Islam Times:
2025-09-26@09:04:02 GMT

پاکستان و ہندوستان کو یومِ آزادی مبارک لیکن کشمیر؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

پاکستان و ہندوستان کو یومِ آزادی مبارک لیکن کشمیر؟

اسلام ٹائمز: بھارت کیلئے مناسب یہی ہے کہ موجودہ دور میں کشمیریوں پر مزید مظالم کرکے اپنے مستقبل کو اور زیادہ تلخ بنانے کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین کاروبار، تعلیم، سیروسیاحت، اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے راستہ ہموار کرے۔ ہماری دانست میں بھارت کیلئے آج یہ سنہری موقع ہے کہ وہ جارحیّت اور قبضے کی تاریکی سے نکل کر اعترافِ جُرم کی شمع جلائے، نیز مقبوضہ وادی میں نہتّے عوام کے مدِّمقابل ہٹ دھرمی کے مظاہرے کے بجائے انسان دوستی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے تاکہ پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل روشن ہوسکے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم

پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، اور اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیئے۔ پاکستان کے اس موقف کا توڑ کرنے کیلئے بھارت نے کبھی بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ یعنی مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کیلئے ایک انتہائی جارحانہ قدم۔ بھارت نے اپنی قدیمی ہٹ دھرمی کے ساتھ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں سکھوں، ہندوؤں اور دیگر غیر کشمیری گروپوں کی آبادکاری پر عمل شروع کردیا ہے۔

خاص طور پر پنڈت کالونیوں اور سینک کالونیوں کا قیام کشمیریوں کیلئے ایک بڑے خطرے کا الارم ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے ریٹائرڈ فوجیوں کی کشمیر میں آبادکاری اور بھارتی ہندو طلباء کو کشمیر میں مستقل رہائش دینے کی اسکیمیں بھی شروع کی ہیں، جس سے کشمیریوں کیلئے کشمیر کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے؟ بھارت کے جمہوری سماج کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے کشمیریوں کو جنگ کا ایندھن بنانا کسی بھی صورت میں بھارت کیلئے نیک شگون نہیں۔ کیا کشمیر کو اجاڑ کر بھارت امن سے رہ پائے گا؟

کشمیری جنگ نہیں چاہتے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے ملک میں جنگ نہیں چاہتا۔ بھارت کا کشمیر سے کوئی تہذیبی، جذباتی یا تاریخی رشتہ نہیں لہذا بھارت کو کشمیر میں جنگ کے شعلے بڑھکانے اور کشمیر کے اجڑنے کا درد بھی نہیں۔ کشمیری جنگ کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف انٹرا کشمیر ٹریڈ اینڈ ٹریول کی بحالی چاہتے ہیں۔ دونوں طرف کے کشمیری ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے راہداریوں کو کھولنے اور رشتے داریوں کو قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ بلاشبہ  بھارت کو کشمیریوں کے اس انسانی و فطری مطالبے سے انکار کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑئے گا۔ کیا بھارتی دانشور یہ نہیں جانتے کہ فطرت سے بغاوت کسی مسئلے کا حل نہیں۔

یہ تو صرف کشمیریوں کی تمنّا ہے کہ حقِ خود ارادیّت ملنے تک مقبوضہ کشمیر میں انسان دوستانہ اقدامات کئے جائیں تاکہ کشمیری عوام سُکھ کا سانس لیں لیکن کشمیر میں انسان دوستانہ اقدامات بھارت کیلئے اہم نہیں۔ ہر کشمیری کیلئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف مقامی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، دونوں طرف امپورٹ و ایکسپورٹ کا دروازہ کھلے، عزیزواقارب کا آنا جانا ہو اور ایک دوسرے سے میل جول قائم ہو۔ کشمیریوں سے زیادہ اور کون اس حقیقت کو درک کر سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے ساتھ گلگت بلتستان کے تجارتی راستوں اور مذہبی سیر و سیاحت کا آغاز دونوں خطوں کے عوام کی معاشی خوشحالی کی جانب کتنا بڑا قدم ہے۔

ان علاقوں میں کاروباری تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے جدید اقتصادی حکمت عملیوں کا اطلاق کرنا ضروری ہے جبکہ بھارت کے پاس کشمیریوں کیلئے صرف جنگ و جدال کا ہی نسخہ ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی دونوں طرف کے کشمیریوں کے لیے آمدورفت کی گنجائش موجود ہے۔ اگر دونوں طرف کے تعلیمی اداروں کے درمیان روابط استوار ہوں تو یہ عمل نہ صرف تعلیمی معیار کو بہتر بنائے گا بلکہ نوجوان نسل کے لیے سوچنے، سیکھنے اور مشاہدات کے نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے گا۔

پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اگر دونوں طرف کی کشمیری جامعات میں تعلیمی تعاون کو فروغ دیں تو دونوں ممالک کے درمیان طلباء کے تبادلے اور تحقیقاتی منصوبوں کے ذریعے ایک نیا علمی دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سماجی و  معاشی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ دونوں طرف کے لوگوں کے درمیان قُربتیں بھی بڑھیں گی۔ کشمیر میں سیروسیاحت کو بھی ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کو شاردہ پیٹھ تک رسائی دینے کی بہت اہم ہے۔

تاہم اس تجویز کو عملی کرنے کیلئے کشمیری مسلمانوں کو بھی درگاہ حضرت بل، چرار شریف اور دیگر مقدس مقامات کی زیارات کی اجازت دینی چاہیئے۔ اس سے نہ صرف کشمیر کی مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا بلکہ کشمیر کی سیاحت کی صنعت کو بھی نیا زاویہ ملے گا۔ سیروسیاحت دونوں طرف کے کشمیریوں کے لیے نہ صرف روحانی سکون کا باعث بنے گی بلکہ کشمیر کی معیشت کو عالمی سطح پر ایک نئی پہچان ملے گی۔ عالمی سیاحوں کو کشمیر کی ثقافت، تاریخ، اور قدرتی خوبصورتی کی سیر کرانے سے مقامی معیشت کو بھی زبردست فائدہ پہنچے گا۔

اسی طرح کھیلوں کا شعبہ بھی کشمیریوں کے مابین خوشگوار آمدورفت کا  ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو قانونی طور پر مشترکہ کھیلوں کے پروگراموں میں حصہ لینے کا موقع ملے، تو یہ نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرے گا بلکہ دونوں طرف کے عوام کے درمیان مثبت تعلقات اور یکجہتی بھی پیدا کرے گا۔ کھیلوں کے ذریعے امن اور تعاون کا پیغام ہر ایک کے دل میں پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب مثبت اقدامات تب ہی ممکن ہیں جب بھارت کے عوام  اور دانشور اپنے پالیسی ساز اداروں کو حقیقت کا راستہ اپنانے پر مجبور کریں۔

بدقسمتی سے بھارت کی جارحانہ حکمت عملی کے باعث دونوں طرف کے کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق مسلسل ستتر برس سے پامال ہورہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کشمیر میں نہتے عوام کے خلاف جنگی نوعیت کے اقدامات اور عسکری طاقت کا بے جا استعمال اس علاقے کے معاشی اور سماجی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ بھارت امن کی راہ اختیار کرے اور کشمیر کو سیاسی طور پر ایک پرامن اور سفارتی حل کی طرف لے جائے تو اس سے تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور جنم لے گا۔

بھارت کی کشمیر پالیسی نے (جس میں جارحانہ فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں غیر قانونی تبدیلیاں اور آبادکاری کی نئی پالیسیوں کا آغاز کرنا شامل ہے) کشمیر کی سیاست اور سماج میں ایک شدید ردِّعمل کو جنم دیا ہے۔ ایک ایسا ردِّعمل جو لاوے کی مانند زیرِ زمین خاموش مگر متحرک ہے۔ ان اقدامات سے بھارت کا مقصد تو کشمیر میں بھارت کی گرفت کو مستحکم کرنا اور کشمیری عوام کو بھارت کے اندر ضم کرنا ہے لیکن بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیئے کہ وہ کسی بھی صورت میں مقبوضہ کشمیر کو ہضم اور کشمیریوں کو اپنے اندر ضم نہیں کر سکتا۔

لہذا بھارت کیلئے مناسب یہی ہے کہ موجودہ دور میں کشمیریوں پر مزید مظالم کرکے اپنے مستقبل کو اور زیادہ تلخ بنانے کے بجائے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین کاروبار، تعلیم، سیروسیاحت، اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے راستہ ہموار کرے۔ ہماری دانست میں بھارت کیلئے آج یہ سنہری موقع ہے کہ وہ جارحیّت  اور قبضے کی تاریکی سے نکل کر اعترافِ جُرم کی شمع جلائے، نیز مقبوضہ وادی میں نہتّے عوام کے مدِّمقابل ہٹ دھرمی کے مظاہرے کے بجائے انسان دوستی اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنائے تاکہ پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل روشن ہوسکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف دونوں طرف کے کشمیری میں بھارت کی کشمیریوں کے کشمیریوں کی بھارت کیلئے کشمیری عوام اور کشمیر کے درمیان کہ کشمیر کو کشمیر کشمیر کی بھارت کے کے بجائے سکتا ہے عوام کے کے لیے کی طرف کو بھی

پڑھیں:

ملت بیضا کی شیرازہ بندی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250924-03-6

 

سید اقبال ہاشمی

قطر پر بلاجواز اور اشتعال انگیز اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہونے والے ہنگامی او آئی سی اجلاس کی رسمی قرار داد سے مسلم امہ کو شدید مایوسی ہوئی تھی۔ عام مسلمان تو یہی امید لگائے بیٹھے تھے کہ قطر میں ہونے والے اجلاس کے بعد ناٹو طرز کا اتحاد وجود میں آئے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا حالانکہ پاکستان نے اس اجلاس میں دلیرانہ موقف اختیار کیا تھا اور مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی تجویز بھی پیش کی تھی۔

مسلمانوں کی چنگیز خان کے ہاتھوں ہونے والی ذلت آمیز شکست سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ہزیمت کی ایک تاریخ ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ دشمن بدل جاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی قسمت میں لکھی ہوئی الف لیلوی رسوائی نہیں بدلتی ہے۔ ایسے میں حالیہ دنوں میں پاکستان نے جنگی جنون میں مبتلا ہندوستان کو جو کرارا جواب دیا ہے اس نے دوست دشمن سب کو نہ صرف یکساں طور پر ششدر کردیا ہے بلکہ پاکستان کا معترف بھی کر دیا ہے اور ہندوستان تو ابھی تک سکتے کے عالم میں انگشت بدنداں بیٹھا ہے کہ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ دنیا فاتح کے ساتھ چلتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں جہاں ہندوستان تنہائی کا شکار ہو گیا ہے وہیں پاکستان جسے ماضی قریب میں کوئی ملک منہ لگانا پسند نہیں کرتا تھا اس کی ساری دنیا میں آو بھگت شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل ایک طرف کبھی چائنا تو کبھی روس کے سربراہان مملکت سے مل رہے ہیں تو دوسری جانب عرب ممالک سرخ قالین بچھا کر توپوں کی سلامی اور ہوائی جہازوں کا حصار بنا کر ان کا استقبال کر رہے ہیں۔

بے خودی بے سبب نہیں ہے غالب

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

یہ سب ملاقاتیں اس بات کے غماز تھے کہ مسلمانوں کے حق میں کچھ نہ کچھ بہتر ہونے والا ہے۔ اور پھر بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ سعودی عرب اور پاکستان نے اچانک فوجی دفاعی تعاون کے معاہدے کا اعلان کر دیا اور وہ بھی اس طمطراق کے ساتھ کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا یعنی کہ بمصداق یک جان دو قالب۔ یہ معاہدہ تو مسلمانوں کے درمیان دین نے پہلے ہی طے کر دیا ہے کہ اگر ایک مسلمان کو جسم میں کہیں تکلیف ہو تو دوسرا بھی اسے اسی طرح محسوس کرے۔ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے عوام میں بالخصوص اور مسلم امہ میں بالعموم خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہندوستان میں البتہ صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کو درخور اعتناء سمجھتا ہی نہیں ہے اس لیے اسے ایسے کسی اتحاد کی کوئی پروا ہے بھی نہیں جسے وہ بلی کے خلاف چوہوں کی کانفرنس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے بھی وقت آگیا ہے کہ نہ صرف ابراہیمی معاہدہ جو کہ روح شریعت کے خلاف ہے مغرب کے منہ پر مار دے بلکہ اسرائیل کا حقہ پانی بند والا بائیکاٹ کرے۔ 1928 تک خلافت رہی اور آخری دنوں تک خلیفہ کی ایک دھمکی سے یورپ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔

دنیا تو ملٹی پولر ہوتی جا رہی ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ زیادہ اہم ہے کہ وہ خود ہزار سال سے بائی پولر مسلم ورلڈ میں جی رہے ہیں۔ ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد پاکستان نے ایران سے بھی پرخلوص مسلم بھائی چارے کا اظہار کیا تھا لیکن مشترکہ ملٹری معاہدہ پر بات چیت نشستند و گفتند و برخاستند سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ظاہر ہے کہ ایران کو پاکستان اور سعودی عرب کا معاہدہ نہ اچھا لگا ہے اور نہ وہ اس میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ ایران کی سعودی عرب کے ساتھ پراکسی وار کے پیچھے ایک ہزار سال کی تاریخ ہے اور یہ خلیج فارس اتنی وسیع ہے کہ بحیرہ عرب اس میں نہیں سما سکتا ہے۔ حالانکہ مسلم امہ کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ تمام اسلامی ممالک مل کر دشمن کے خلاف صف آراء ہوں۔ ایران کا اتحاد میں شامل ہونا امت اور خود ایران کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ ایران کی امریکی پابندیوں اور بین الاقوامی تنہائی کا اس سے بہتر مداوا ممکن نہیں ہے۔ ایران نے ائسولیشن میں جو ٹیکنالوجی خود انحصاری کی بنیاد پر حاصل کی ہے وہ ہم سب کا قیمتی سرمایہ ہے جس کا فیض سب مسلمانوں تک پہنچنا چاہیے۔

مسلمانوں کو دشمنوں کی بہ نسبت آپس کے اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ منافقین و غداران وطن جو بک جاتے ہیں وہ بین المسلمین اتحاد کی چادر میں سوراخ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ خطرات ہیں جو ایک چیلنج کی صورت میں ہمیں درپیش تھا اور آج بھی ہمارے سامنے ایک مہیب اندھیرے کی صورت میں کھڑا ہے۔ دونوں ملکوں کو اس جانب بھرپور توجہ رکھنی چاہیے۔ اس معاہدے کی کامیابی کی صورت میں اس کا دائرہ کار خود بڑھتا چلا جائے گا۔

پاکستان کا یہ اتحاد مبارک بھی ہے کہ پاکستان کو حرمین شریفین کی حفاظت کی سعادت نصیب ہوگئی ہے لیکن ہمارے رہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ بہت زیادہ بیرونی فوکس ہمیں معاشی، صنعتی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے اندرونی طور پر کمزور کر دیتی ہے جس کا ہم ماضی میں تجربہ کر کے ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ جس توازن کی اس وقت ملکی مفاد میں ضرورت ہے اسے بھلانا یا پس پشت ڈالنا بھاری نقصان کا سبب ہوگا۔

مسلم ممالک کے درمیان اتحاد کی یہ کوئی پہلی کاوش نہیں ہے لیکن یہ اتحاد کئی جہتوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان سے جنگ کے بعد پاکستان فوجی طور پر ایک مضبوط اسلامی ملک کے طور پر ابھرا ہے جس کی پشت پر پاک چائنا دوستی اور ان کی کثیر الجہتی اتحاد کی سنہری تاریخ ہے۔ یونی پولر ورلڈ میں چائنا ایک معاشی لحاظ سے طاقتور ملک بن کر سامنے آیا ہے جس کی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چائنا کا واضع موقف نظر آتا ہے کہ وہ جنگوں میں نہیں الجھنا چاہتا ہے لیکن ہم خیال ممالک کو معاشی ترقی میں بھرپور تعاون فراہم کرنے کا خواہاں بھی ہے اور ایسا وہ عملی طور پر کر بھی رہا ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں چائنا پاکستان کے تعاون سے سر انجام دینا چاہتا ہے جس میں سب سے اہم جنگی سازو سامان کی فروخت ہے۔

اب یہ بات مسلم ممالک پر واضح ہوچکی ہے کہ مغرب کی ٹیکنالوجی پر انحصار قابل بھروسا حکمت عملی نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت اور موبائل کمیونیکیشن میں ہونے والی ترقیوں کی وجہ سے اب یہ ممکن ہے کہ کسی بھی مشینری کو کبھی بھی ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان نے مغربی سامان حرب پر انحصار کم کرکے چائنا کے تعاون سے لوکل اور جوائنٹ پروڈکشن پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اسرائیل کی بے رحمانہ جارحیت کے بعد اسلامی دنیا میں مغرب کے خلاف مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اب یہ بھی ان پر واضح ہوگیا ہے کہ مغرب کے مہنگے حربی ساز و سامان پر انحصار حقیقت میں دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اس صورتحال میں چائنا اس یونی پولر ورلڈ کو بائی پولر بنا کر توازن پیدا کر سکتا ہے اور اس کی کم قیمت ٹیکنالوجی قابل بھروسا بھی ہے۔

یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاہدے کے پشت پر چائنا اور روس کھڑے ہیں۔ مغرب کی جانب سے معاہدے پر محتاط تبصرے اس بات کی عکاس ہیں۔ کچھ بعید نہیں ہے کہ امریکا نے بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر اس معاہدے کو قبول کر لیا ہو۔ چائنا ایک طرف تو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مغرب کا ہم پلّہ ہو چکا ہے تو دوسری طرف اس کے سامان حرب کی قیمت ان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ چائنا بھی امریکا کا ڈسا ہوا ہے اور اس کے لیے یہ بات اہم ہے کہ اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ چائنا کی پشت پر روس اور جنوبی کوریا کی قوتیں بھی ہیں اور اس تثلیث سے مغرب مفاہمت تو کر سکتا ہے لیکن مسابقت نہیں۔ یہ نکتہ لیکن اپنی جگہ اہم ہے کہ مسلمان جب تک سائنس تحقیقات اور جوائنٹ ملٹری پروڈکشن پر توجہ نہیں دیں گے ان کا چائنا پر انحصار آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ چائنا کا مہیا کیا ہوا سامان حرب کل اسی طرح اسکریپ نہ کرنا پڑ جائے جیسے عرب ممالک مغرب سے درآمد شدہ دفاعی ساز و سامان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ قوموں کی عزت کا دار و مدا انحصار پر نہیں بلکہ خود انحصاری پر ہے۔

تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول

لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اقبال ہاشمی

متعلقہ مضامین

  • الطاف حسین وانی کا کشمیریوں کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت پر ترک صدر اور او آئی سی کا خیرمقدم
  • ہم جانتے ہیں کہ فائنل میں کیا کرنا ہے، ہم تیار ہیں: سلمان آغا
  • بھارت میں 67 علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ دونوں برادرا سلامی مالک کیلئے نعمت ہے، علامہ ریاض نجفی
  • معرکہ حق پاکستان کی عظیم فتح، پاک افواج نے ہندوستان کو شکست فاش دی: وزیراعظم
  • کشمیریوں کا منظم استحصال
  • 1988 میں فلسطین کو تسلیم کیا، جدوجہد آزادی میں ہمیشہ ساتھ دیں گے: پاکستان کا دو ٹوک مؤقف
  • او آئی سی رابطہ گروپ کا اہم اجلاس، کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کا اعادہ
  • کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہاہے!
  • ملت بیضا کی شیرازہ بندی