فرنچ فرائز سے ذیابیطس2 کا خطرہ، اُبلے یا بیک کیے گئے آلو محفوظ قرار
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
ہارورڈ یونیورسٹی کے محققین نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ فرنچ فرائز کھانے سے ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ اُبلے، بیک یا میش کیے گئے آلو ایسے خطرات سے محفوظ ہیں۔ یہ تحقیق برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئی ہے، جس کی قیادت ڈاکٹر سید محمد موسوی نے کی، جب کہ معروف ماہر غذائیت ڈاکٹر والٹر ولیٹ بھی شریک مصنفین میں شامل ہیں۔
تحقیق میں 2 لاکھ 5 ہزار سے زائد افراد کے 30 سالہ غذائی اعداد و شمار اور ذیابیطس کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا۔ نتائج کے مطابق ہفتے میں صرف 3 بار فرنچ فرائز کھانے سے ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 20 فیصد بڑھ جاتا ہے جبکہ اُبلے، بیک یا میش آلو کھانے سے ایسا کوئی تعلق سامنے نہیں آیا.
یہ بھی پڑھیں: G-8 اسلام آباد کے فرنچ فرائز کی دھوم،ان میں ایسا کیا خاص ہے؟
محققین نے واضح کیا کہ غذا کی تیاری کا طریقہ، غذائی انتخاب جتنا ہی اہم ہے۔ فرنچ فرائز تیز درجہ حرارت پر غیر صحت مند تیل میں تلنے کے باعث صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جبکہ اسی آلو کو ابالنے یا بیک کرنے سے اس کے اثرات مختلف ہوجاتے ہیں۔
فرنچ فرائز کو مکمل اناج سے تبدیل کیا جائے تو ذیابیطس کا خطرہ 19 فیصد تک کمتحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر فرنچ فرائز کو مکمل اناج سے تبدیل کیا جائے تو ذیابیطس کا خطرہ 19 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر فرنچ فرائز کو کسی اور تلی ہوئی غذا سے تبدیل کیا جائے تو فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر موسوی کے مطابق یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کوئی بھی غذا بذات خود مکمل طور پر ‘اچھی’ یا ‘بری’ نہیں ہوتی، بلکہ اس کی تیاری کا طریقہ اور اس کے متبادل اہم ہوتے ہیں۔
امریکن ڈائبیٹیز ایسوسی ایشن نے بھی خبردار کیا ہے کہ تلی ہوئی اشیا خصوصاً فرنچ فرائز، میں ٹرانس فیٹس پیدا ہوتے ہیں جو دل کی بیماریوں اور فالج کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان میں اکثر آٹے یا بریڈنگ کا استعمال ہوتا ہے جو کاربوہائیڈریٹ میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جانیں مزیدار لوڈیڈ فرائز بنانے کا آسان طریقہ
مطالعے میں دو علیحدہ میٹا اینالیسز شامل کیے گئے، جن میں ایک آلو کے استعمال اور دوسرا مکمل اناج سے متعلق تھا۔ ان دونوں میں مجموعی طور پر 5 لاکھ سے زائد افراد شامل تھے جن میں 43 ہزار افراد کو ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق تھی۔
ڈاکٹر موسوی کے مطابق یہ تحقیق اس مفروضے کو تقویت دیتی ہے کہ ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ صرف غذا کے انتخاب سے نہیں بلکہ اس کی تیاری کے طریقے اور متبادل کے انتخاب سے بھی وابستہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محض ہفتے میں ایک بار فرنچ فرائز کھانے سے بھی خطرے کی بنیاد پڑسکتی ہے۔
آلو کو یکسر مضر قرار دینا سائنسی طور پر درست نہیںواشنگٹن میں قائم ’فزیشنز کمیٹی فار ریسپانسبل میڈیسن‘ کی ڈاکٹر ہنا کاہلیووا کا کہنا تھا کہ آلو کو صحت کے لیے مضر قرار دینا درست نہیں۔ ان کے مطابق بعض تحقیقات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ خاص طور پر اُبلے ہوئے آلو وزن میں کمی اور ذیابیطس کے خطرات کم کرنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے ایران، فن لینڈ اور نیدرلینڈز میں ہونے والی طویل مدتی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ زیادہ مقدار میں اُبلے آلو کھانے والوں میں ذیابیطس کے خطرات 50 فیصد سے زائد کم پائے گئے۔
امریکن ڈائبیٹیز ایسوسی ایشن کی ماہر غذائیت اسٹیسی کراوسک نے کہا کہ تلی ہوئی غذائیں، جیسا کہ فرنچ فرائز، عام طور پر ایسے طرزِ زندگی اور خوراک کا حصہ ہوتی ہیں جو صحت کے دیگر مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم صارفین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مکمل، کم پراسیس غذاؤں کو ترجیح دیں اور تلنے کے بجائے صحت بخش طریقے سے کھانا تیار کریں۔‘
یہ بھی پڑھیں: وہ غذائیں جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں
تحقیق کے شریک مصنف موسوی نے زور دیا کہ غذائی پالیسی اور عوامی صحت کے پیغامات کو اب محض غذا کے عنوان تک محدود رکھنے کے بجائے تیاری کے طریقے اور ممکنہ متبادل پر بھی مرکوز ہونا چاہیے، تاکہ صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دیا جاسکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ابلے آلو آلو چپس ذیابیطس فرنچ فرائز ہارورڈ یونیورسٹی\ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ابلے ا لو ا لو چپس ذیابیطس ہارورڈ یونیورسٹی ذیابیطس کا خطرہ ٹائپ 2 ذیابیطس کھانے سے کے مطابق
پڑھیں:
مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ہم بغیر محسوس کیے مسلسل مائیکرو پلاسٹکس کا استعمال بھی کر رہے ہیں اور انہیں نگل بھی رہے ہیں۔ یہ باریک ذرات کھانے، پانی اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جبکہ عام استعمال کی متعدد مصنوعات میں بھی ان چھوٹے ذرات کی موجودگی پائی گئی ہے۔
مائیکرو پلاسٹک اصل میں وہ پلاسٹک ہے جو وقت کے ساتھ ٹوٹ کر اتنے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے کہ وہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزوں میں یہ پلاسٹک شامل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ خواتین کے استعمال میں آنے والے فیس واش میں استعمال ہونے والے ذرات بھی دراصل مائیکرو پلاسٹکس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہر ہفتے انسان تقریباً پانچ گرام تک پلاسٹک اپنے جسم میں لے جاتا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ جو پانی ہم پیتے ہیں، جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں لے جاتے ہیں، ان سب میں مائیکرو پلاسٹکس شامل ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر بوتل بند پانی میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں جبکہ ان میں پوشیدہ کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو امراض قلب، ہارمون عدم توازن اور حتیٰ کہ کینسر کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ڈسپوزیبل مصنوعات جیسے ماسک، سرنجز، دستانے اور سرجیکل آلات بھی صحت کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پلاسٹک کچرے میں اضافہ کرتے ہیں اور بالآخر ماحول میں ہی واپس شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان اب یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ باریک ذرات انسانی خون اور پھیپھڑوں تک کیسے پہنچتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے مؤثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔