Express News:
2025-11-05@00:47:38 GMT

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غیرقانونی تسلط (آخری حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT

اس جبری اقدام کے خلاف کشمیریوں کی آواز دبانے اور ان کی ممکنہ مزاحمت روکنے کے لیے پوری مقبوضہ وادی کو فوجی محاصرے میں دینے کے بھی آج چھ سال مکمل ہوگئے مگردس لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں بھی کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد میں کمی نہیں آئی‘ بھارتی مظالم کے آگے اپنے حوصلے پست نہیں ہوئے‘ کشمیری عوام نے، جنھوں نے کشمیر کو خودمختاری دینے کا بھارتی چکمہ بھی کبھی قبول نہیں کیا اور بھارتی تسلط سے آزادی کی صبرآزما اور جانی و مالی قربانیوں سے لبریز بے مثال تحریک گزشتہ پون صدی سے جاری رکھی ہوئی ہے۔

 اس بھارتی جبری اقدام کو بھی یکسر مسترد کیا ہے اس وقت مقبوضہ وادی بھارتی فوج کے محاصرے میں ہے اور باہر کی دنیا سے ان کے رابطے منقطع کرنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی ان کی دسترس سے نکال لی جب کہ کشمیریوں پر نئے مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے تحت کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے عوام کا گھروں سے باہر نکلنا بھی ناممکن بنا دیا گیا چنانچہ کشمیری عوام اپنے معمولات زندگی سے محروم ہو گئے۔ ان کا روزگار اور کاروبار چھن گیا۔

 ان کے بچوں کا تعلیمی اداروں میں جانا ناممکن ہوگیا اور مریضوں کو اسپتال لے جانا اور ان کے لیے ادویات تک خریدنا ناممکنات میں شامل ہوگیا۔ اس طرح کشمیری عوام انتقال کرجانے والے اپنے عزیزوں کی تدفین اپنے گھروں کے صحنوں میں دفنانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم اس خوف و جبر کے ماحول میں بھی کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری اور ملک سے باہر مقیم کشمیریوں نے دنیا کے چپے چپے میں تحریک آزادی کا پیغام پہنچا کر عالمی برادری کو بھارتی مظالم سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان نے بھی سفارتی ذرایع اور کوششیں بروئے کار لاکر سلامتی کونسل، یورپی اسمبلی، امریکی کانگریس اور برطانوی پارلیمنٹ سمیت ہر نمایندہ عالمی اور علاقائی فورم تک مظلوم کشمیریوں کی آواز پہنچائی اور بھارتی چہرہ بے نقاب کیا جس سے دنیا کو کشمیر ایشو، اس کے حل کے لیے موجود سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ہٹ دھرمی پر مبنی بھارتی اقدامات سمیت بھارتی جبر و تسلط اور مقبوضہ وادی میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہی ہوئی۔

چنانچہ دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور ان کے حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یواین سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس ہوئے جن میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس کی قراردادیں روبہ عمل لانے کا تقاضا ہوا اور دنیا بھر میں مختلف نمایندہ فورموں کی جانب سے مقبوضہ وادی کی 5 اگست 2019ء سے پہلے کی آئینی حیثیت کی بحالی کے مطالبات بیک آواز سامنے آنے لگے۔ اسی دوران امریکا کے اس وقت کے صدر ٹرمپ نے چار مختلف مواقع پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے کردار کی پیشکش کی مگر ہٹ دھرم مودی سرکار اقوام عالم کے کسی احتجاج اور عالمی قیادتوں و نمایندہ عالمی اداروں کے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لائی۔

اس کے برعکس اس نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھالی اور سرجیکل اسٹرائیکس جیسی گیدڑ بھبکیاں لگانا شروع کر دیں مگر پاکستان نے کشمیر پر اپنے دیرینہ اصولی موقف میں فرق نہیں آنے دیا۔ مودی سرکار نے پاکستان اور کشمیریوں کے یکجہت ہو کر آواز اٹھانے اور عالمی برادری کے سخت دباؤ کے باوجود کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے خلاف کشمیری عوام نے گزشتہ سال بھی 5 اگست کو مقبوضہ وادی کے علاوہ دنیا بھر میں یوم استحصال اور یوم سیاہ منایا اور آج 5 اگست کو بھی وہ اسی تناظر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے دنیا بھر… میں یومِ استحصال منا رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے مکمل ہم آہنگی سے کشمیریوں کی جدوجہد کا ساتھ نبھایا جارہا ہے۔

آج 5 اگست کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں یومِ سیاہ کے طور پر منایا جائے گا اور کشمیری عوام لال چوک کی جانب مارچ کریں گے اور احتجاجاً بلیک آؤٹ کریں گے اس موقع پر ہر جگہ سیاہ جھنڈے لہرائے جائیں گے۔ پاکستان کے عوام کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ مکمل یکجہت ہیں اور آج پاکستان میں بھی بھارتی تسلط و مظالم کے خلاف بھرپور انداز میں یومِ استحصال منایا جارہا ہے جس کے لیے ملک بھر میں مظاہروں، ریلیوں اور سیمینار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں آج بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے اسی جذبے سے سرشار ہیں۔ پاکستان کے عوام آج بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے ایسے ہی جذبے سے معمور ہیں جب کہ بھارتی جبروتسلط کے خلاف آج پوری دنیا کشمیری عوام کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم مستقل طور پر برقرار نہیں رہ سکتے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھارتی مظالم دنیا بھر میں کشمیریوں کی مقبوضہ وادی کشمیری عوام بھی کشمیری کی جدوجہد کے لیے ا میں یوم کے ساتھ کے خلاف

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔

عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د

ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کشمیر کی صورتِحال پر عالمی خاموشی خطرناک ہے: مشعال ملک
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • کشمیری عوام کو گزشتہ 78برس سے حل طلب تنازعہ کشمیر کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، حریت کانفرنس
  • 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جائے گا
  • نومبر 1947: جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب، بھارت کے ظلم و بربریت کی لرزہ خیز داستان
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ