اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اگست 2025ء) ریڈیو پاکستان کے مطابق، پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی یکم ستمبر سے باقاعدہ ملک بدری کا فیصلہ منگل کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا، جو غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے (آئی ایف آر پی) کے تحت ہوا۔ یہ فیصلہ سکیورٹی خدشات اور قومی وسائل پر بڑھتے دباؤ کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں تصدیق کی گئی ہے کہ ان افغان باشندوں کو، جن کے پی او آر کارڈ کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے، انہیں اگلے مہینے سے باقاعدہ طور پر واپس بھیجا جائے گا۔

اس سے قبل وزارت داخلہ نے پی او آر کارڈ رکھنے والوں کو 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دی تھی، لیکن اس تاریخ کے بعد 13 لاکھ سے زائد افراد کو واپس بھیج دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہیں۔ جبکہ دیگر تقریباً 13 لاکھ افراد پاکستان حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہیں اور ان کے پاس ’پروف آف رجسٹریشن‘ ہے۔

مجموعی طور پر، پاکستان میں تقریباً 28 لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے، جو گزشتہ 40 برسوں کے دوران اپنے ملک میں جاری تنازعات کے باعث سرحد پار کر کے آئے تھے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق، اب بھی تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر خیبرپختونخوا میں مقیم ہیں۔

پاکستان نے نومبر 2023 میں آئی ایف آر پی منصوبہ شروع کیا تھا، جس کا ابتدائی ہدف غیر دستاویزی افراد اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے تھے۔ تب سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے، لیکن اب بھی تقریباً 16 لاکھ پاکستان میں موجود ہیں، جن میں سے کئی پالیسی میں تبدیلی کی امید رکھتے ہیں۔

’باوقار طریقے سے واپسی‘

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پاکستان بھر میں پولیس افغان باشندوں کو حراست میں لے کر بارڈر کراسنگ پوائنٹس تک منتقل کر رہی ہے۔ یہ بات دو سرکاری اور سکیورٹی اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی کیونکہ وہ عوامی طور پر بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔

ان کے مطابق یہ گرفتاریاں بڑے پیمانے پر نہیں کی جا رہیں، بلکہ پولیس کو ہدایت دی گئی ہے کہ گھر گھر جا کر چیکنگ کرے اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکیوں کو گرفتار کرے۔

اے پی کے مطابق خیبرپختونخوا میں افغان مہاجرین کے کمشنر شکیل خان نے کہا، ’’جی ہاں، جو افغان مہاجرین پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں، انہیں باوقار طریقے سے واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن وفاقی حکومت کے احکامات کے تحت اب تک کا سب سے اہم اقدام ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے تنقید

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے حکومت پاکستان کے حالیہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس انداز میں لوگوں کو واپس بھیجنا جبری واپسی کے مترادف ہے، جو کسی ریاست کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ ’’انسانی ہمدردی پر مبنی، تدریجی اور باوقار طریقہ کار‘‘ اختیار کرے تاکہ افغانوں کی واپسی رضاکارانہ ہو۔ انہوں نے اس بات کو سراہا کہ پاکستان نے گزشتہ 40 سالوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔

اے پی کے مطابق افغانستان کی حکمران طالبان نے ہمسایہ ممالک کی جانب سے افغانوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری پر تنقید کی ہے۔

طالبان حکومت کے نائب وزیر برائے مہاجرین و واپسی، عبد الرحمن راشد نے میزبان ممالک کی جانب سے افغانوں کی جبری واپسی کو بین الاقوامی اصولوں، انسانی ہمدردی کے ضوابط اور اسلامی اقدار کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

انہوں نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا،’’جس پیمانے اور انداز میں افغان مہاجرین کو وطن واپسی پر مجبور کیا جا رہا ہے، ایسا منظر افغانستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغان مہاجرین پی او ا ر کارڈ افغان شہریوں پاکستان میں اقوام متحدہ کارڈ رکھنے کی جانب سے کے مطابق انہوں نے

پڑھیں:

افغان سرزمین پر امریکی فوج کی واپسی ناقابل قبول ہے، افغان حکومت کا دوٹوک مؤقف

افغان حکومت نے بگرام ایئر بیس سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں دوبارہ امریکی افواج کی تعیناتی کسی صورت قابل قبول نہیں۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم افغان سرزمین پر امریکی فوج کی واپسی کو مسترد کرتے ہیں۔ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی دوبارہ موجودگی نہ قابلِ عمل ہے اور نہ قابلِ قبول۔”
 بیان میں مزید کہا گیا کہ افغانستان اور امریکا کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلقات فوجی مداخلت کے بغیر، برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر قائم رکھیں۔
افغان حکومت نے زور دیا کہ افغانستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ بیرونی افواج کی موجودگی کو رد کیا ہے، اور آج بھی ملکی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
 یاد رہے کہ ایک روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لندن میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ:
  ہم بگرام ایئر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ یہ اسٹریٹیجک طور پر بہت اہم ہے۔ یہ بیس چین کے اُس حصے سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں جوہری ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں۔”
 ٹرمپ کے اس بیان نے افغانستان میں سیاسی و عوامی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، جہاں بیرونی فوجی مداخلت ایک حساس اور تاریخی طور پر متنازع معاملہ رہی ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں بانڈز‘ حصص اور دیگر ذرائع میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیویڈنڈ کی واپسی دوگنا ہوگئی
  • چمن بارڈر کے راستے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل دوبارہ شروع ہوگیا
  • شواہد موجود: بھارتی فوجی افسر، افغان باشندے پاکستان میں دہشتگردی کرا رہے ہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • افغان سرزمین پر امریکی فوج کی واپسی ناقابل قبول ہے، افغان حکومت کا دوٹوک مؤقف
  •  ہم افغان سرزمین پر امریکی افواج کی واپسی کو مسترد کرتے ہیں، بگرام ایئر بیس سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان پر افغانستان کا رد عمل
  • بھارتی فوجی افسران کے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے مستند شواہد ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
  •  بھارتی فوجی افسران کے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے مستند شواہد ہیں: لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری 
  • غیر قانونی افغان باشندے دہشتگردی اور سنگین جرائم میں ملوث ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش میں 5 افغان شہریوں سمیت 12 ملزمان گرفتار
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف