیم کرکے ختم کردی گئی تھی۔ کشمیر کو انڈیا نے آئینی طور پر اپنا حصہ بنا لیا تھا۔

اس پر کپتان نے قوم کو ہدایت کی تھی کہ ہر جمعے کو آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑی ہو یوں اس جادوئی عمل کے ذریعے شاید کشمیر واپس ملنا تھا۔ قوم یا تو سمجھی نہیں یا کپتان کی بات کا اثر نہیں لیا اور کشمیر کھایا پیا گیا۔ 21 جولائی 2019 کو کپتان واشنگٹن پہنچا تھا۔ اگلے دن 22 جولائی وائٹ ہاؤس میں کپتان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات میں ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تھی۔ کپتان نے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی فیل آئی ہے۔ بھارت نے اس فیلنگ پر 5 اگست کو کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کرکے ٹھنڈا یخ پانی پھینک دیا۔ اس امریکی دورے پر جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید بطور ڈی جی آئی ایس آئی کپتان کے ہمراہ گئے تھے۔

امریکی دورے سے ایک مہینہ پہلے 16 جون کو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر کو تبدیل کردیا گیا تھا۔ جنرل فیض حمید نئے ڈی جی آئی ایس آئی بنائے گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان پشاور کے ایک صحافی فدا عدیل کو انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ جنرل عاصم منیر کو پیرنی کی کرپشن بتانے پر نہیں بلکہ اس لیے ہٹایا گیا تھا کہ واشنگٹن میں کشمیر کا سودا ہونا تھا۔ یہ مولانا صاحب کی رائے ہے، کشمیر پر مولانا کی بات سنتے ہوئے یہ بھی دھیان میں لائیں کہ وہ کتنا طویل عرصہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں۔

26 فروری 2019 کو جب انڈیا نے بالاکوٹ پر حملہ کیا تو اس کے اگلے دن 27 فروری کو پاکستان نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے تحت جوابی کارروائی کی تھی۔ اس کارروائی میں ابھی نندن کا جہاز گرا کر اسے پکڑ کر چائے پلائی گئی جس کو اس نے فنٹاسٹک ٹی قرار دیا تھا۔ ان تاریخوں پر جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ بالاکوٹ حملے کے بعد کپتان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’کیا میں انڈیا پر حملہ کردوں؟ ہم حملہ کریں گے تو وہ جواب دیں گے اور پھر ہم جواب دیں گے تو پھر جنگ ہوگی‘۔

انڈیا نے پہلگام واقعے کو بنیاد بناکر 7 مئی کو آپریشن سندور کے نام سے پاکستان پر حملہ کیا۔ اس حملے میں ہی بھارتی فضائیہ کا بولو رام ہوگیا۔ پاکستانی دعوے کے مطابق انڈیا کے 6 جہاز گرائے گئے، جن میں 3 رافیل اور ایک ملٹری گریڈ ڈرون اضافی تھا۔ پاکستان کے جوابی حملے کے بعد 10 مئی کو سیز فائر ہوگیا۔ اس سیز فائر کا کریڈٹ ٹرمپ مسلسل لے رہا ہے۔ سرینڈر مودی کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ ٹرمپ اٹھتے بیٹھتے انڈیا کو یاد کراتا ہے کہ جب اڑنا نہیں آتا تھا تو پنگا کیوں لیا تھا۔

لکھنا کپتان کی گرفتاری کی برسی پر تھا۔ حوالدار بشیر ایک دن بیٹھے بیٹھے پرانے سیاستدانوں سے چڑ گیا۔ اس کو کپتان سے سچا پیار ہوگیا۔ جو کرپٹ بھی نہیں تھا اور سوہنا بھی بہت تھا۔ چٹ دیکھ کر پڑھتا بھی نہیں تھا۔ اوپر اگر بندہ ٹھیک ہو تو نیچے سب خود ٹھیک ہوجاتے ہیں، ایسے سائنسی جملے بھی سوجھ گئے تھے۔ جلسوں میں جب بھنگڑے اور میوزک شامل ہوا۔ میڈم لوگ نے ڈھیروں ڈھیر شرکت کی۔ آپس کی بات ہے ہر بندے کا ہی دل مچل گیا تھا کہ بس کپتان ہی ٹھیک ہے۔

وہ تو جب کام کے بجائے حوالدار بشیر کو تقریریں سننے کو ملیں۔ سر جی ٹوکرا پکڑ کر ملک ملک مانگنے نکلے۔ بقول بشریٰ بی بی اس قسم کے گلے آنے شروع ہوئے کہ یہ تم کیا چیز اٹھا کر لے آئے ہو۔ اس کے بعد سچے دل سے توبہ کرکے کورس کریکشن کی گئی۔ 9 مئی کو کپتان اور حوالدار بشیر کے آپسی پیار کا دی اینڈ ہوا۔

اب پارٹی، فیملی، کپتان کے حمایتی یوٹیوبر اور کے پی کی صوبائی حکومت سب چاہتے ہیں کہ کپتان اندر بیٹھا بڑی گیم لگاتا رہے اور ان کی باہر موج لگی رہے۔ جب احتجاج کرتے ہیں تو گلے پڑتا ہے۔ 9 مئی کی برکت سے ساری پارٹی اندر کپتان کے پاس پہنچنے والی ہے اور اس کی بڑی گیم لائیو دیکھے گی۔ اپنا پی ٹی آئی والوں کو مشورہ ہے کہ احتجاج وغیرہ چھوڑیں اس میں پولیس مارتی ہے اور انقلاب بھی نہیں آتا۔ ختم شریف کرائیں، کروشیے والی چینی ٹوپی پہن کر دعائیں مانگیں کہ ایسا کرنے سے کپتان کی رہائی کا امکان احتجاج سے بہرحال زیادہ ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈی جی آئی ایس آئی کپتان کی کو کپتان کپتان کے کپتان نے گیا تھا کے بعد تھا کہ کے لیے ہے اور کی بات کی تھی

پڑھیں:

درانی کی سہیل آفریدی کی تعریف،شہباز شریف پر تنقید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد :سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے سہیل آفریدی کی تعریف اور شہباز شریف پر نام لیے بغیر تنقید کردی۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات کی دعوت مسترد کیے جانے پر سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی کا تبصرہ سامنے آیا ہے۔

 صحافی فرخ شہباز وڑائچ کے پروگرام میں جب محمد علی درانی سے سوال کیا گیا کہ وزیراعظم بار بار ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو کہہ رہے ہوں کہ آئیں بیٹھتے ہیں، آئیں مل کر چلتے ہیں، اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بلا رہے ہوں اور دوسری طرف ایک صاحب ہوں جو کہیں جی کہ میں عشقِ عمران میں مارا جائوں گا؟۔

اس پر سابق وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ سہیل آفریدی جینوئن وزیراعلیٰ ہے اور یہ اس کی ملاقات کےلیے کہتے ہیں ‘میں پوچھ کر بتائوں گا’،تو بھئی وہ اپنے اسٹیٹس کے لوگوں سے ملے گا کیوں کہ سہیل آفریدی پاور فل ہے۔

 اس کے ووٹ کم نہیں ہوتے، اس کو ووٹ لینے کے لیے کسی کی ضرورت نہیں پڑتی، اس کو اپنی وزارت اعلیٰ کے انتخاب کےلیے کسی کے پیچھے جانا نہیں پڑتا، اس کے بعد اتنے ہی ووٹوں سے اس کا سینیٹر بھی منتخب ہوجاتا ہے آپ کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔

خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے انکشاف کیا تھا کہ میں اڈیالہ جیل گیا تو اس وقت وزیراعظم شہباز شریف نے مجھے فون کیا، وزیراعظم نے مجھے وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔

 میں نے ان سے کہا کہ میری عمران خان سے ملاقات کے انتظامات کریں، جس پر انہوں نے جواب دیا میں میں پوچھ کر بتائوں گا، اسی طرح بعد میں جب وزیراعظم نے مجھے ملاقات کے لیے بلایا تو میں نے بھی ان سے کہا کہ میں اپنے قائد سے پوچھ کر بتائوں گا۔

ویب ڈیسک Faiz alam babar

متعلقہ مضامین

  •  شہباز شریف پاکستان کے دورے پر بھی آتے ہیں
  • درانی کی سہیل آفریدی کی تعریف،شہباز شریف پر تنقید
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • نیوزی لینڈ کے سابق کپتان کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی
  • خیرپور:فنکشنل لیگ کے تحت سانحہ درزا شریف کی 10ویں برسی کا انعقاد
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  •  عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • ٹیکس آمدن میں اضافہ ایف بی آر اصلاحات کا نتیجہ، غیررسمی معیشت کا خاتمہ کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف
  • پنجاب بدستور سموگ کی لپیٹ میں، گوجرانوالہ آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر آگیا