پاکستان و ہندوستان کو یومِ آزادی مبارک لیکن کشمیر؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بھارت کیلئے مناسب یہی ہے کہ موجودہ دور میں کشمیریوں پر مزید مظالم کرکے اپنے مستقبل کو اور زیادہ تلخ بنانے کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین کاروبار، تعلیم، سیروسیاحت، اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے راستہ ہموار کرے۔ ہماری دانست میں بھارت کیلئے آج یہ سنہری موقع ہے کہ وہ جارحیّت اور قبضے کی تاریکی سے نکل کر اعترافِ جُرم کی شمع جلائے، نیز مقبوضہ وادی میں نہتّے عوام کے مدِّمقابل ہٹ دھرمی کے مظاہرے کے بجائے انسان دوستی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے تاکہ پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل روشن ہوسکے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم
پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، اور اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیئے۔ پاکستان کے اس موقف کا توڑ کرنے کیلئے بھارت نے کبھی بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ یعنی مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کیلئے ایک انتہائی جارحانہ قدم۔ بھارت نے اپنی قدیمی ہٹ دھرمی کے ساتھ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں سکھوں، ہندوؤں اور دیگر غیر کشمیری گروپوں کی آبادکاری پر عمل شروع کردیا ہے۔
خاص طور پر پنڈت کالونیوں اور سینک کالونیوں کا قیام کشمیریوں کیلئے ایک بڑے خطرے کا الارم ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے ریٹائرڈ فوجیوں کی کشمیر میں آبادکاری اور بھارتی ہندو طلباء کو کشمیر میں مستقل رہائش دینے کی اسکیمیں بھی شروع کی ہیں، جس سے کشمیریوں کیلئے کشمیر کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے؟ بھارت کے جمہوری سماج کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے کشمیریوں کو جنگ کا ایندھن بنانا کسی بھی صورت میں بھارت کیلئے نیک شگون نہیں۔ کیا کشمیر کو اجاڑ کر بھارت امن سے رہ پائے گا؟
کشمیری جنگ نہیں چاہتے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے ملک میں جنگ نہیں چاہتا۔ بھارت کا کشمیر سے کوئی تہذیبی، جذباتی یا تاریخی رشتہ نہیں لہذا بھارت کو کشمیر میں جنگ کے شعلے بڑھکانے اور کشمیر کے اجڑنے کا درد بھی نہیں۔ کشمیری جنگ کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف انٹرا کشمیر ٹریڈ اینڈ ٹریول کی بحالی چاہتے ہیں۔ دونوں طرف کے کشمیری ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے راہداریوں کو کھولنے اور رشتے داریوں کو قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ بلاشبہ بھارت کو کشمیریوں کے اس انسانی و فطری مطالبے سے انکار کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑئے گا۔ کیا بھارتی دانشور یہ نہیں جانتے کہ فطرت سے بغاوت کسی مسئلے کا حل نہیں۔
یہ تو صرف کشمیریوں کی تمنّا ہے کہ حقِ خود ارادیّت ملنے تک مقبوضہ کشمیر میں انسان دوستانہ اقدامات کئے جائیں تاکہ کشمیری عوام سُکھ کا سانس لیں لیکن کشمیر میں انسان دوستانہ اقدامات بھارت کیلئے اہم نہیں۔ ہر کشمیری کیلئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف مقامی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، دونوں طرف امپورٹ و ایکسپورٹ کا دروازہ کھلے، عزیزواقارب کا آنا جانا ہو اور ایک دوسرے سے میل جول قائم ہو۔ کشمیریوں سے زیادہ اور کون اس حقیقت کو درک کر سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے ساتھ گلگت بلتستان کے تجارتی راستوں اور مذہبی سیر و سیاحت کا آغاز دونوں خطوں کے عوام کی معاشی خوشحالی کی جانب کتنا بڑا قدم ہے۔
ان علاقوں میں کاروباری تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے جدید اقتصادی حکمت عملیوں کا اطلاق کرنا ضروری ہے جبکہ بھارت کے پاس کشمیریوں کیلئے صرف جنگ و جدال کا ہی نسخہ ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی دونوں طرف کے کشمیریوں کے لیے آمدورفت کی گنجائش موجود ہے۔ اگر دونوں طرف کے تعلیمی اداروں کے درمیان روابط استوار ہوں تو یہ عمل نہ صرف تعلیمی معیار کو بہتر بنائے گا بلکہ نوجوان نسل کے لیے سوچنے، سیکھنے اور مشاہدات کے نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے گا۔
پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اگر دونوں طرف کی کشمیری جامعات میں تعلیمی تعاون کو فروغ دیں تو دونوں ممالک کے درمیان طلباء کے تبادلے اور تحقیقاتی منصوبوں کے ذریعے ایک نیا علمی دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ دونوں طرف کے لوگوں کے درمیان قُربتیں بھی بڑھیں گی۔ کشمیر میں سیروسیاحت کو بھی ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کو شاردہ پیٹھ تک رسائی دینے کی بہت اہم ہے۔
تاہم اس تجویز کو عملی کرنے کیلئے کشمیری مسلمانوں کو بھی درگاہ حضرت بل، چرار شریف اور دیگر مقدس مقامات کی زیارات کی اجازت دینی چاہیئے۔ اس سے نہ صرف کشمیر کی مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا بلکہ کشمیر کی سیاحت کی صنعت کو بھی نیا زاویہ ملے گا۔ سیروسیاحت دونوں طرف کے کشمیریوں کے لیے نہ صرف روحانی سکون کا باعث بنے گی بلکہ کشمیر کی معیشت کو عالمی سطح پر ایک نئی پہچان ملے گی۔ عالمی سیاحوں کو کشمیر کی ثقافت، تاریخ، اور قدرتی خوبصورتی کی سیر کرانے سے مقامی معیشت کو بھی زبردست فائدہ پہنچے گا۔
اسی طرح کھیلوں کا شعبہ بھی کشمیریوں کے مابین خوشگوار آمدورفت کا ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو قانونی طور پر مشترکہ کھیلوں کے پروگراموں میں حصہ لینے کا موقع ملے، تو یہ نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرے گا بلکہ دونوں طرف کے عوام کے درمیان مثبت تعلقات اور یکجہتی بھی پیدا کرے گا۔ کھیلوں کے ذریعے امن اور تعاون کا پیغام ہر ایک کے دل میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب مثبت اقدامات تب ہی ممکن ہیں جب بھارت کے عوام اور دانشور اپنے پالیسی ساز اداروں کو حقیقت کا راستہ اپنانے پر مجبور کریں۔
بدقسمتی سے بھارت کی جارحانہ حکمت عملی کے باعث دونوں طرف کے کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق مسلسل ستتر برس سے پامال ہورہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کشمیر میں نہتے عوام کے خلاف جنگی نوعیت کے اقدامات اور عسکری طاقت کا بے جا استعمال اس علاقے کے معاشی اور سماجی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ بھارت امن کی راہ اختیار کرے اور کشمیر کو سیاسی طور پر ایک پرامن اور سفارتی حل کی طرف لے جائے تو اس سے تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور جنم لے گا۔
بھارت کی کشمیر پالیسی نے (جس میں جارحانہ فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں غیر قانونی تبدیلیاں اور آبادکاری کی نئی پالیسیوں کا آغاز کرنا شامل ہے) کشمیر کی سیاست اور سماج میں ایک شدید ردِّعمل کو جنم دیا ہے۔ ایک ایسا ردِّعمل جو لاوے کی مانند زیرِ زمین خاموش مگر متحرک ہے۔ ان اقدامات سے بھارت کا مقصد تو کشمیر میں بھارت کی گرفت کو مستحکم کرنا اور کشمیری عوام کو بھارت کے اندر ضم کرنا ہے لیکن بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیئے کہ وہ کسی بھی صورت میں مقبوضہ کشمیر کو ہضم اور کشمیریوں کو اپنے اندر ضم نہیں کر سکتا۔
لہذا بھارت کیلئے مناسب یہی ہے کہ موجودہ دور میں کشمیریوں پر مزید مظالم کرکے اپنے مستقبل کو اور زیادہ تلخ بنانے کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین کاروبار، تعلیم، سیروسیاحت، اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے راستہ ہموار کرے۔ ہماری دانست میں بھارت کیلئے آج یہ سنہری موقع ہے کہ وہ جارحیّت اور قبضے کی تاریکی سے نکل کر اعترافِ جُرم کی شمع جلائے، نیز مقبوضہ وادی میں نہتّے عوام کے مدِّمقابل ہٹ دھرمی کے مظاہرے کے بجائے انسان دوستی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے تاکہ پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل روشن ہوسکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف دونوں طرف کے کشمیری میں بھارت کی کشمیریوں کے کشمیریوں کی بھارت کیلئے کشمیری عوام اور کشمیر کے درمیان کہ کشمیر کو کشمیر کشمیر کی بھارت کے کے بجائے سکتا ہے عوام کے کے لیے کی طرف کو بھی
پڑھیں:
پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات
ہندوستان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی شکست کو قبول کرنے سے انکارکردیا اور اپنے جنگی نقصانات کا انکاری ہوا۔ دوم، اس نے جنگ بندی کروانے میں امریکی صدرکے کردارکا بھی اعتراف نہیں کیا اور نتیجتاً اپنے اوپر پچیس فیصد ٹیرف عائد کروا لیا جو اب بڑھ کر پچاس فیصد ہوگیا ہے۔
ہندوستان روسی تیل کی خریداری اور اس کی بین الاقوامی بازار میں فروخت کو خود کی بہت بڑی معاشی اور سفارتی کامیابی سمجھتا تھا۔ یکایک اس کی ساری معاشی اور غیر معاشی سرگرمیاں بین الاقوامی اداروں کے راڈار پر آگئی اور عالمی ذرایع ابلاغ میں اس پر تحقیقات اور گفتگو ہونے لگی۔
موجودہ حالات میں بات ٹیرف کی پابندیوں تک نہیں رہی ہیں بلکہ ہندوستان نے یکطرفہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرکے دنیا بھر کے دریاؤں کے استعمال اور پانی کے معاہدوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مہذب دنیا نے نہ صرف اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے مستقبل میں پانی کے حوالے سے تنازعات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے اور جس کی وجہ ہندوستان ہے۔
دنیا یہ بھی خیال کرسکتی ہے کہ یہ ہندوستان کی عالمی امن کو خراب کرنے کی مذموم سازش بھی ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے سلامتی کونسل کے مستقل ممبر بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا ہے اور دنیا یہ سمجھنے لگی ہے کہ ہندوستان میں ایک بڑا عالمی کردار ادا کرنے کی نہ اہلیت ہے اور نہ سکت۔ ہندوستان صرف ایک ہندو ریاست ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ہرچند کے اب ہندوستانی فوج نے جنگ میں ہونیوالے نقصانات کا اعتراف کرنا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی نے بھی اپنے ذرایع ابلاغ کے غیر ذمے دارانہ کردار پر ان کی گوشمالی شروع کردی ہے۔ وہاں کے مہذب حلقوں کا کہنا ہے کہ بجائے اس کے کہ ذرایع ابلاغ ایک ذمے دارانہ کردار ادا کرتا، اس نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ پورا ذرایع ابلاغ مودی کے مذموم ایجنڈے پر کام رہا تھا کہ جس کا خمیازہ اب ریاست اور عوام بھگت رہے ہیں۔ مودی کے اکتیس اگست دوہزار پچیس کو چین کے ممکنہ دورے کی خبر نے بین الاقوامی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور سنا ہے کہ ہمیں بھی دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔
مودی سات سال بعد چین جا رہا ہے۔ ابھی اس دورے کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا بس آپ کو ایک کہاوت بتائی جاسکتی ہے کہ ’’ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کرگرتا ہے۔‘‘ ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، آپ سب کچھ بدل سکتے ہیں پڑوسی نہیں تبدیل کرسکتے۔
ہمارے بھی یہ مفاد میں ہے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات بہتر اور برابری کی بنیاد پر استوار ہوں۔ اب ہم اس پر بات کریں گے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات ہندوستان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری کیوں ہے؟ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ایک پراکسی جنگ تھی۔
اصل لڑائی تو دراصل چین اور امریکا کی تھی، اگر اور کھل کر بات کرے تو مغربی اور چینی ٹیکنالوجی کے درمیان جنگ تھی۔ مغرب اپنی ٹیکنالوجی کے سامنے چینی ٹیکنالوجی کو حقیر سمجھتا تھا مگر یہ پاکستانیوں کی مہارت تھی کہ جس کے طفیل چین نے اپنی ٹیکنالوجی کا لوہا منوایا اور مغربی ٹیکنالوجی کو شکست دی۔
مغرب نے ہار ماننے کے بجائے اس کا ملبہ ہندوستانیوں کی اہلیت اور صلاحیت پر ڈالنے کی کوشش کی کہ جس نے ہندوستان کو آگ بگولہ کردیا اور یوں دونوں کے تعلقات میں دراڑ آنے لگی۔ اب اگر آپ اس تناظر میں دیکھیں تو ہندوستان کے پاس دو راستے ہیں۔
ایک، وہ چین کے ساتھ اپنے تمام تعلقات ٹھیک کر لے کہ جس میں لداخ، تبت اور دیگر تنازعات شامل ہیں اور یا پھر وہ پاکستان سے اپنے تعلقات ٹھیک کر لے جو نسبتاً زیادہ سہل اور سستا راستہ ہے۔ چین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ مغربی دنیا ہی ہوگی اور ڈر ہے کہ یہ راستہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جائے گا جوکہ امریکا اور اس کا موجودہ صدر چاہتا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کی ہزار سال کی مشترکہ تاریخ ہے اور یہ حقیقت ہے۔ اس تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہندوستان کھلے دل سے پاکستان اور اس کے وجود کو تسلیم کر لے، اگر ہندوستان ایسا کرتا ہے تو سب کچھ بہت آسان ہوجائے گا۔
کشمیر کا مسئلہ درحقیقت پانی کا مسئلہ ہے۔ فطرت نے وہاں پانی کے اتنے وسائل رکھے ہیں کہ جو دونوں ملک کی ضروریات سے بہت زیادہ ہے بلکہ سمندر برد کرنے پڑتے ہیں، اگر جرمنی اور فرانس اپنی تمام تر خون آلود اور خونخوار تاریخ کے باوجود یورپی یونین میں ایک ہوسکتے ہیں۔
اگر جرمنی اور برطانیہ دو عالمی جنگیں لڑنے کے باوجود یورپ میں شیر و شکر ہوکر رہ سکتے ہیں تو پھر پاکستان اور ہندوستان کے اچھے تعلقات میں رکاوٹ کیوں ہے؟ یہ مغربی دنیا کا وطیرہ رہا ہے کہ جب انھیں اپنا نوآبادیاتی نظام دنیا سے ختم کرنا پڑا تو ہر جگہ سے جانے سے پہلے انھوں نے کوئی نہ کوئی تنازعہ پیچھے چھوڑ دیا جو ان ممالک کے لیے آگے چل کر ناسور بن جاتا ہے۔
یہ بات سمجھا جتنا اب ضروری ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ ہندوستان پاکستان کے ذریعے نہ صرف مغرب سے اپنے تعلقات ٹھیک کرسکتا ہے بلکہ دونوں ممالک مل کر بہت بڑی علاقائی قوت بن سکتے ہیں اور پھر مغرب ہمیں نہ یوں لڑوا سکے گا اور نہ بلیک میل کرسکے گا۔
یہ بات جتنی پاکستان کے مفاد میں ہے اس سے کئی گنا زیادہ ہندوستان کے مفاد میں ہے۔پاکستان کے پاس کھونے کے لیے کچھ زیادہ نہیں ہے، ہماری معاشی حالت دنیا کے سامنے عیاں ہے لیکن ہندوستان کے اپنے عالمی عزائم بہت زیادہ ہیں اور اسی لیے اس کا اسٹیک یا داؤ پر بھی بہت کچھ لگا ہوا ہے، اب یہ اس نے طے کرنا ہے کہ وہ اس کی کیا قیمت ادا کرنا چاہتا ہے۔
مودی سات سال بعد چین کے دورے پر جا رہا ہے، ہرچندکہ ان کی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن جلد ہی ہوجائے گی۔ شنید یہ ہے کہ مودی شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرے گا۔ اس وقت دونوں ممالک کے ماہرین اس دورے کی جزئیات طے کر رہے ہونگے اور اس کے بعد کے جاری ہونیوالے مشترکہ بیانیہ پر بھی کام ہو رہا ہوگا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اس ملاقات کو مغرب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا؟ بالکل بھی نہیں بلکہ ہندوستان کے لیے مشکلات بڑھ جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے خالصتان تحریک کی حامی تنظیم ’’ سکھ فار جسٹس‘‘ کے رہنما گروپتونت سنگھ پنن کو خط لکھ دیا ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر نئی بحث چھیڑدی ہے۔
ہندوستان میں بہت ساری آزادی کی تحریکیں چل رہی ہے کہ جن کو ہوا اور پانی دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے اچھے تعلقات ہندوستان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے ورنہ ہم اور آپ اپنی زندگی میں ہندوستان کے مزید ٹکڑے ہوتے دیکھیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام صورتحال تو پاکستان کے حق میں ہے۔