’’ سی سی ڈی نے 10 لاکھ مانگے ، جتنے ہوئے دیئے لیکن پھر بھی بیٹے کو انکاونٹر میں قتل کر دیا گیا ، بوڑھی ماں عدالت پہنچ گئی
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ کی جانب سے حال ہی میں کیئے جانے والے کئی انکاونٹرز پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور اب ایک بوڑھی ماں بھی اپنے بیٹے کو پولیس مقابلے میں قتل کیئے جانے کے خلاف عدالت پہنچ گئی ۔
تفصیلات کے مطابق سریا بی بی نے انکشاف کیا کہ رات 2 سے 3 بجے پولیس ان کے گھر پر آئی اور بیٹے کو لے گئی ، جب ہماری ان سے بات چیت ہوئی تو اہلکاروں نے بیٹے کو چھوڑنے کیلئے 10 لاکھ روپے رشوت مانگی، پولیس والوں سے جب بات چیت طے ہو گئی تو کہنے لگے کہ تمہارے بیٹے کی ضمانت ہو جائے گی لیکن جب عدالت پہنچے تو بتایا گیا کہ بیٹے شہباز کو انکاونٹر میں مار دیا گیاہے اور اس کے اپنے بھائی وقار نے ہی اسے قتل کیا ہے جس بیٹے کا یہ نام لے رہے ہیں وہ بیٹا تو اس دن ہمارے ساتھ ہی عدالت گیا تھا ۔سریا بی بی کا کہناتھا کہ شہباز شادی شدہ تھا اور اس کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں ۔
شیر افضل مروت تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہیں : سلمان اکرم راجہ
سریا بی بی کے ساتھ موجود نوجوان شخص کا کہناتھا کہ شہباز کا کیس احمد مجتبیٰ کے پاس تھا ، ان کے ساتھ ساری بات چیت ہوئی اور ہم نے آدھے پیسے بھی دیدیئے تھے ، اس نے ہمیں کہا کہ جلدی پیسے کر لو پھر خطرہ ہو جانا ہے پھر ہماری ذمہ داری نہیں ہونی ، ہم نے اسے تین لاکھ روپے دیدیے تھے ۔ اس نے بتایا کہ شہباز پر پہلے 302 اور 324 کے مقدمے تھے لیکن اس میں بری ہو گیا تھا ، اس مرتبہ جب پکڑا گیا تو اس پر یکی گیٹ کا ہی کیس ڈالاہے ، اس کے ساتھ ایک لڑکا تھاوہ پٹھان تھا، جنہیں کیس میں ملوث کیا گیا ۔ اس پٹھان کا اپنی برادری کے پٹھان کے ساتھ جھگڑا تھا اور دوسرے پٹھان کو گولی گی تھی ، دونوں پٹھان لڑکوں کی آپس میں صلح کروائی گئی اور پٹھان لڑکے سے 15 سے 20 لاکھ روپے لیئے ، اسے جوڈیشل کروایا اور پھر وہ ضمانت کر کے نکل گیا ، شہباز پکڑا گیا ، اس پر سب کچھ ڈال دیا ، پھر ہمیں کہا گیا کہ ہم آپ کی ان کے ساتھ صلح کروا دیں گے ، لیکن جب پیر کو عدالت پہنچے تو جج صاحب نے بتایا کہ شہباز کا انکاونٹر ہو گیا ہےاور بتایا کہ بھائی نے ہی مارا ہے جس کا نام وقار بٹ ہے ، جس کی ضمانت کیلئے ہم عدالت گئے تھے ۔
پاکستان بزنس کونسل دبئی کے زیر اہتمام سپیڈ نیٹ ورکنگ ایونٹ کے دوسرے ایڈیشن کا انعقاد
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کہ شہباز بیٹے کو کے ساتھ
پڑھیں:
پولیس کا بس چلے تو گھروں کا سامان بھی اٹھا کر لے جائے، تفتیش کریں لوٹ مار نہیں. سندھ ہائیکورٹ
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 اگست ۔2025 )سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ظفر راجپوت نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ پولیس کا بس چلے تو گھروں کا سامان بھی اٹھا کر لے جائے، تفتیش کریں لوٹ مار نہیں شاہ لطیف ٹاﺅن سے لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت سندھ ہائیکورٹ میں ہوئی، جس میں عدالت نے تفتیشی افسر سے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرلی. جسٹس ظفر احمد راجپوت کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو شاہ لطیف ٹاﺅن سے لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، جس میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساتھ علی حسن اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملیر آصف عدالت میں پیش ہوئے.(جاری ہے)
درخواست گزار نے کہا کہ میرے بھائی کو پولیس نے گرفتار کیا اور گھر میں لوٹ مار کی پولیس اہلکاروں نے گھر سے زیورات اٹھائے اور بھائی کی موٹر سائیکل بھی لے گئے درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ شہری مصور کو پولیس نے شاہ لطیف کے علاقے سے حراست میں لیا پولیس نے موٹرسائیکل ظاہر کردی ہے تاہم مصور حسین تاحال لاپتا ہے، بازیاب کرایا جائے.
پولیس حکام نے کہا کہ لاپتا شہری ڈکیتی کے مقدمات میں ملوث ہے عدالت نے ریمارکس دئیے کہ زیورات کے لیے تفتیش کی ضرورت ہے لیکن بتائیں موٹر سائیکل کیوں لے گئے پولیس افسران نے کہا کہ موٹر سائیکل لاوارث کھڑی تھی اور 50 لاکھ روپے کی بینک ڈکیتی میں استعمال ہوئی موٹر سائیکل کے ڈکیتی میں ملوث ہونے کے شواہد جیو فینسنگ میں سامنے آئے. جسٹس ظفر راجپوت نے اظہار حیرت کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ جیو فینسنگ میں آدمی کا تو اندازہ ہو جاتا ہے، موٹر سائیکل کا کیسے پتا چل سکتا ہے؟ پولیس کا بس چلے تو گھروں سے سارا سامان بھی اٹھا لے جائیں گھر کے باہر کھڑی گاڑی لاوارث نہیں ہوتی، ایسے تو پولیس سارے شہر کی گاڑیاں لے جائے عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ تفتیش کریں،لوٹ مار نہ کریں، ورنہ ہم سخت احکامات جاری کریں گے. جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے احکامات سے متعلقہ پولیس والوں کی نوکری اور پوسٹنگ بھی متاثر ہوسکتی ہے عوام کے مال کو غنیمت سمجھ کر لوٹ مار نہ کی جائے عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اپنی من مانی کرنا چاہتے ہیں تو پہلے معاشرے کو جنگل قرار دیدیں کہہ دیں کہ ہمارے پاس ڈنڈا ہے اور جو ہم چاہیں گے وہی قانون ہے . جج نے کہا کہ اگر ہم کسی مہذب معاشرے میں ہیں، تو مہذب معاشرے اداروں سے چلتے ہیں تفتیشی افسران نے کہا کہ ہمیں مہلت دیں ہم تمام صورتحال سے عدالت کو آگاہ کردیں گے عدالت نے پیشرفت سے آگاہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 22 اگست تک ملتوی کردی.