اسلام ٹائمز: اگر ایران اس طرح کے چند اور بڑے میزائیلوں کے حملے کرتا ہے تو اسرائیل اپنے جدید میزائیلوں کے ذخیرے کو ختم کر دے گا۔ ”جنسا“ کی رپورٹ کے نتائج کے مطابق ایسے میں جب کہ ایرانی میزائیلوں کو روکنے والے ساٹھ فیصد انٹر سیپٹر میزائیل THAAD تھے، ایرانی میزائیلوں کے ”ہٹ ریٹ“ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات تھاڈ کے خلاف ایرانی نظام کے فعال ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
بعض اطلاعات کے مطابق اسرائیل ایران سے کسی نئے معرکے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل جس نے اب تک امریکہ پر مکمل انحصار کیا ہے، کیا وہ وعدہء صادق ٣ کے تجربے کے بعد امریکی دفاعی نظام پر اعتماد کرکے ایران سے خلاف پھر کوئی محاذ آرائی شروع کر سکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایران نے جس طرح گزشتہ جنگ میں امریکہ کے افسانوی طرز کے دفاعی سسٹم ”THAAD“ کے پرخچے اڑائے ہیں، اس کا نظارہ اسے تمام دنیا نے اپنی آنکھوں سے براہ راست دیکھا ہے۔ اسرائیلی اخبار HARRETZ ہاریٹز کے ایک تجزیے کے مطابق حالیہ جنگ میں تقریباً 100 تھاڈ میزائیل استعمال کیے گئے تھے۔ لیکن امریکی میڈیا جیسے CNN کی بعد میں آنے والی رپورٹس کے مطابق ان کی تعداد کم سے کم 150 بتائی گئی ہے جو اس پروڈیکٹ کی تیاری کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ کے تیار کردہ میزائیلوں کا چوتھائی حصہ ہے۔ بارہ دنوں میں امریکی دفاعی صلاحیت میں اس قدر کمی کچھ اور ہی منظر دکھا رہی ہے۔
مذکورہ تخمینوں کے مطابق اس جنگ میں امریکہ اور اسرائیل کی مداخلت کے اخراجات کم از کم 1.
اگر ان اعداد و شمار کو بھی حتمی سمجھ لیا جائے تب بھی زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ اگر جنگ مزید ایک ہفتہ اور جاری رہتی تو اسرائیل کا دفاعی نظام مکمل طور پر بیٹھ گیا ہوتا۔ ”جیوش انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی ان امریکہ“ (JINSA) میں فارن پالیسی کے نائب صدر ”ایری سیکورل“، حالیہ جنگ کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ کے ایک تازہ تجزیے میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کو اب ایسے انٹرسیپٹرز کی دوبارہ فراہمی کا چیلنج درپیش ہے ، جن میں سے ہر ایک کی قیمت تقریباً 12.7 ملین ڈالر ہے۔ اندازوں کے مطابق امریکہ کو 2024ء میں صرف گیارہ تھاڈ میزائیل ملے اور سال کے آخر تک مزید 12 میزائیل ملنے کی توقع ہے۔ امید ہے کہ 2026ء کے مالی سال کے اختتام تک 25 سے 37 کے درمیان مزید میزائیلوں کی سپلائی کر دی جائے گی۔
دریں اثناء امریکی فوجی اداروں کو خبروں اور معلومات فراہم کرنے والے معروف ”سٹارز اینڈ سٹرپس میگزین“ کے مطابق، پیداوار کی اس شرح پر ، امریکی فوج کے تھاڈ کے ذخیرے کو دوبارہ بھرنے میں آٹھ سال تک لگ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے میں جب کہ امریکہ نے بعض دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تھاڈ سسٹم فراہم کرنے کے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ جن میں سعودی عرب کو 7 تھاڈ سسٹم بھیجنے کے لئے پندرہ بلین ڈالر اور اس کے علاوہ 360 بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ شامل ہے۔ ”وال سٹریٹ جرنل“ کے مطابق صیہونی حکومت کی مسلط کردہ جنگ کے دوران مقبوضہ علاقوں پر ایران کے برسائے گئے میزائلوں کی لہر نے امریکہ کے انٹرسیپٹر میزائیلوں کے ذخیرے میں پیدا ہونے والے خلاء کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اگر ایران اس طرح کے چند اور بڑے میزائیلوں کے حملے کرتا ہے تو اسرائیل اپنے جدید میزائیلوں کے ذخیرے کو ختم کر دے گا۔ ”جنسا“ کی رپورٹ کے نتائج کے مطابق ایسے میں جب کہ ایرانی میزائیلوں کو روکنے والے ساٹھ فیصد انٹر سیپٹر میزائیل THAAD تھے، ایرانی میزائیلوں کے ”ہٹ ریٹ“ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات تھاڈ کے خلاف ایرانی نظام کے فعال ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ایران کی مسلح افواج کے پاس صیہونی حکومت کے مختلف مراکز، حتا کہ امریکی کے بعض مراکز کو بھی تباہ کرنے کے ایسے وسائل موجود ہیں جن کی رونمائی ایران نے ابھی تک نہیں کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایرانی میزائیلوں میزائیلوں کے امریکہ کے کے مطابق کے ذخیرے اور اس
پڑھیں:
افغان طالبان سے کشیدگی، ترک وفد اسی ہفتے پاکستان کا دورہ کرے گا: اردگان بات چیت جاری رہنی چاہئے، ایران
انقرہ+ اسلام آباد+ واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) ترک صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کے وزیر خارجہ حکان فیدان، وزیر دفاع یشار گولر اور انٹیلی جنس چیف ابراہیم کالن رواں ہفتے اسلام آباد کا دورہ کریں گے تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات چیت کی جا سکے۔ صدر اردگان نے یہ اعلان آذربائیجان سے واپسی پر صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ ذرائع کے مطابق استنبول میں ہونے والے پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات کسی معاہدے کے بغیر ختم ہوگئے ہیں۔ مذاکرات میں فریقین سرحد پار دہشت گردی کی نگرانی کے طریقہ کار پر اتفاق نہ کر سکے۔ علاوہ ازیں استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور سے متعلق دفتر خارجہ نے بیان جاری کردیا۔ ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور استنبول میں7 نومبرکوختم ہوا۔ پاکستان نے ترکیے اور قطر کے مخلصانہ ثالثی کے مثبت اقدامات کو سراہا۔ بیان میں کہا گیا کہ طے شدہ دورانیے کے باوجود افغان حکومت نے دہشتگرد عناصرکے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ گزشتہ 4 سال میں افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا، پاکستان نے ہر بار تحمل کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان نے تجارتی و انسانیت دوست پیشکشیں کیں مگر عملی جواب نہ ملا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ملکوں نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ انسانی ہمدردی کا نہیں۔ بار بار دہشتگردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ طالبان نے اکثر غلط بیانی کی۔ افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر دہشتگردانہ حملے بڑھے۔ دریں اثناء نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ثالثی و مصالحت کی پیش کشی کی۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات‘ علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ایران کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے زور دیا کہ دونوں ممالک کو بات چیت جاری رکھنی چاہئے۔ علاوہ ازیں افغان طالبان حکومت کی نااہلی، معاشی بدانتظامی اور عوام دشمن پالیسیوں کے باعث افغانستان شدید بحران کا شکار ہونے لگا ہے۔ افغان طالبان کے ظالمانہ اقتدار نے افغانستان کو غربت، افلاس اور تباہ حالی کی تصویر بنا دیا۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے افغانستان کی تباہ حال معیشت اور عوامی بدحالی کو آشکار کر دیا۔ امریکی میڈیا نے بتایاکہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی 2025 ء کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی 64.9 فیصد آبادی کثیرالجہتی غربت کا شکار ہے جبکہ مزید 19.9 فیصد افغان شہری غربت کے دہانے پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں غربت میں نمایاں کمی کے باوجود افغانستان اس بہتری سے محروم رہا۔ افغانی عوام اپنی بنیادی ضروریات سے 55.5 فیصد حد تک محروم ہیں۔علاوہ ازیں نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے افغان وزیر سے بھی رابطہ کیا۔