ویب ڈیسک: خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ اور خیبر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق باجوڑ میں شدت پسندوں کے ساتھ ہونے والا جرگہ ناکام ہوگیا، قبائلی عمائدین کے جرگے نے فتنہ الخوارج سے علاقہ چھوڑنے سمیت 3 مطالبات کیے تھے مگر فتنہ الخوارج نے علاقہ چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ باجوڑ کی تحصیل ماموند کے دوعلاقوں میں تقریبا 300 دہشت گرد موجود ہیں، تحصیل ماموند کی آبادی 3 لاکھ سے زیادہ ہے، 40 ہزار سے زیادہ افراد اپنے علاقے چھوڑ چکے ہیں۔

 وفاقی حکومت کا14اگست کوعام تعطیل کااعلان

سرکاری ذرائع کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ خیبر میں بھی 350 سے زیادہ دہشت گرد موجود ہیں، خیبراور باجوڑ میں موجود دہشت گردوں میں سے 80 فیصد سے زیادہ افغانی ہیں۔

دوسری طرف کمشنر مالاکنڈ عابد وزیر نے کہا ہے کہ متاثرین کے لیے رہائش کا انتظام کرلیا گیا ہے، خار میں 107 سرکاری عمارتوں میں لوگوں کو ٹھہرانے کے نتظامات کرلیے ہیں، خار کے سپورٹس کمپلیکس میں خیمہ بستی بھی قائم کی جائے گی۔

کمشنر مالا کنڈ نے یہ بھی کہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
 

بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کا امکان، الرٹ جاری

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: سے زیادہ

پڑھیں:

خیبر پختونخوا حکومت کا وفاقی پالیسی پر اعتراض، افغانستان سے بات چیت ناگزیر قرار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور: خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر سیف نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ناکام اور غلط پالیسیوں کے باعث خیبر پختونخوا میں آئے روز جنازے اٹھ رہے ہیں، دہشت گردی کی اس لہر میں معصوم شہریوں، بچوں اور خواتین کی زندگیاں ضائع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اس صورتحال پر وفاقی حکومت کی سردمہری کو افسوسناک اور قابل مذمت قرار دیا۔

مشیر اطلاعات نے واضح کیا کہ دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے کے خاتمے کے لیے افغانستان سے بات چیت ناگزیر ہے لیکن وفاق نہ تو خود یہ اقدام کر رہا ہے اور نہ صوبائی حکومت کو اجازت دے رہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ  وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور امن و امان کے قیام کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں قبائلی جرگوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔

بیرسٹر سیف نے الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت نے افغانستان وفد بھیجنے کے لیے ٹی او آرز پر بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور دہشت گردی جیسے حساس مسئلے پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی مخلصانہ کوششوں کا ساتھ دے تاکہ امن قائم ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاق نے سنجیدگی نہ دکھائی تو انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ جاری رہے گا اور دہشت گردی کے خاتمے کے امکانات مزید کمزور ہو جائیں گے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کی ضرورت ہے ‘ وزیراعلیٰ بلوچستان
  • چاغی میں دہشت گرد جہانزیب نے ہتھیار ڈال دیے، دیگر ساتھی آپریشن میں مارے گئے، سرفراز بگٹی
  • دہشت گرد غیر ملکی ایجنٹ, دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کی ضرورت ہے،بلوچستان حکومت
  • دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کی ضرورت ہے ریاست کی رٹ چیلنج نہیں ہونے دیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • آخر کوٹ کی آستینوں میں یہ اضافی بٹن کیوں موجود ہوتے ہیں؟
  • خیبر پختونخوا حکومت کا وفاقی پالیسی پر اعتراض، افغانستان سے بات چیت ناگزیر قرار
  • اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف شکایات، سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ
  • سیکیورٹی فورسز کی ڈیرہ اسماعیل خان میں کارروائی، 13 دہشتگرد ہلاک
  • سکیورٹی فورسز کا ڈی آئی خان میں بڑا آپریشن، 13 دہشتگرد ہلاک
  • بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشتگردوں کو آج بھی افغانستان کی سرپرستی حاصل ہے: سرفراز بگٹی