کالا جادو: ایک خاموش جرم یا ریاستی غفلت؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
’کسی نے کچھ کروا دیا ہے‘، یہ جملہ ہم نے کتنی بار سنا ہے، جب کوئی اچانک بیمار ہو جائے، شادی ختم ہو جائے، کاروبار بیٹھ جائے یا ذہنی دباؤ میں آجائے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایسے حالات کو ’کالا جادو‘ یا ’سحر‘ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
کیا جادو صرف توہم پرستی ہے یا حقیقی خطرہ؟
کیا یہ ایک جرم ہے؟
ریاستیں اس کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہیں؟
اور کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟
آئیے، ان تمام سوالات کے جواب حقائق، قانون اور دین کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔
کالا جادو کیا ہے؟کالا جادو، جسے عربی میں ’سحر‘ کہا جاتا ہے، ایسے خفیہ اور شیطانی اعمال، کلمات اور عملیات کا مجموعہ ہے جن کا مقصد کسی انسان کو جسمانی، ذہنی، معاشی یا روحانی نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
اس کے عام طریقے:
محبت یا نفرت کا جادو
طلاق یا علیحدگی کے عمل
کاروباری بندش یا تباہی
بیماری یا موت کے لیے عملیات
جنات یا آسیب کا تسلط
اکثر یہ اعمال جعلی پیروں، عاملوں، یا خود ساختہ ’روحانی معالجین‘ کے ذریعے کروائے جاتے ہیں، جو کمزور عقیدے اور لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
قرآن مجید کا حکم: جادو ممنوع اور گمراہ کن عمل ہےقرآنِ حکیم میں جادو کو کھلا گناہ، فتنہ اور کفر کے قریب عمل قرار دیا گیا ہے:
سورۃ البقرہ (آیت 102) ’اور لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کے بارے میں پڑھا کرتے تھے، اور وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے، اور وہ دونوں (ہاروت و ماروت) کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک نہ کہہ دیتے: ہم تو آزمائش ہیں، پس تُو کافر نہ بن‘۔
سورۃ یونس (آیت 77) ’بے شک اللہ جادوگروں کے کام کو کامیاب نہیں ہونے دیتا‘۔
سورۃ الفلق (آیت 4) ’اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں پر پھونک مارتی ہیں‘۔
احادیثِ نبوی ﷺ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
مطلب یہ کہ جادو صرف دنیاوی جرم ہی نہیں، بلکہ دینی اعتبار سے مہلک اور ناقابلِ معافی گناہ بھی ہو سکتا ہے۔
عالمی سطح پر جادو کے خلاف اقداماتاقوام متحدہ نے 1992 میں قرارداد 47/8 منظور کی جس میں رکن ممالک کو ایسے توہماتی اور ظالمانہ اعمال کے خلاف قانون سازی کی ہدایت کی گئی جو انسانی حقوق پامال کرتے ہوں۔
گلف ممالک میں سخت اقدامات:سعودی عرب: جادو کو قابلِ گردن زدنی جرم قرار دیا گیا۔ متعدد عاملین کو سزائے موت دی گئی۔
متحدہ عرب امارات: جادو، تعویذ فروشی اور شیطانی عملیات پر قید اور بھاری جرمانے کی سزائیں موجود ہیں۔
قطر: کالا جادو 7 سے 10 سال قید کے زمرے میں آتا ہے.
ان ممالک میں جادو کو ’عقیدہ‘ نہیں بلکہ فوجداری جرم سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں کالا جادو: جرم یا بےحسی؟پاکستان میں جادوگر، عامل اور جعلی پیر دیہات سے شہروں تک ایک منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
کوئی واضح قانون نہیں
پاکستانی قانون میں جادو کو بطورِ جرم تسلیم نہیں کیا گیا۔ البتہ مندرجہ ذیل دفعات کے تحت کچھ معاملات درج کیے جاتے ہیں:
دفعہ 420 – فراڈ
دفعہ 506 – دھمکیاں
دفعہ 302 – قتل
مگر ان دفعات سے صرف ثانوی جرائم کو کور کیا جاتا ہے، جادو کی اصل نوعیت کو نہیں۔
چند چونکا دینے والے کیسز:لاہور (2018): ایک عورت کو ’جن نکالنے‘ کے بہانے زندہ جلا دیا گیا۔
کراچی (2021): بچی پر جادو کرنے کے بہانے زیادتی۔
فیصل آباد (2023): جادو کے شبہ میں ایک شخص کو قتل کر دیا گیا۔
پولیس افسر کیس (کراچی، 2024): ایک سینئر افسر نے اپنے ماتحت پر الزام لگایا کہ وہ اس پر کالا جادو کر رہا ہے تاکہ اس کی صحت، نیند اور فیصلہ سازی متاثر ہو۔ یہ ایف آئی آر ملکی میڈیا میں وائرل ہوئی اور ایک بنیادی سوال کھڑا کر گئی: ’جب قانون کے محافظ خود جادو سے خوفزدہ ہوں، تو عام شہری کیا کرے؟‘
ریاستی ناکامی کے اسباب: مذہبی اور سیاسی طبقات کی مزاحمت جادو کو ’عقیدے کا مسئلہ‘ سمجھ کر نظر انداز کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت کا فقدان جعلی پیروں اور عاملین کا اثر و رسوخ عوامی لاعلمی اور کمزور قانونی شعور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ (سفارشات) خصوصی قانون سازی: جادو کو بطور فوجداری جرم تسلیم کیا جائے۔ عاملین کی رجسٹریشن: ہر ’روحانی معالج‘ کی نگرانی کی جائے۔ خصوصی پولیس سیل: جادو، تعویذ فروشی، جعلی عاملین کے خلاف چھاپے اور تفتیش۔ عدلیہ و پولیس کی تربیت میڈیا کے ذریعے عوامی شعور کی بیداری UNO سے تعاون اور رپورٹنگکالا جادو محض توہم پرستی نہیں، بلکہ ایک خطرناک سماجی اور روحانی دہشتگردی ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ حرام اور فتنہ انگیز عمل ہے، جبکہ دنیا کی کئی حکومتیں اسے قانونی جرم مان کر سخت سزائیں دے رہی ہیں۔
اگر پاکستان نے فوری اقدامات نہ کیے، تو جعلی پیر اور عامل معصوم ذہنوں، خاندانوں، اور معاشرے کو برباد کرتے رہیں گے۔
جب تک جادو کو جرم نہ مانا جائے،اور سخت ترین سزائیں نہ دی جایین یہ عاملین قانون سے بالا رہیں گے، ان کے بااثر supporters عوام کو سحر کی زنجیروں میں جکڑتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کالا جادو جاتا ہے کے خلاف جادو کو دیا گیا
پڑھیں:
غفلت، ناقص ڈیزائن اور نگرانی سے بچنے کی کوششوں نے 5 جانیں لیں، ٹائٹن آبدوز سانحے کی رپورٹ جاری
شمالی بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں ٹائٹینک کے ملبے کی تلاش کے دوران تباہ ہونے والی آبدوز ’ٹائٹن‘ سے متعلق امریکی کوسٹ گارڈ نے 2 سال بعد ایک تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس سانحے سے بچا جاسکتا تھا، لیکن اوشین گیٹ کمپنی کی ناقص حفاظتی پالیسیوں اور نگرانی سے بچنے کی حکمتِ عملی نے مسافروں کی جانیں خطرے میں ڈالیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’ٹائٹن‘ کی باقیات نکال لی گئیں، ماہرین حادثے کی وجہ جاننے کے لیے کوشاں
یہ المناک واقعہ 18 جون 2023 کو پیش آیا جب ٹائٹن آبدوز، جو اوشین گیٹ نامی امریکی کمپنی کی ملکیت تھی، ٹائٹینک کے ملبے کی طرف جاتے ہوئے شدید پانی کے دباؤ سے تباہ ہو گئی۔ اس ہولناک اندرونی دھماکے (implosion) میں 5 افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، جن میں اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش، پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد، برطانوی مہم جو ہی مش ہارڈنگ اور فرانسیسی غوطہ خور پال ہینری نارجولیٹ شامل تھے۔
آبدوز کی ساخت اور خطرناک خامیاںاوشین گیٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹائٹن میں جدید کاربن فائبر کی سلنڈر نما کیبن موجود ہے، جو دوسرے زیرِ سمندر جہازوں کے مقابلے میں زیادہ کشادہ ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق یہ ڈیزائن روایتی ٹائٹینیئم کی بنی ہوئی گول کیبنوں سے مختلف اور کم محفوظ تھا، کیونکہ گول شکل پانی کے دباؤ کو یکساں طور پر برداشت کرتی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ سمندر کی جس گہرائی میں ٹائٹینک واقع ہے (تقریباً 12,500 فٹ یا 3,800 میٹر)، وہاں کا دباؤ 400 ایٹموسفیر یعنی 6,000 پاؤنڈ فی مربع انچ تک ہوتا ہے، جو کسی بھی کمزور ساخت کو لمحوں میں تباہ کرسکتا ہے۔
مسلسل دباؤ، موسمی اثرات، اور غفلترپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ٹائٹن نے 2 درجن سے زائد گہرے سمندر کے سفر کیے، جس سے اس کے ڈھانچے پر مسلسل دباؤ پڑا۔ مزید برآں یہ آبدوز کینیڈا کی سردیوں میں باہر کھلی جگہ پر رکھی گئی، جس سے درجہ حرارت کی تبدیلیوں نے اس کے ڈھانچے کی مضبوطی کو متاثر کیا۔
ادارے کا رویہ اور رپورٹ کے انکشافاترپورٹ کے مطابق اوشین گیٹ نے جان بوجھ کر حفاظتی انتباہات کو نظر انداز کیا، شفافیت سے گریز کیا اور جھوٹے دعوے کیے تاکہ اپنی ساکھ بہتر بنائی جاسکے اور ضابطہ جاتی اداروں کی نظروں سے بچا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹائٹینک حادثہ: آخری لمحات میں کیا ہوا تھا، اصل صورتحال کا سراغ لگ گیا
کوسٹ گارڈ نے الزام عائد کیا کہ کمپنی نے ’ریگولیٹری الجھن اور نگرانی کے خلا‘ کو استعمال کرتے ہوئے ٹائٹن کو مکمل طور پر روایتی حفاظتی پروٹوکولز سے باہر رکھا۔
متعدد سابق ملازمین نے سانحے کے بعد انکشاف کیا کہ کمپنی میں زہریلا ماحول تھا جہاں حفاظتی خدشات ظاہر کرنے والے عملے کو نظرانداز، معطل یا برطرف کر دیا جاتا تھا۔
نتیجہ اور سفارشاتتحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر حفاظتی اصولوں پر عمل کیا جاتا اور شفافیت اختیار کی جاتی تو یہ حادثہ روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹ میں آئندہ ایسے سانحات سے بچاؤ کے لیے 17 سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔
بحری تحقیقاتی آبدوزوں کی واضح قانونی تعریف مقرر کی جائے تاکہ ان پر باقاعدہ قواعد و ضوابط لاگو ہو سکیں۔
ایسی تمام آبدوزوں کو جو گہرے سمندر میں جاتی ہیں، بین الاقوامی اور قومی قوانین کے تحت لایا جائے۔
تمام آبدوزیں کوسٹ گارڈ کے پاس رجسٹر ہونا لازم قرار دی جائیں۔
ہر غوطہ کی مکمل منصوبہ بندی، حفاظتی تفصیلات اور ایمرجنسی پروٹوکول پہلے سے متعلقہ اداروں کو جمع کروایا جائے۔
غیر روایتی ڈیزائن یا نئی ٹیکنالوجی والی آبدوزوں کی حفاظتی جانچ آزاد ماہرین سے کروائی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹائٹینک جہاز کی کہانی، ہنری پال نارجیولیٹ کی یادوں میں!
کوسٹ گارڈ کے تکنیکی ماہرین اور انجینیئرز کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ مؤثر نگرانی ممکن ہو۔
گہرے سمندر میں سرچ اینڈ ریسکیو کی موجودہ صلاحیت کو جدید آلات اور تربیت کے ذریعے بہتر کیا جائے۔
بین الاقوامی سطح پر آبدوزوں کے لیے یکساں ضوابط بنانے کے لیے عالمی تنظیموں سے تعاون کو فروغ دیا جائے۔
ان آبدوزوں کے لیے ایک متفقہ عالمی تعریف مرتب کی جائے تاکہ قانونی ابہام دور ہو سکے۔
ملازمین کو محفوظ طریقے سے شکایات درج کروانے کی سہولت دی جائے اور سی مین پروٹیکشن ایکٹ کا مکمل اطلاق کیا جائے۔
شکایات کی چھان بین اور تحفظ کے عمل کو مضبوط بنانے کے لیے محکمہ محنت اور کوسٹ گارڈ میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
قوانین کی کمی والے شعبوں کی نشاندہی کر کے وہاں جامع ضوابط متعارف کروائے جائیں۔
جدید یا خطرناک آپریٹنگ ماڈلز والی کمپنیوں پر خصوصی نگرانی کا نظام قائم کیا جائے۔
ہر غوطہ سے قبل آپریشنل منظوری، حفاظتی تیاریوں اور خطرات کا مکمل جائزہ لیا جائے۔
کوسٹ گارڈ کے پاس انجینیئرنگ اور تکنیکی مشاورت کے لیے ماہرین کا مستند پینل تشکیل دیا جائے۔
آبدوزوں کی تیاری کے تمام مراحل پر قانونی منظوری اور سیفٹی ریویو کو لازم بنایا جائے۔
زیرِ آب سرچ اینڈ ریسکیو کی صلاحیت کا سالانہ بنیادوں پر مکمل تجزیہ کیا جائے اور اس میں تسلسل سے بہتری لائی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آبدوز امریکی کوسٹ گارڈ اوشین گیٹ ٹائٹن سانحہ رپورٹ شمالی بحرِ اوقیانوس ناقص ڈیزائن