2 سو سال کی جنگوں سے زیادہ صحافی غزہ میں مارے گئے، جیکسن ہنکل
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
روسی نشریاتی ادارے رشیا ٹوڈے کے پروگرام ’سانچیز ایفیکٹ‘ کے حالیہ پروگرام میں سیاسی مبصر جیکسن ہنکل نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں پیش آنے والے ہولناک واقعات نے امریکی عوامی رائے عامہ کو اسرائیل کے حق میں قائم موقف سے دور کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:الجزیرہ کے معروف صحافی انس الشریف 5 ساتھیوں سمیت اسرائیلی حملے میں شہید
جیکسن ہنکل کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں اتنے صحافی مارے گئے ہیں جتنے پچھلے 2 سو سال کی تمام جنگوں میں بھی نہیں مارے گئے۔ انہوں نے ان عالمی رہنماؤں کی کھلی منافقت کی بھی نشاندہی کی جو بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو تیل اوراسلحہ فراہم کرتے رہتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان رک سانچیزاورمہمان جیکسن ہنکل نے اس اہم موضوع پر بھی گفتگو کی جو اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے، صدر پیوٹن اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان متوقع مذاکرات۔ ان کے مطابق، امریکی قیادت کی ’دھمکی اور فریب‘ پر مبنی حکمتِ عملی روسیوں کو پسند نہیں آتی، اس لیے اس ملاقات سے زیادہ امید وابستہ نہیں کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:پریانکا گاندھی نے الجزیرہ کے 5 صحافیوں کا قتل اسرائیل کا سفاک جرم قرار دیدیا
رک سانچیز نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ امریکی سیاسی اشرافیہ بدستورعسکری و صنعتی لابی کے زیرِ اثر ہے، حکمران چہرے بدلتے رہتے ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں، جس سے یہ تاثر مزید مضبوط ہو رہا ہے کہ دراصل ’ڈیپ اسٹیٹ‘ ہی سب کچھ کنٹرول کررہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی عوامی رائے عامہ جیکسن ہنکل ڈیپ اسٹیٹ رشیاٹوڈے سانچیز ایفیکٹ سیاسی مبصر غزہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی عوامی رائے عامہ جیکسن ہنکل سیاسی مبصر جیکسن ہنکل
پڑھیں:
ٹرمپ پیوٹن کی متوقع ملاقات اور غزہ پر قبضے کا مذموم اسرائیلی منصوبہ
اسلام ٹائمز: شاید پیوٹن نے صرف ملاقات کے لیے رضامندی اسی لیے ظاہر کی ہو تاکہ ٹرمپ کو اپنی چھوٹی سی فتح کا دعویٰ کرنے اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا موقع مل سکے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی فوجی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے مزید وقت مل سکے جوکہ ان کے خیال میں اچھی جارہی ہے۔ لامحلہ دنیا کی توجہ غزہ کی جبری فاقہ کشی سے اب الاسکا کے سربراہی ملاقات پر مبذول ہوجائے گی اور توجہ میں اس تبدیلی سے اسرائیل کو موقع میسر ہوگا کہ وہ شمالی غزہ سے قبضے کا آغاز کرے اور پھر پوری پٹی پر قبضہ کرلے کیونکہ اسی طرح وہ نسل کشی کرتے ہوئے غزہ کا الحاق کرسکتا ہے جوکہ ایجنڈے کا ایسا حصہ ہے جس پر زیادہ بات نہیں کی جارہی۔ تحریر: عباس ناصر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جمعے کو الاسکا میں اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کا اعلان یوکرین پر ممکنہ امن معاہدے کی نوید ہوسکتا ہے لیکن ساتھ ہی کچھ لوگ ان خدشات کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ دنیا کے اس ملاقات پر توجہ مبذول کرنے سے اسرائیل موقع کو غنیمت جان کر غزہ پر فوجی قبضے کا آغاز کرسکتا ہے۔ ٹرمپ کے روسی صدر سے ملاقات کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیل کی سلامتی کابینہ نے جنگی جرائم کے مجرم وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ نیتن یاہو کے منتخب کردہ فوجی سربراہ نے پہلے تو تحفظات کا اظہار کیا لیکن پھر وہ بھی اس منصوبے پر رضامند ہوگئے۔
فوجی سربراہ نے پہلے تو بیان دیا تھا فوجی آپریشن کو وسعت دینے سے بقیہ 20 یرغمالیوں کی جانیں داؤ پر لگ سکتی ہیں جوکہ 7 اکتوبر 2023ء سے حماس کی تحویل میں ہیں۔ حماس نے غزہ کے گرد رکاوٹیں اور دیواریں توڑ کر اس دن اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں ایک ہزار 200 اسرائیلی ہلاک ہوئے جن میں 400 شہری بھی شامل تھے۔ ٹائمز آف اسرائیل نے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اییال زمیر کی سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس سے قبل اپنے سینئر ساتھیوں کو پیش کردہ بیان کا حوالہ دیا۔
عبرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے انتباہ دیا کہ غزہ کی پٹی پر قبضے کی کوشش اسرائیل کو بلیک ہول میں دھکیل دے گی جہاں اسے 20 لاکھ فلسطینیوں کی ذمہ داری لینا ہوگی جبکہ اس کے لیے سالوں تک کلیئرنگ آپریشن کرنا ہوگا جس سے سپاہی گوریلا جنگ کی زد میں آسکتے ہیں اور یرغمالیوں کی جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ہم تھیوری پر بات نہیں کررہے بلکہ ہم زندگی اور موت کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اور ہم اپنے فوجیوں اور ملک کے شہریوں کی آنکھوں میں براہِ راست دیکھتے ہوئے ایسا کرتے ہیں، جمعرات کو ایک فوجی جائزے میں جنرل اییال زمیر اپنے بیان پر قائم رہے۔ پھر جبری استعفیٰ کی دھمکی پر انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے کی تعمیل کریں گے۔
یہ واضح ہے کہ اسرائیل نے امریکا کی پشت پناہی سے قاتلانہ غزہ ہیومینیٹرئن فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کی مدد سے مہینوں سے غزہ میں فاقہ کشی کی جو پالیسی اختیار کی ہے جس میں اب تک امداد کی قطار میں کھڑے سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے، غزہ کے باسیوں کی آہنی ہمت کو توڑ نہیں پائی ہے۔ درحقیقت آئی ڈی ایف اور جی ایچ ایف کے ٹھیکیداروں کی جانب سے شہید کیے جانے والے بھوک سے پریشان حال انسانوں کی تصاویر نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا ہے، یہاں تک کہ دوہرے معیار رکھنے والی یورپی یونین اور برطانیہ بھی اس کے خلاف لب کشائی کررہے ہیں جبکہ فرانس کی قیادت میں چند یورپی ممالک کہہ رہے ہیں کہ دو ریاستی حل کی جانب پہلے قدم کے طور پر اگلے ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔
غزہ کے کچھ حصوں یا اس پر مکمل قبضے کے نیتن یاہو کا منصوبہ مغربی کنارے کی صورت حال کی منظرکشی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کیے جانے سے پہلے یہ کام کررہے ہیں تاکہ ایسی ریاست کے قیام یا اس کے وجود سے انکار کیا جاسکے۔ نفسیاتی مسائل کا شکار اسرائیلی رہنما کو امریکا کی منظوری موصول ہوئی ہے جس میں ٹرمپ نے کہا، یہ کافی حد تک اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی میڈیا پر وائٹ ہاؤس سے چند مضحکہ خیز لیک رپورٹس آرہی ہیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی بری طرح سرزش کی کہ جب نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ بھوک کا شکار نہیں ہے اور دعویٰ کیا کہ ایسی خبریں صرف حماس کا پروپیگنڈہ ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اپنا غزہ رویرا منصوبے کا ذکر کیا تھا جس کے تحت غزہ کے 20 لاکھ فلسطینی ایک بار پھر(جبری) نقل مکانی کریں گے جن کی گزشتہ نسل 1948ء میں نکبہ کی وجہ سے بےگھر ہوکر غزہ میں منتقل ہوئی تھی؟
اس پس منظر میں ٹرمپ پیوٹن ملاقات انتہائی اہم ہوگی۔ یہ امکان کم ہے کہ ٹرمپ کے صدارتی ایلچی اسٹیو ویٹکوف (جو ہیں تو صدارتی ایلچی لیکن اکثر غزہ پر اسرائیل کے ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں) کے ایک روزہ دورہ ماسکو کے بعد پیوٹن اہم امور پر اپنا مؤقف تبدیل کریں گے۔ ولادیمیر پیوٹن پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ مشرقی یوکرین میں کسی طرح کی کوئی علاقائی رعایت نہیں دیں گے جہاں ان کی افواج نے آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر فائدہ حاصل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا باضابطہ طور پر تسلیم کرے کہ روس نے 2014ء میں کریمیا اور 2022ء میں ڈونیٹسک، لوہانسک، کھیرسن اور زاپوریزہیا کے علاقوں سے الحاق کیا تھا۔
انہوں نے اس ضمانت کا مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو کی افواج کو یوکرین تک وسعت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس سے نیٹو روس کے بہت قریب آجائے گا۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے یوکرین نے روس اور نیٹو کے درمیان بفر زون کی طرح کام کیا ہے، اور پیوٹن اسے کھونا نہیں چاہتے۔ ماضی میں ٹرمپ یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ امن معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان میں سے کچھ علاقوں کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل کرنا ہوگا (جو روس نہیں کرے گا)۔ دونوں ممالک کے صدور کی ملاقات سے قبل یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حکومت یا نیٹو کے یورپی ممالک اس طرح کی کوئی رعایت کرنے کے لیے آمادہ ہیں یا نہیں۔
کچھ معاملات میں پیچھے ہٹے بغیر امن معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ شاید پیوٹن نے صرف ملاقات کے لیے رضامندی اسی لیے ظاہر کی ہو تاکہ ٹرمپ کو اپنی چھوٹی سی فتح کا دعویٰ کرنے اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا موقع مل سکے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی فوجی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے مزید وقت مل سکے جوکہ ان کے خیال میں اچھی جارہی ہے۔ لامحلہ دنیا کی توجہ غزہ کی جبری فاقہ کشی سے اب الاسکا کے سربراہی ملاقات پر مبذول ہوجائے گی اور توجہ میں اس تبدیلی سے اسرائیل کو موقع میسر ہوگا کہ وہ شمالی غزہ سے قبضے کا آغاز کرے اور پھر پوری پٹی پر قبضہ کرلے کیونکہ اسی طرح وہ نسل کشی کرتے ہوئے غزہ کا الحاق کرسکتا ہے جوکہ ایجنڈے کا ایسا حصہ ہے جس پر زیادہ بات نہیں کی جارہی۔
یہ سب مغربی جمہوریتوں کی ملی بھگت سے ہورہا ہے حالانکہ ان کے شہریوں کی بڑی تعداد بھوک سے نڈھال اور غذائیت کی قلت کا شکار کمزور بچوں کی تصاویر سے کافی حد تک تشویش میں مبتلا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ کسی طور پر یہ تصاویر زیادہ طاقتور ہیں یا 15 ہزار 500 بچوں کے قتل اور ہزاروں مفلوج بچوں کی تصاویر سے زیادہ مغربی میڈیا پر اثر رکھتی ہیں۔ عرب ہمسایوں اور پوری مسلم دنیا کی بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا بہتر ہے جن میں سے زیادہ تر غاصب حکمران امریکا کے خلاف جانے کے نتائج سے خوفزدہ ہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ نسل کشی میں شریک ہیں یا اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آج ہم مکمل بے بسی اور مایوسی کی حالات میں کھڑے ہیں۔
اصلی تحریر:
https://www.dawn.com/news/1929883/alaska-summit-boon-for-bibi