بیروزگاری، معاشی عدم استحکام! 6 ماہ میں ساڑھے 3 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑگئے
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
ملک میں بڑھتی بیروزگاری، معاشی عدم استحکام اور کم تنخواہوں کے باعث رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ میں تقریباً ساڑھے 3 لاکھ پاکستانی افراد ملک چھوڑ گئے۔ملک چھوڑنے والے افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سمیت انتہائی تکنیکی افراد بھی شامل ہیں جبکہ ڈاکٹرز سمیت نرسز کے ملک چھوڑ جانے سے ملک کے نظام صحت میں بھی مسائل بڑھنے لگے ہیں۔عرب اخبار ’گلف نیوز‘ کے مطابق حالیہ چند سالوں میں پاکستان سے نرسز بڑے پیمانے پر روزگار کی خاطر بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، مرد و خواتین نرسز بہتر تنخواہ، محفوظ کام کے حالات اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع کیلئے ملک چھوڑ رہے ہیں جس سے پہلے سے دباؤ کا شکار طبی نظام مزید ابتر ہو گیا۔ڈاکٹرز اور دیگر تکنیکی افراد کی طرح نرسز کو خلیجی ممالک، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک پرکشش تنخواہوں اور بہتر کام کے ماحول کے ساتھ راغب کر رہے ہیں اور پاکستانی نرسز ایسے ممالک منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: رہے ہیں
پڑھیں:
آسٹریلیا میں فلسطین کے حق مظاہرہ، سڈنی ہاربر برج پر عوام کا سمندر اُمڈ آیا
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اتوار کی دوپہر سڈنی کے معروف ہاربر برج کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا اور مظاہرین نے شہر کے مرکزی علاقے لینگ پارک سے مارچ کا آغاز کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بارش، قانونی رکاوٹوں اور حکومتی مخالفت کے باوجود آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں فلسطین کے حق میں ایک عظیم الشان احتجاجی مارچ منعقد ہوا، جس میں کم از کم ایک لاکھ افراد شریک ہوئے۔ مظاہرین میں وکی لیکس کے بانی جولیئن اسانج، سابق آسٹریلوی وزیر خارجہ باب کار اور حکومتی رکن پارلیمنٹ ایڈ ہوسیچ جیسی اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اتوار کی دوپہر سڈنی کے معروف ہاربر برج کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا اور مظاہرین نے شہر کے مرکزی علاقے لینگ پارک سے مارچ کا آغاز کیا۔ مارچ دن ایک بجے شروع ہوا اور بارش کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور 1.2 کلومیٹر طویل پل پر پھیل گئے۔مارچ ابتدا میں امریکی قونصل خانے کے سامنے ختم ہونا تھا لیکن دن 3 بجے کے قریب نیو ساؤتھ ویلز پولیس نے شہر میں موجود تمام موبائل فونز پر ایک پیغام بھیج کر مظاہرین کو ’حفاظتی خدشات‘ کی بنیاد پر مارچ روکنے کا حکم دیا۔
نیو ساوتھ ویلز پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرے میں ابتدائی تخمینے کے مطابق 90 ہزار افراد شریک ہوئے جبکہ مظاہرےکے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی، کچھ اندازوں کے مطابق3 لاکھ افراد نے مارچ میں شرکت کی۔ آسٹریلیا میں اظہار رائے کی آزادی کو آئینی تحفظ حاصل ہے، تاہم 2022 میں بنائے گئے سخت قوانین کے تحت اہم سڑکوں کو بند کرنے والے مظاہرین کو 2 سال قید یا22 ہزار آسٹریلوی ڈالر جرمانے کا سامنا ہوسکتا ہے۔