سٹی 42 : بھارت ایک بار پھر سفارتی آداب بھول گیا, آپریشن بنیان المرصوص میں تاریخی شکست کا غصہ پاکستانی سفارت کاروں پر اتارنے لگا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق بھارت کی جانب سے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں کو حراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سفارت کاروں کی رہائش گاہوں کی گیس اور انٹرنیٹ کی سہولیات وقتأ فوقتأ روکی جارہی ہیں۔

 وفاقی حکومت کا14اگست کوعام تعطیل کااعلان

 سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی سفارتکار جن گھروں میں رہ رہے ہیں، ان گھروں کو خالی کرنے کا احکامات دیے جارہے ہیں، ایک سفارت کار کو گھر خالی کرنے کا حکم گھر کے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی جاری کر دیا گیا۔  

 علاوہ ازیں، 4 سے 5 پاکستانی سفارتکاروں کو اب تک گھر چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: پاکستانی سفارتکاروں کرنے کا

پڑھیں:

غزہ کے سائے میں دنیا: امن معاہدوں سے آگے کی حقیقت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-03-7

 

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

امن معاہدوں اور عالمی سفارتی کوششوں کے باوجود، مشرقِ وسطیٰ کی فضا اب بھی بارود کے بادلوں سے اٹی ہوئی ہے۔ غزہ میں انسانی المیہ شدت اختیار کر چکا ہے، خان یونس اور رفح کے اطراف مذاکرات، لاشوں کے تبادلے اور ہتھیار ڈالنے کی خبریں ایک نئے دور کے آغاز یا انجام کا عندیہ دے رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ واقعی امن کا پیش خیمہ ہے یا ایک نئے تصادم کی تمہید؟ اس تنازعے کی تازہ لہر میں جہاں آبدیدہ مناظر اور زخم ِ انسانی روزِ روشن کی مانند واضح ہو رہے ہیں، وہیں عالمی جغرافیائی سیاست کے نئے متوازی انعکاسات بھی نمودار ہو رہے ہیں۔ غزّہ کی زمینی حقیقت، بین الاقوامی ہنگامی امداد کی روانی، عسکری تصفیہ کے امکانات اور علاقے میں سفارتی حرکاتِ قلب یہ تمام عوامل ایک ساتھ مل کر نہ صرف مقامی بحران کو طول دے رہے ہیں بلکہ خطّے کے مستقبل کے متعلق سوالات کو بھی گہرا کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے انسانی پہلو پر نگاہ ڈالیں۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹوں کے مطابق یکم اکتوبر کے بعد سے غزّہ میں امدادی قوافل کی منظوری میں رکاوٹیں واضح ہو چکی ہیں صرف ایک عرصے میں ایک سو سے زائد امدادی درخواستیں مسترد کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں بنیادی ادویہ، خوراک اور طبی سامان کی شدید کمی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک صاف اشارہ ہیں کہ جنگی کارروائیوں کے علاوہ رسدی اور لوجسٹک رکاوٹیں بھی انسانی المیے کو گہرا کر رہی ہیں۔ دوسری جانب عسکری میدان میں صورتحال پیچیدہ مگر فیصلہ کن ہے۔ خان یونس اور رفح کے اطراف میں پھنسے ہوئے حماس کے جوانوں کے بارے میں محورِ ثالثت مصر، قطر اور بعض بین الاقوامی طرافوں کی تجویز کردہ ڈیل نے ایک عملی سوال کھڑا کیا ہے: کیا عسکریت پسندوں کی منظم طور پر ہتھیار ڈال کر محفوظ راستے کے ذریعے نکلنے کی طوالت خطے میں پائیدار امن کی شروعات بن سکتی ہے، یا یہ محض وقتی حل ہے جو مستقبل کے شعورِ جنگ کو کمزور کر دے گا؟ صحافی اور سفارتی رپورٹوں کے مطابق مذاکرات میں اس امر کا امکان زیر ِ غور ہے کہ کچھ سو جنگجو ہتھیار ڈال کر دوسرے حصّوں میں منتقل کیے جائیں، البتہ یہ عمل نہایت حساس اور سیاسی دباؤ سے گِھرا ہوا ہے۔ اس پر ایک اخلاقی اور عملی الجھن بھی ہے۔ جب جنگجوؤں کی حوالگی یا جسمانی لاشوں کی تبادلے کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں تو یہ انسانی وجدان کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ القسام بریگیڈز کی طرف سے قیدی کی لاش کی حوالگی کا اعلان ایک ایسے سانحے کی یاد دہانی ہے جہاں جنگ، قیدیوں کی تقدیر اور بین الاقوامی قواعد ِ جنگ کا سوال ایک ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے ان معاملات کا حل محض عسکری نہیں، بلکہ انسانی اور قانونی فریم ورک سے بھی جڑا ہوا ہے۔

فلسطینی مغربی کنارے میں آبادکاروں کے حملوں اور زیتون کے باغات کو نقصان پہنچانے کے واقعات ایک طویل المدتی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ زمین، زراعت اور روزگار پر قبضے کے عمل سے مقامی معاشی ڈھانچے تباہ ہو رہے ہیں، جو بالآخر سماجی تناؤ اور اشتعال کو جنم دیتا ہے۔ زیتون کے درخت صرف زرعی اثاثہ نہیں؛ وہ ثقافتی اور تاریخی شناخت کا حصہ ہیں۔ ان درختوں کی کٹائی یا آگ لگانا محض ایک کرائم نہیں بلکہ ایک قوم کی جڑوں کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور اس کا طویل مدتی اثر خوراک کی خود کفالت، اقتصادی بقا اور دیہی سماجی بندھنوں پر پڑے گا۔ عالمی سفارت کاری کا ایک نیا موڑ بھی اسی دوران دیکھنے میں آیا ہے: قازقستان کا ’ابراہیمی معاہدات‘ میں شمولیت کا فیصلہ نہ صرف خطّے میں اسرائیل کے لیے سفارتی حمایت کی علامت ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے گرد موجود روایتی اتحاد اور مخالفت کی لکیریں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں بین الاقوامی سیاست میں ایک نئی حقیقت جو بعض ریاستوں کو بطور توازن یا مفاداتی تعلقات کی تشکیل میں مواقع فراہم کرتی ہے کے طور پر سامنے آ رہی ہیں، مگر اسی کے ساتھ یہ فلسطینی مسئلے کے حوالے سے عالمی تقسیم کو بھی پیچیدہ بناتی ہیں۔

ان تمام منظرناموں کے تناظر میں چند نکتے واضح طور پر ابھرتے ہیں۔ اولاً، انسانی امداد کے روٹس اور شفافیت پر مشتمل بین الاقوامی معاہدات کو فوراً قابل ِ عمل بنایا جائے اقوامِ متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں کو ایسا طریقۂ کار ملنا چاہیے جو سیاسی دباؤ کے بغیر فوری امداد پہنچا سکے۔ ثانیاً، عسکری حل اگرچہ وقتی مقاصد پورے کر سکتے ہیں مگر طویل المدت امن تبھی ممکن ہے جب سیاسی شمولیت، انصاف اور خصوصاً مقامی سماجی و اقتصادی بحالی کو مرکز ِ توجہ بنایا جائے۔ ثالثاً، خطّے میں سفارتی نقل و حرکت، جیسا کہ نئے معاہدات یا قوموں کی شمولیت، مسائل کا حل بھی لا سکتی ہے اور انہیں قومی تشخص اور مقامی مطالبات سے علٰیحدہ بھی کر سکتی ہے اس لیے بین الاقوامی برادری کو توازن اور شفافیت کے ساتھ اپنی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔ آئندہ کے امکانات پر نظر دوڑائیں تو ایک حقیقت واضح ہے: اگر امداد کا سلسلہ بحال نہ ہوا، اور اگر زیتون کے باغات، زرعی زمینیں اور شہری بنیادی ڈھانچے کی تباہی جاری رہی تو انسانی بحران مزید سنگین ہوگا خوراک، صحت اور پناہ گاہ کے مسائل طویل عرصے تک خطّے کو عدم استحکام کے دائرے میں بند رکھیں گے۔ دوسری طرف اگر مذاکرات کے ذرائع کو مضبوط، شفاف اور بین الاقوامی مانیٹرنگ کے تحت لایا جائے تو محدود مگر ضروری وقفے اور قیدیوں کے تبادلوں کے ذریعے عارضی ریلیف ممکن ہوسکتا ہے، جو بعد ازاں سیاسی عمل کی راہ ہموار کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک فوجی یا سفارتی مسئلہ نہیں؛ یہ ایک جامع انسانیت، انصاف اور بین الاقوامی ضابطوں کا امتحان ہے۔ جب تک امدادی رسائی کے دروازے کھلے نہیں ہوں گے، اور جب تک مقامی آبادی کی معاشی و سماجی بحالی کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی موجود نہیں ہوگی، خطّہ دیرپا امن کی جانب نہیں بڑھ سکے گا۔ عالمی طاقتیں، علاقائی کھلاڑی اور اقوامِ متحدہ سب کو ایک مشترکہ روئے کار کے تحت انسانی زندگی کی بقا اور قانونی اصولوں کی پاسداری کو مقدم رکھنا ہوگا؛ ورنہ ماضی کے گھاؤ بارہا اسی نسل کے کالبد پر سرایت کرتے رہیں گے۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • لاپتہ افراد کی بازیابی کیس میں حکومت و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نوٹس جاری
  • نیویارک میں پاکستانی بزنس مین کا شوکت خانم کو ایک کروڑ روپے عطیہ کرنے کا اعلان، شعیب اختر اور ریما حیران رہ گئے
  • اسرائیل کا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھارت سے ہتھیاروں کا معاہدہ
  • ایشیا کپ،بھارت کی اکڑ نکل گئی، ٹرافی کیلئے منتیں کرنے لگا
  • غزہ کے سائے میں دنیا: امن معاہدوں سے آگے کی حقیقت
  • بھارت کی اکڑ نکل گئی، ایشیا کپ ٹرافی کیلیے منتیں کرنے لگا
  • بھارت کی اکڑ نکل گئی، ایشیا کپ ٹرافی کیلئے منتیں کرنے لگا
  • جعلسازی سے پاکستانی شہریت حاصل کرنے کی کوشش، افغان شہری سمیت 4 ملزمان گرفتار
  • شدید خشک سالی: رواں سال بارش نہ ہوئی تو تہران کو خالی کرانا پڑسکتا ہے، صدر مسعود پزشکیان
  • ایشیاکپ ٹرافی کا معاملہ: پاکستان اور بھارت میں برف پگھلنے لگی، اہم شخصیات کی ملاقات ہوگئی،بی سی سی آئی کی تصدیق