اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر جون میں امریکی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے جمعرات کو مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کریں۔

ٹرمپ نے کہا، ’’اب جبکہ ایران کا تیار کردہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، میرے لیے یہ بہت اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوں۔

‘‘

انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مزید لکھا،’’یہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کو یقینی بنائے گا۔ اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ!‘‘

ابراہیمی معاہدے، جو ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں طے پائے تھے، کے تحت چار مسلم اکثریتی ممالک نے امریکی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

(جاری ہے)

ان معاہدوں کو وسعت دینے کی کوششیں غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے پیچیدہ ہو گئی ہیں۔

ٹرمپ نے 2020 میں اسرائیل اور عرب ریاستوں، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش، کے درمیان باضابطہ تعلقات کے متعدد معاہدے طے کرائے تھے، جنہیں ابراہیمی معاہدہ کہا جاتا ہے۔

ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کی راہ میں رکاوٹیں

گزشتہ برسوں میں ابراہیمی معاہدے کو، خاص طور پر سعودی عرب پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے، وسعت دینے کی امریکی کوششیں ناکام رہی ہیں۔

سعودی عرب کے اعلیٰ حکام بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ ریاض 2002 کی عرب امن منصوبے کے موقف پر کاربند ہے، جو فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط رکھتی ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

تاہم اب ٹرمپ نے عرب-اسرائیل تعلقات کو ایران کے جوہری پروگرام اور ایران و اسرائیل کے درمیان بارہ روزہ لڑائی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

اس لڑائی کے دوران امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔

جون میں اسرائیل کے ایران پر حملوں، جن میں ایرانی اعلیٰ فوجی حکام، جوہری سائنسدانوں اور سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت ہوئی، کی عرب ممالک نے شدید مذمت کی تھی۔

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبات میں شدت

یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کی بحالی کی نئی اپیل کیوں کی، لیکن ان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عرب ممالک کی حمایت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی سطح پر نئی مہم شروع ہو چکی ہے، جسے واشنگٹن مسترد کر رہا ہے۔

کینیڈا، فرانس اور برطانیہ نے حالیہ دنوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق، ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان اور کچھ وسطی ایشیائی اتحادیوں کو ابراہیم معاہدوں میں شامل کرنے پر بھی بات چیت کر رہی ہے، تاکہ اسرائیل کے ساتھ ان کے موجودہ تعلقات کو مزید گہرا کیا جا سکے۔

مئی میں خلیجی ممالک کے دورے کے دوران ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کو نسبتاً کم اہمیت دی تھی، اور کہا تھا کہ میرا خواب ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے باضابطہ تعلقات قائم کرے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ فیصلہ وہ اپنے وقت پر کرے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ابراہیمی معاہدے نے اس میں شامل ممالک کے درمیان تجارت اور سکیورٹی کے تعلقات کو فروغ دیا، لیکن یہ اسرائیل-فلسطین تنازعے کو ختم کرنے یا اس میں نرمی لانے میں ناکام رہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ابراہیمی معاہدے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے عرب اسرائیل اسرائیل کے تعلقات کو کے درمیان

پڑھیں:

جنیوا: پلاسٹک آلودگی کے خاتمہ کے لیے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 اگست 2025ء) پلاسٹک کے فضلے کی بڑھتی ہوئی مقدار اور انسانی صحت، سمندری حیات اور معیشت پر اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جنیوا میں ایک عالمی معاہدے کو حتمی صورت دینے کی کوششیں جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) نے کہا ہے کہ ایسے معاہدے کے بغیر 2060 تک پلاسٹک کے فضلے کی مقدار تین گنا بڑھ چکی ہو گی جس سے انسانوں اور زمین کو بہت بڑا نقصان ہو گا۔

Tweet URL

2022 میں رکن ممالک نے پلاسٹک کی آلودگی کے بحران کا خاتمہ کرنے کے مقصد سے اس معاہدے کے لیے بات چیت شروع کی تھی جس کی پابندی ارکان پر لازم ہو گی۔

(جاری ہے)

اس کے بعد یونیپ کی قیادت میں اس گفت و شنید کا آغاز ہوا جو اب حتمی مرحلے میں ہے۔

پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف معاہدہ طے کرنے کے لیے اب تک بات چیت کے پانچ اجلاس ہو چکے ہیں۔ پہلا اجلاس نومبر 2022 میں یوروگوئے میں ہوا۔ اس کے بعد فرانس اور پھر کینیا میں یہ بات چیت جاری رہی۔ اپریل 2024 میں 'آئی این سی' نے کینیڈا میں اجلاس کا انعقاد کیا تھا۔ اس مسئلے پر تازہ ترین بات چیت گزشتہ سال کے اختتام پر جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں شروع ہوئی۔

اس میں شرکا نے جنیوا میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔'ری سائیکلنگ کافی نہیں'

روزانہ پلاسٹک کے تھیلے، چمچ، سٹرا، کپ اور کاسمیٹک اشیا سمیت ایک مرتبہ استعمال ہونے والے پلاسٹک کی بہت بڑی مقدار سمندروں اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے کی جگہوں پر پہنچتی ہے اور یہ چیزیں سیکڑوں سال تک ماحول میں موجود رہ کر اسے نقصان پہنچاتی رہتی ہیں۔

تازہ ترین اندازوں کے مطابق، 2040 تک ماحول میں پلاسٹک کا اخراج 50 فیصد تک بڑھ جائے گا اور 2016 اور 2040 کے درمیانی عرصہ میں پلاسٹک کی آلودگی سے ہونے والے نقصانات کی مالیت 281 ٹریلن ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف معاہدے کے حامیوں نے اسے پیرس موسمیاتی معاہدے جتنا ہی اہم قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک کی جانب سے اس معاہدے کے خلاف دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے جن کا خام تیل اور قدرتی گیس پلاسٹک کے بنیادی اجزا کی تیاری میں کام آتے ہیں۔

یونیپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی کے بحران پر قابو پانے کے لیے محض ری سائیکلنگ کافی نہیں بلکہ پلاسٹک کی گردشی معیشت کی جانب منتقلی کے لیے بنیادی تبدیلی لانا ہو گی۔

پلاسٹک کی گردشی معیشت

5 تا 14 اگست جاری رہنے والی بات چیت میں 179 ممالک کے مندوبین اور 618 مشاہدہ کار اداروں کے 1,900 شرکا بشمول سائنس دان، ماہرین ماحولیات اور صنعتوں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

اس اجلاس کا ایک اہم مقصد پلاسٹک کے آزمائے ہوئے محفوظ متبادل کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا بھی ہے۔

جنیوا میں اس معاہدے پر بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی (آئی این سی) کے اجلاس کی رہنمائی کے لیے استعمال ہونے والے متن میں کہا گیا ہے کہ، یہ معاہدہ پلاسٹک کے ڈیزائن سے لے کر بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار اور تلفی تک اس کی زندگی کے ہر مرحلے کا احاطہ کرتے ہوئے ماحول میں پلاسٹک کے اخراج کو روکے گا۔

22 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں 32 شقیں شامل ہیں جن پر سطر بہ سطر بات چیت ہو گی اور یہی معاہدے پر گفت و شنید کا نقطہ آغاز ہو گا۔

زندگی کے لیے سنگین خطرہ

اس بات چیت سے قبل موقر طبی جریدے دی لینسٹ نے انتباہ کیا ہے کہ پلاسٹک میں استعمال ہونے والے اجزا اس کی زندگی کے ہر مرحلے میں انسان کو عمر کے ہر حصے میں نقصان پہنچاتے ہیں۔

جریدے نے دو درجن سے زیادی طبی ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نومولود اور چھوٹے بچوں کو پلاسٹک سے لاحق خطرات دیگر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

پلاسٹک انسان اور کرہ ارض کی زندگی کو لاحق سنگین، بڑھتا ہوا اور ایسا خطرہ ہے جس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ پلاسٹک سے ہونے والے طبی نقصان کی سالانہ معاشی قیمت 1.5 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

جنیوا میں ہونے والی اس بات چیت کی قیادت 'آئی این سی' کی ایگزیکٹو سیکرٹری جیوتی ماتھر فلپ کر رہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ہی انسان نے 500 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک استعمال کیا جس میں سے 399 ملین ٹن فضلہ بن کر ماحول میں موجود رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل اور مصر کے درمیان 35 ارب ڈالر کا تاریخی گیس معاہدہ
  • ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنیکا مطالبہ
  • قیام امن کیلئے مشرق وسطی کے تمام ممالک ابراہم معاہدے میں شامل ہوں، ٹرمپ
  • مشرق وسطیٰ کے ممالک کا ’ابراہام معاہدے‘ میں شامل ہونا اہم ہے
  • ایران کی جوہری صلاحیت ختم کردی، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں؛ ٹرمپ
  •   تمام مشرق وسطیٰ کے ممالک  معاہدات ابراہیمی میں شامل ہوجائیں،ڈونلڈ ٹرمپ
  • ’شوہر سے تعلقات خراب ہونے کا ذکر کرنے پر عتیقہ اوڈھو کو کتنے رشتوں کی آفرز آئیں؟
  • خشکی میں گھرے ممالک کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہونے چاہیں، یو این
  • جنیوا: پلاسٹک آلودگی کے خاتمہ کے لیے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل