جیلی فِش کے جھُنڈ نے فرانس کا سب سے بڑا جوہری پاور پلانٹ بند کروا دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پیرس(انٹرنیشنل ڈیسک) فرانس میں ایک حیران کن اور غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب جیلی فِش کے ایک بڑے جھُنڈ نے ملک کے سب سے بڑے جوہری بجلی گھروں میں سے ایک کو اچانک بند کروا دیا۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق شمالی ساحل پر واقع گراوی لینز نیوکلیئر پاور پلانٹ اُس وقت مکمل طور پر آف لائن ہوگیا جب جیلی فِش نے ری ایکٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے دریا سے پانی کھینچنے والے نظام کو جام کر دیا۔
پلانٹ کے آپریٹر EDF کے مطابق اتوار کی رات کو تین ری ایکٹرز خودکار نظام کے تحت بند ہوگئے کیونکہ پمپنگ اسٹیشن کے فلٹرز جیلی فِش سے بھر گئے تھے۔ کچھ دیر بعد چوتھا ری ایکٹر بھی رک گیا، اور یوں پورا پلانٹ بند ہو گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ باقی دو ری ایکٹرز پہلے ہی مرمت کی وجہ سے بند تھے۔ یہ پاور پلانٹ تقریباً 50 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ EDF نے وضاحت کی کہ اس واقعے سے نہ تنصیبات کو کوئی نقصان ہوا، نہ ہی عملے یا ماحول کو خطرہ لاحق ہوا۔ حتیٰ کہ فرانس سے برطانیہ کو بجلی کی فراہمی پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جیلی فِش نے اس نوعیت کا مسئلہ پیدا کیا ہو۔ 2021 میں اسکاٹ لینڈ کا ٹورنیس نیوکلیئر پلانٹ بھی ایک ہفتے کے لیے بند ہوا تھا جب جیلی فِش نے پانی کے انٹیک پائپ کے فلٹرز کو بلاک کر دیا تھا، اور 2011 میں بھی اسی پلانٹ کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنا پڑا تھا۔
ایسے واقعات سویڈن، امریکہ، جاپان اور فلپائن میں بھی دیکھنے میں آ چکے ہیں، جہاں جیلی فِش کے جھُنڈ جوہری یا کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کی ٹھنڈک کے نظام کو متاثر کر کے انہیں بند کروا دیتے ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جیلی ف ش
پڑھیں:
پاور سیکٹر کے گردشی قرض کا حجم وفاقی ترقیاتی بجٹ سے بھی 66 فیصد زیادہ
---فائل فوٹوپاکستان کے پاور سیکٹر کے گردشی قرض کا موجودہ حجم ملک کے وفاقی ترقیاتی بجٹ سے بھی 66 فیصد زیادہ ہے۔
پاور سیکٹر کا گردشی قرض جولائی 2025ء تک 1661 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔
پاور سیکٹر کا گردشی قرض تب جنم لیتا ہے جب بجلی چوری، وصولیوں میں ناکامی اور لائن لاسز میں اضافے کے باعث فروخت کی گئی بجلی کی پوری قیمت وصول نہیں ہوتی۔
جب بجلی تقسیم کار کمپنیاں خریدی گئی بجلی کی پوری قیمت ادا نہیں کرتیں تو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو مکمل ادائیگیاں نہیں کر پاتی اور پیداواری کمپنیاں فیول کی ادائیگیاں کرنے میں مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
بجلی کی پیداوار سے لے کر تقسیم اور فیول سپلائی تک پورا نظام مالی عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔
بجلی پیداواری کمپنیوں کو ادائیگیوں کے لیے حکومت کو بینکوں سے سود پر قرض لینا پڑتا ہے اور یہ بوجھ صارفین کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں اور بجلی کے ہر یونٹ کے عوض 3 روپے 23 پیسے سرچارج کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔
وزارتِ خزانہ نے 1225 ارب روپے کے پاور سیکٹر سرکلر ڈیٹ کے حل کا خیر مقدم کیا ہے۔
گردشی قرض بڑھنے کی دیگر وجوہات میں ماضی میں آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے مہنگے معاہدے، حکومت کی طرف سے سبسڈی کا بروقت جاری نہ کیا جانا بھی شامل ہے۔
موجودہ حکومت نے آئی پی پیز سے مذاکرات کیے تو پاور سیکٹر کے گردشی قرض میں کمی آنا شروع ہوگئی، گردشی قرض 2400 ارب روپے سے کم ہو کر 1661 ارب روپے تک آچکا ہے جسے اب حکومت بینکوں کے ساتھ 1225 ارب روپے کے قرض معاہدوں کے بعد آئندہ 6 سال میں صفر پر لانا چاہتی ہے تاہم اس عرصے میں بجلی صارفین پر 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ کا بوجھ برقرار رہے گا۔