ٹرمپ پیوٹن کی متوقع ملاقات اور غزہ پر قبضے کا مذموم اسرائیلی منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: شاید پیوٹن نے صرف ملاقات کے لیے رضامندی اسی لیے ظاہر کی ہو تاکہ ٹرمپ کو اپنی چھوٹی سی فتح کا دعویٰ کرنے اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا موقع مل سکے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی فوجی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے مزید وقت مل سکے جوکہ ان کے خیال میں اچھی جارہی ہے۔ لامحلہ دنیا کی توجہ غزہ کی جبری فاقہ کشی سے اب الاسکا کے سربراہی ملاقات پر مبذول ہوجائے گی اور توجہ میں اس تبدیلی سے اسرائیل کو موقع میسر ہوگا کہ وہ شمالی غزہ سے قبضے کا آغاز کرے اور پھر پوری پٹی پر قبضہ کرلے کیونکہ اسی طرح وہ نسل کشی کرتے ہوئے غزہ کا الحاق کرسکتا ہے جوکہ ایجنڈے کا ایسا حصہ ہے جس پر زیادہ بات نہیں کی جارہی۔ تحریر: عباس ناصر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جمعے کو الاسکا میں اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کا اعلان یوکرین پر ممکنہ امن معاہدے کی نوید ہوسکتا ہے لیکن ساتھ ہی کچھ لوگ ان خدشات کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ دنیا کے اس ملاقات پر توجہ مبذول کرنے سے اسرائیل موقع کو غنیمت جان کر غزہ پر فوجی قبضے کا آغاز کرسکتا ہے۔ ٹرمپ کے روسی صدر سے ملاقات کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیل کی سلامتی کابینہ نے جنگی جرائم کے مجرم وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ نیتن یاہو کے منتخب کردہ فوجی سربراہ نے پہلے تو تحفظات کا اظہار کیا لیکن پھر وہ بھی اس منصوبے پر رضامند ہوگئے۔
فوجی سربراہ نے پہلے تو بیان دیا تھا فوجی آپریشن کو وسعت دینے سے بقیہ 20 یرغمالیوں کی جانیں داؤ پر لگ سکتی ہیں جوکہ 7 اکتوبر 2023ء سے حماس کی تحویل میں ہیں۔ حماس نے غزہ کے گرد رکاوٹیں اور دیواریں توڑ کر اس دن اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں ایک ہزار 200 اسرائیلی ہلاک ہوئے جن میں 400 شہری بھی شامل تھے۔ ٹائمز آف اسرائیل نے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اییال زمیر کی سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس سے قبل اپنے سینئر ساتھیوں کو پیش کردہ بیان کا حوالہ دیا۔
عبرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے انتباہ دیا کہ غزہ کی پٹی پر قبضے کی کوشش اسرائیل کو بلیک ہول میں دھکیل دے گی جہاں اسے 20 لاکھ فلسطینیوں کی ذمہ داری لینا ہوگی جبکہ اس کے لیے سالوں تک کلیئرنگ آپریشن کرنا ہوگا جس سے سپاہی گوریلا جنگ کی زد میں آسکتے ہیں اور یرغمالیوں کی جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ہم تھیوری پر بات نہیں کررہے بلکہ ہم زندگی اور موت کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اور ہم اپنے فوجیوں اور ملک کے شہریوں کی آنکھوں میں براہِ راست دیکھتے ہوئے ایسا کرتے ہیں، جمعرات کو ایک فوجی جائزے میں جنرل اییال زمیر اپنے بیان پر قائم رہے۔ پھر جبری استعفیٰ کی دھمکی پر انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے کی تعمیل کریں گے۔
یہ واضح ہے کہ اسرائیل نے امریکا کی پشت پناہی سے قاتلانہ غزہ ہیومینیٹرئن فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کی مدد سے مہینوں سے غزہ میں فاقہ کشی کی جو پالیسی اختیار کی ہے جس میں اب تک امداد کی قطار میں کھڑے سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے، غزہ کے باسیوں کی آہنی ہمت کو توڑ نہیں پائی ہے۔ درحقیقت آئی ڈی ایف اور جی ایچ ایف کے ٹھیکیداروں کی جانب سے شہید کیے جانے والے بھوک سے پریشان حال انسانوں کی تصاویر نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا ہے، یہاں تک کہ دوہرے معیار رکھنے والی یورپی یونین اور برطانیہ بھی اس کے خلاف لب کشائی کررہے ہیں جبکہ فرانس کی قیادت میں چند یورپی ممالک کہہ رہے ہیں کہ دو ریاستی حل کی جانب پہلے قدم کے طور پر اگلے ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔
غزہ کے کچھ حصوں یا اس پر مکمل قبضے کے نیتن یاہو کا منصوبہ مغربی کنارے کی صورت حال کی منظرکشی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کیے جانے سے پہلے یہ کام کررہے ہیں تاکہ ایسی ریاست کے قیام یا اس کے وجود سے انکار کیا جاسکے۔ نفسیاتی مسائل کا شکار اسرائیلی رہنما کو امریکا کی منظوری موصول ہوئی ہے جس میں ٹرمپ نے کہا، یہ کافی حد تک اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی میڈیا پر وائٹ ہاؤس سے چند مضحکہ خیز لیک رپورٹس آرہی ہیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی بری طرح سرزش کی کہ جب نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ بھوک کا شکار نہیں ہے اور دعویٰ کیا کہ ایسی خبریں صرف حماس کا پروپیگنڈہ ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اپنا غزہ رویرا منصوبے کا ذکر کیا تھا جس کے تحت غزہ کے 20 لاکھ فلسطینی ایک بار پھر(جبری) نقل مکانی کریں گے جن کی گزشتہ نسل 1948ء میں نکبہ کی وجہ سے بےگھر ہوکر غزہ میں منتقل ہوئی تھی؟
اس پس منظر میں ٹرمپ پیوٹن ملاقات انتہائی اہم ہوگی۔ یہ امکان کم ہے کہ ٹرمپ کے صدارتی ایلچی اسٹیو ویٹکوف (جو ہیں تو صدارتی ایلچی لیکن اکثر غزہ پر اسرائیل کے ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں) کے ایک روزہ دورہ ماسکو کے بعد پیوٹن اہم امور پر اپنا مؤقف تبدیل کریں گے۔ ولادیمیر پیوٹن پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ مشرقی یوکرین میں کسی طرح کی کوئی علاقائی رعایت نہیں دیں گے جہاں ان کی افواج نے آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر فائدہ حاصل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا باضابطہ طور پر تسلیم کرے کہ روس نے 2014ء میں کریمیا اور 2022ء میں ڈونیٹسک، لوہانسک، کھیرسن اور زاپوریزہیا کے علاقوں سے الحاق کیا تھا۔
انہوں نے اس ضمانت کا مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو کی افواج کو یوکرین تک وسعت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس سے نیٹو روس کے بہت قریب آجائے گا۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے یوکرین نے روس اور نیٹو کے درمیان بفر زون کی طرح کام کیا ہے، اور پیوٹن اسے کھونا نہیں چاہتے۔ ماضی میں ٹرمپ یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ امن معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان میں سے کچھ علاقوں کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل کرنا ہوگا (جو روس نہیں کرے گا)۔ دونوں ممالک کے صدور کی ملاقات سے قبل یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حکومت یا نیٹو کے یورپی ممالک اس طرح کی کوئی رعایت کرنے کے لیے آمادہ ہیں یا نہیں۔
کچھ معاملات میں پیچھے ہٹے بغیر امن معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ شاید پیوٹن نے صرف ملاقات کے لیے رضامندی اسی لیے ظاہر کی ہو تاکہ ٹرمپ کو اپنی چھوٹی سی فتح کا دعویٰ کرنے اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا موقع مل سکے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی فوجی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے مزید وقت مل سکے جوکہ ان کے خیال میں اچھی جارہی ہے۔ لامحلہ دنیا کی توجہ غزہ کی جبری فاقہ کشی سے اب الاسکا کے سربراہی ملاقات پر مبذول ہوجائے گی اور توجہ میں اس تبدیلی سے اسرائیل کو موقع میسر ہوگا کہ وہ شمالی غزہ سے قبضے کا آغاز کرے اور پھر پوری پٹی پر قبضہ کرلے کیونکہ اسی طرح وہ نسل کشی کرتے ہوئے غزہ کا الحاق کرسکتا ہے جوکہ ایجنڈے کا ایسا حصہ ہے جس پر زیادہ بات نہیں کی جارہی۔
یہ سب مغربی جمہوریتوں کی ملی بھگت سے ہورہا ہے حالانکہ ان کے شہریوں کی بڑی تعداد بھوک سے نڈھال اور غذائیت کی قلت کا شکار کمزور بچوں کی تصاویر سے کافی حد تک تشویش میں مبتلا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ کسی طور پر یہ تصاویر زیادہ طاقتور ہیں یا 15 ہزار 500 بچوں کے قتل اور ہزاروں مفلوج بچوں کی تصاویر سے زیادہ مغربی میڈیا پر اثر رکھتی ہیں۔ عرب ہمسایوں اور پوری مسلم دنیا کی بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا بہتر ہے جن میں سے زیادہ تر غاصب حکمران امریکا کے خلاف جانے کے نتائج سے خوفزدہ ہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ نسل کشی میں شریک ہیں یا اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آج ہم مکمل بے بسی اور مایوسی کی حالات میں کھڑے ہیں۔
اصلی تحریر:
https://www.
dawn.com/news/1929883/alaska-summit-boon-for-bibi
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نیتن یاہو کے ساتھ کی توجہ کریں گے کہ ٹرمپ قبضے کا ہیں کہ کے لیے غزہ کے مل سکے
پڑھیں:
اسرائیل کا غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ انتہائی خطرناک اور اشتعال انگیز ہے، پاکستان
اسرائیل کا غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ انتہائی خطرناک اور اشتعال انگیز ہے، پاکستان WhatsAppFacebookTwitter 0 11 August, 2025 سب نیوز
اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ اسرائیل کا غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ انتہائی خطرناک اور اشتعال انگیز ہے، جو ممالک اسرائیل کو سیاسی تحفظ، فوجی امداد یا سفارتی ڈھال فراہم کر کے جواب دہی سے بچا رہے ہیں وہ شریکِ جرم ہیں اور انہیں اس کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔
سلامتی کونسل اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ غزہ پر قبضے کا منصوبہ دو ریاستی حل پر حملے کے مترادف ہے، فلسطینیوں کے مستقبل کا فیصلہ فلسطینیوں نے ہی کرنا ہے، کوئی فلسطینیوں کے مستقبل اور گورننس سے متعلق فیصلے نہیں کرسکتا۔
رپورٹ کے مطابق اتوار کو پاکستان نے اسرائیل کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض فلسطینیوں کو بچانے کے لیے قابل عمل اقدامات کرے، جن میں ایک بین الاقوامی حفاظتی فورس کی تعیناتی بھی شامل ہو، تاکہ اس محصور اور تباہ حال علاقے میں اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کو باقی مقبوضہ فلسطینی علاقے سے الگ کرنے کی کسی بھی کوشش کا مطلب دو ریاستی تصور کی بنیاد پر براہِ راست حملہ ہے۔
یہ اجلاس اسرائیلی حکومت کی اس منظوری کے تناظر میں بلایا گیا تھا جس کے تحت جنگ کو بڑھا کر غزہ سٹی پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’غزہ ریاستِ فلسطین کا لازمی اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہے‘۔ سفیر نے مزید کہا کہ ’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انصاف کو روکا نہیں جا سکتا، فلسطینی عوام کی مزاحمت اور ان کے حقوق کے لیے عالمی حمایت بالآخر ظلم پر غالب آئے گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ حکمرانی اور مستقبل کے فیصلے صرف فلسطینیوں کا حق ہیں، کوئی اور ان کے لیے فیصلہ نہیں کر سکتا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں کہا گیا تھا کہ ’اس جاری سانحے کی جڑ اسرائیل کا طویل اور غیر قانونی قبضہ ہے‘، پاکستانی مندوب نے کہا کہ ’اس کونسل کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کے تحت فوری طور پر اسرائیل سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ غزہ سٹی پر قبضے کے اپنے منصوبے سے باز رہے‘۔
انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اقدام فلسطینی وجود کو مٹانے، امن کے امکانات کو ختم کرنے اور تنازع کے پرامن حل کے لیے تمام علاقائی و عالمی کوششوں کو ناکام بنانے کے مترادف ہے، جو کہ ایک منظم نسلی صفائی کی مہم کی انتہا ہے۔
ان کے مطابق اسرائیلی منصوبہ مشرق وسطیٰ سے متعلق تمام سلامتی کونسل قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، جو 10 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر جبری بے دخلی کا باعث بن سکتا ہے، اور چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ منصوبہ ایک واضح تسلسل کی پیروی کرتا ہے، مسلسل بمباری، ہزاروں افراد کو قتل و زخمی کرنا، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، انسانی امدادی نظام کا خاتمہ، جبری بھوک اور بے دخلی اور آخر میں سیکیورٹی کے بہانے قبضہ۔
سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ جو ممالک اسرائیل کو سیاسی تحفظ، فوجی امداد یا سفارتی ڈھال فراہم کر کے جواب دہی سے بچا رہے ہیں وہ شریکِ جرم ہیں اور انہیں اس کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے، انہوں نے اسرائیل کے حامیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں کیونکہ تاریخ انہیں سختی سے پرکھے گی۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ، بے دخلی اور جارحیت کا مکمل خاتمہ، بڑے پیمانے پر اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور مقبوضہ مغربی کنارے کے مقدس مقامات کی قانونی و تاریخی حیثیت کا تحفظ یقینی بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کو تیار رہنا چاہیے کہ اگر اسرائیل کونسل کے مطالبات اور عالمی برادری کی مرضی کو مسترد کرتا ہے تو اس پر قیمت عائد کرے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ خون میں نہا رہا ہے، جہاں بین الاقوامی قوانین، انسانی قوانین، کونسل کی قراردادوں اور عالمی عدالت انصاف کے حکم ناموں کی منظم اور دانستہ خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی مندوب نے فلسطینی عوام کے جائز حقوق، بشمول حقِ خودارادیت اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر قائم آزاد، قابلِ عمل اور متصل ریاستِ فلسطین، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، کے لیے مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ کونسل محض بیانات سے آگے بڑھے، جارحیت ختم کرے، شہریوں کا تحفظ کرے، انصاف بحال کرے اور جواب دہی کو یقینی بنائے‘۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرلاہور ہائیکورٹ کا سرنڈر کیے بغیر زرتاج گل کی درخواست پر سماعت سے انکار، پیشی کا حکم لاہور ہائیکورٹ کا سرنڈر کیے بغیر زرتاج گل کی درخواست پر سماعت سے انکار، پیشی کا حکم ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کو یو اے ای میں سفیر لگانے کی منظوری پی ٹی آئی کے کارکنوں پر 14 اگست کو دھرنے کی منصوبہ بندی کا مقدمہ درج نو مئی سیاسی نہیں جرائم کے مقدمات ہیں، یہ واقعات کہیں اور ہوتے تو نتائج سنگین ہوتے، عرفان صدیقی اسلام آباد پٹوار خانوں میں بھرتیوں کا کیس، ڈپٹی کمشنر نے وقت مانگ لیا عمران خان کے طبی معائنہ کیلئے علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوعCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم