پاکستان آئی ایم ایف کی 5 میں سے 3 مالی شرائط پوری نہ کر سکا
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
اسلام آ باد:
پاکستان نے آئی ایم ایف کی پانچ اہم مالی شرائط میں سے صرف دو کو پورا کیا ہے اور تین شرائط پوری نہ کر سکا ہے۔ یہ آئی ایم ایف نے 7 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے دوسرے جائزے کے لیے رکھی تھیں۔
چاروں صوبوں نے جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران نقد اضافی رقم 1.2ٹریلین پیدا کرنے کی شرط کی خلاف ورزی کی اور وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر 12.
تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے جاری مالیاتی آپریشنز سمری کے مطابق سب سے اہم 2.4 ٹریلین روپے کا بنیادی بجٹ سرپلس رکھنے کی شرط پوری کردی گئی۔
اسی طرح چاروں صوبوں کی طرف سے مجموعی محصولات کی شرط بھی پوری ہوگئی۔ اس کمی کے باوجود حکومت کو جائزہ مذاکرات کے دوران سنگین مسائل کا سامنا نہ ہونے کی توقع ہے۔
اہم شرائط پر مجموعی عمل درآمد کی وجہ سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے جائزہ مذاکرات اگلے ماہ شروع ہونے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت تقریباً 50 شرائط رکھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر مانیٹر کیا جاتا ہے ۔
جاری سمری کے مطابق حکومت نسبتاً مالیاتی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی اب بھی صرف دو شعبوں سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی ضروریات سے 1.2 ٹریلین روپے کم ہے۔
باقی اخراجات مزید قرضے لے کر کیے جاتے ہیں۔ 2.4 ٹریلین روپے کے بنیادی سرپلس ہدف کے مقابلے میں وفاقی حکومت نے 2.7 ٹریلین روپے کا سرپلس رپورٹ کیا جو جی ڈی پی کا 2.4 فیصد تھا۔ چاروں صوبوں نے مجموعی طور پر 921 ارب روپے کا کیش سرپلس پیدا کیا جس سے آئی ایم ایف کا ہدف 280 ارب روپے کی کمی سے پورا ہونا رہ گیا۔
یاد رہے صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف اور وفاقی حکومت کو 1.2 ٹریلین روپے کیش سرپلس رکھنے کی مفاہمت دی تھی۔ صوبائی کارکردگی کی خرابی ظاہر کرتی ہے کہ 4 ٹریلین روپے کی کل آمدنی کے ساتھ پنجاب نے 3.6 ٹریلین روپے خرچ کیے ۔ اس طرح 348 بلین روپے کا سرپلس ہوا۔
تاہم صوبے میں 41 ارب روپے کا شماریاتی تضاد ریکارڈ کیا گیا۔ سندھ نے 2.3 ٹریلین روپے خرچ کرنے کے بعد 283 ارب روپے کا کیش سرپلس دیا۔ صوبے نے 48 ارب روپے کے اعدادوشمار میں تضاد بھی بتایا۔ خیبرپختونخوا نے 176 ارب روپے کا بجٹ سرپلس ریکارڈ کیا۔
اس کی آمدنی 1.5 ٹریلین روپے رہی اور اخراجات 1.3 ٹریلین رہے ۔ یہاں بھی بھی 155 ارب روپے کا شماریاتی تضاد تھا۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے وزیر اعظم کو تجویز دی ہے کہ موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں نئے معیارات اور جائزے کے پیرامیٹرز کو شامل کر کے اس میں ترمیم کی جائے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ عوام کی فلاح و بہبود پر بھاری وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔
صوبوں نے گزشتہ مالی سال میں 979 ارب روپے کی ٹیکس وصولی ریکارڈ کی تھی جو آئی ایم ایف کے ہدف سے 58 ارب روپے زیادہ تھا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے 12.32 ٹریلین روپے سے زائد کے محصولاتی ہدف کے مقابلے میں ایف بی آر صرف 11.74ٹریلین روپے جمع کرسکا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف وفاقی حکومت ٹریلین روپے ارب روپے کا روپے کی
پڑھیں:
اسٹریٹ کرائم میں کمی ضرور آئی مگر اسے ختم ہونا چاہیے، وزیراعلیٰ سندھ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یومِ شہدائے پولیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وسائل کی کمی کے باوجود ان کی حکومت اپنی بہادر پولیس فورس کے ساتھ پوری طرح کھڑی ہے۔
اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم اپنے شہداء کو صرف خراجِ تحسین نہیں بلکہ ان کے اہلِ خانہ کے لیے عملی حمایت، عزت اور ایسی پالیسیاں دیتے ہیں جو ان کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔
انہوں نے ان تمام پولیس اہلکاروں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا جنہوں نے فرض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔
یہ تقریب پاک فضائیہ آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار، انسپکٹر جنرل پولیس سندھ غلام نبی میمن، سابق آئی جی حضرات، سول سوسائٹی کے اراکین اور شہداء کے اہلِ خانہ نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ 4 اگست ملک بھر میں ہر سال یومِ شہدائے پولیس کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ان پولیس افسران کی عظیم قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے جنہوں نے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
انہوں نے شہداء کے لواحقین کو یقین دلایا کہ سندھ حکومت اور اس کے عوام ان کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس محض ایک ادارہ نہیں بلکہ جرأت، فرض شناسی اور عوام کے تحفظ کی علامت ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ حکومت پولیس فورس کو مضبوط بنانے کے لیے انتظامی اور مالی خودمختاری کے اقدامات کرتی آ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال پولیس اسٹیشنز کی عملی ضروریات کے لیے 3.74 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شفافیت اور کارکردگی میں بہتری کے لیے اسٹیشن ہاؤس افسران (ایس ایچ اوز) کو ڈرائنگ اینڈ ڈسبرسنگ آفیسر (ڈی ڈی او) کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے قابلِ ذکر بہتری آئی ہے جن میں گاڑی چوری کے واقعات میں 67 فیصد اور اسٹریٹ کرائم میں 54 فیصد کمی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کے حوالے سے حکومت پر تنقید جائز ہے کیونکہ عوام حکومت سے تحفظ مانگتے ہیں، اسٹریٹ کرائم کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کامیابیاں مؤثر پولیسنگ حکمتِ عملی اور جدید نگرانی کے نظام کا نتیجہ ہیں، جن میں "سیف سٹی پروجیکٹ" کے تحت نصب شدہ 350 سے زائد مصنوعی ذہانت سے لیس کیمرے شامل ہیں جن کی تعداد رواں سال کے آخر تک 1300 تک پہنچا دی جائے گی۔
وزیراعلیٰ نے حاضر سروس افسران کے لیے کئی نئی فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا جن میں 4.96 ارب روپے کے ہیلتھ انشورنس پروگرام کا اجرا شامل ہے جس سے اب تک 15,000 سے زائد پولیس اہلکار مستفید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے پولیس اسٹیشنز کی اپ گریڈیشن اور جدید سازوسامان بشمول بلٹ پروف گاڑیوں کی خریداری پر خطیر سرمایہ کاری کی ہے تاکہ خاص طور پر کچے کے علاقوں میں پولیس کی کارکردگی اور تحفظ کو بہتر بنایا جا سکے۔ بجٹ میں مشکلات کے باوجود 1,900 سے زائد نئے اہلکاروں کی بھرتی بھی مکمل کر لی گئی ہے۔
شہدائے پولیس کے لیے اعزازی پیکج پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت ان کے اہلِ خانہ کی مکمل سرپرستی جاری رکھے گی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 1971 سے اب تک سندھ میں 2,549 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جن میں چار سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی)، ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) اور 22 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) شامل ہیں۔ ان کا خون ہمارے امن کی ضمانت ہے۔ ہمیں ان کی یاد صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے زندہ رکھنی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی سے متعلق واقعات میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو اب 2 کروڑ 35 لاکھ روپے سے لے کر 7 کروڑ روپے تک کا معاوضہ دیا جا رہا ہے جبکہ پولیس مقابلوں یا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں یہ رقم 2 کروڑ 35 لاکھ روپے سے 6 کروڑ روپے تک ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شہداء کے اہلِ خانہ کو ان کی ریٹائرمنٹ کی فرضی عمر (60 سال) تک تنخواہ کی ادائیگی جاری رہتی ہے، ساتھ ہی 10 لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس اور رہائش کے لیے بھی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ شہید افسران کی بیواؤں کو ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات، تعلیمی وظائف اور تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستوں کی سہولت بھی حکومت فراہم کرتی ہے۔ تعلیمی کارکردگی پر مالی انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ مستقل معذوری کی صورت میں تمام رینکس کو ایک کروڑ روپے دیے جاتے ہیں جبکہ عارضی معذوری کی صورت میں 25 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔
سروس کے دوران بیماری یا حادثے کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر، رینک کی بنیاد پر 6 لاکھ سے 30 لاکھ روپے تک کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
انہوں نے پولیس اہلکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ تربیت، ٹیکنالوجی، اور انفراسٹرکچر پر مزید سرمایہ کاری جاری رکھی جائے گی۔
وزیراعلیٰ نے ان تمام پولیس اہلکاروں کو شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا جنہوں نے فرض کی راہ میں اپنی جانیں قربان کیں۔