WE News:
2025-08-16@01:22:44 GMT

چھوٹا بچہ، سب سے اچھا

اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT

چھوٹا بچہ، سب سے اچھا

چھوٹا بچہ جان کے

نہ کوئی آنکھ دکھانا رے

ڈوبی ڈوبی ڈب ڈب

ڈوبی ڈوبی ڈب ڈب

ماضی کا یہ گیت اُس دور میں بچے بچے کی زبان پر تھا، ہمارا آج کا موضوع اس سے بہت زیادہ تو نہیں، کچھ کچھ ملتا جلتا ضرور ہے۔

اس گیت میں تو تھوڑی سی معصومانہ دھمکی نظر آتی ہے، مگر ہم جس بچے کا ذکر کر رہے ہیں، اس کے پاس تو شاید یہ چوائس ہی نہیں۔ جس گھر میں بچے ہوں تو وہاں ایک بچہ سب سے چھوٹا ضرور ہوتا ہے، چھوٹا بچہ ہونے کے کئی فائدے ہیں، جبکہ اس کے نقصانات بھی کم نہیں۔

شاید نقصانات مناسب لفظ نہ ہو، اس کی جگہ ہم لفظ ۔۔۔ ذمہ داریاں ۔۔۔ لکھ لیتے ہیں، چلیں پہلے ہم بات کرتے ہیں کہ گھر کے چھوٹے بچے کو کن روز مرہ ’چیلنجز‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سرد موسم، رات کا وقت، اچانک بیل بجے تو سب کی نظریں ایک ہی فرد کی جانب اٹھتی ہیں، جی آپ بالکل درست سمجھے اور وہ ہے گھر کا سب سے چھوٹا بچہ، اور چار ناچار  اسے ہی یہ ’معرکہ‘ سرانجام دینے کے لیے اٹھنا پڑتا ہے۔

شدید دھوپ ہو ، جھلساتی گرمی میں نکلنا محال، ایسے میں کسی ضروری چیز کی ضرورت پڑے تو  ایسی صورت میں بھی نگاہِ انتخاب گھر کے سب سے چھوٹے بچے پر ہی ٹھہرتی ہے۔

کسی بڑے کو پانی کی طلب محسوس ہو تو گھر کا چھوٹا بچہ ہی کام آتا ہے، فریج میں پانی کی بوتلیں رکھنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوتی ہے، موبائل، چشمہ یا پھر کوئی اور ضروری چیز چاہیے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، گھر کا چھوٹا بچہ ہے نا۔

یہ ہی نہیں، اگر گھر میں کوئی چھوٹی موٹی چیز اِدھر اُدھر  ہو جائے تو  الزام اسی معصوم پر آتا ہے، وہ لاکھ انکار کرے مگر شامت اسی کی آتی ہے۔

چھٹی کا دن ہو، کپڑے دھونے ہوں تو عموماً مدد کے لیے گھر کا چھوٹا بچہ ہی کام آتا ہے۔ دھلے دھلائے کپڑے تار پر ڈالنے ہوں تو  یہ بھی اسی کا کام سمجھا جاتا ہے۔ گھر کی کھڑکیاں یا پنکھے صاف کرنے ہوں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، ایک ہی فرد کام آ سکتا ہے، سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔

اگر کسی گھر میں باغیچہ ہو یا گملے رکھے ہوں تو انہیں پانی دینے کی اہم ذمہ داری بھی اکثر اسی اسپیشل شخصیت کے حصے میں آتی ہے۔

چھوٹا بچہ کئی اور معاملات میں بھی نقصان میں رہتا ہے، مگر اس میں ان کا عمل دخل بالکل نہیں ہے۔ وہ اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں کا لاڈلا تو ضرور ہوتا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق، عموماً پہلے بچے پر جتنی توجہ دی جاتی ہے اور ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں، اس کے بعد پیدا ہونے والے بچے اس توجہ سے عموماً محروم رہتے ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ بڑے بھائی یا بہن کا ذہن اپنے چھوٹے بھائی یا بہن سے تیز ہوتا ہے، عموماً بڑا بیٹا ہی خاندانی کمپنی کا سی ای او یا سیاستدان بنتا ہے۔

اکثر یوں بھی تو ہوتا ہے کہ اگر کوئی قریبی عزیز گھر میں کافی عرصے بعد آئے تو کسی اور کو پیسے ملیں یا نہ ملیں، گھر کے سب سے چھوٹے بچے کو عموماً کچھ نہ کچھ دیا جاتا ہے۔

اب چھوٹے بچے سے ہٹ کر تھوڑی بات کرتے ہیں، بچہ کوئی بھی ہو، گھر کی چھوٹی موٹی ذمہ داریاں تو سب ہی ادا کرتے ہیں، تحقیق کہتی ہے کہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے سے یہ بچے بڑے ہو کر کامیاب افراد ثابت ہوتے ہیں۔

ان میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان کی بھی اہمیت ہے۔ یہ ہی نہیں، ذمہ داری کے اس احساس سے ان کا رشتہ مستقبل میں بھی قائم رہتا ہے۔ ایسے افراد عموماً  اپنے دیگر ساتھیوں یا عزیز و اقارب کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ہمدری کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر کوئی مشکل آن پڑے تو نہ صرف وہ خود اس کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں، بلکہ دیگر افراد کی بھی مدد کرنے سے گھبراتے نہیں۔

ایک اور اہم بات، چھوٹا بچہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کی غلطیوں سے بھی سیکھتا ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو چیز بڑے بچے کو دیر سے ملتی ہے، چھوٹے بچے کو جلد مل جاتی ہے۔

چھوٹے بچے کے پاس کپڑے یا کھلونوں کی بھی کمی نہیں ہوتی، نئی چیزوں کے علاوہ اپنے بھائی بہنوں کی چیزوں کا مالک بھی یہ ہی ہوتا ہے، بڑے بچوں کے کپڑے چھوٹے ہو جائیں تو یہ خوشی خوشی انہیں لیتا ہے۔

ایک برطانوی سروے میں بتایا گیا تھا کہ سب سے چھوٹے بچے زیادہ خوش مزاج ہوتے ہیں، اپنے بڑے بہن بھائیوں سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں، دوسروں کی توجہ کیسے حاصل کرنی ہے، اس میں بھی یہ ماہر ہوتے ہیں

خوبصوت سوچ کے منفرد شاعر مرحوم منور رانا کا یہ اچھوتا شعر ہمارے بلاگ پر کیا خوب بیٹھتا ہے۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

جمیل الدین عالی صاحب بھی کیا خوب کہہ گئے

میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں

پر کام کروں گا بڑے بڑے

چھوٹے اور بڑے بچوں کی تو بہت بات ہو گئی، اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ  کئی گھروں میں اکلوتا بچہ ہوتا ہے، نہ تو اس کا کوئی چھوٹا بہن بھائی ہوتا ہے نہ ہی بڑا ۔ وہ ہی گھر کا شہزادہ ہوتا ہے۔ اسے اپنے والدین کی توجہ زندگی بھر ملتی ہے۔

ایک برطانوی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ اکلوتے بچے زیادہ خوش رہتے ہیں، انہیں نہ تو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ گھر میں کسی اور کے لیے کوئی چیز نہ آ جائے اور گھر کے پسندیدہ کمرے پر بھی ان کی ہی حکومت ہوتی ہے۔

بچہ چھوٹا ہو یا بڑا، رونق ان سے ہی ہوتی ہے۔ تھوڑا فرق ضرور ہو سکتا ہے، مگر پیار تو سب کو ہی ملتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنے گھر کے سب سے چھوٹے بچے ہیں تو پریشان نہ ہوں، تاریخ ایسی کئی کامیاب شخصیات  سے بھری ہوئی ہیں، جو اپنے  گھر کے سب سے چھوٹے بچے تھے۔

غم کیا ہوتے ہیں، بڑے عرصے بعد پتہ چلا

گھر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا میں

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سب سے چھوٹا ہوتا ہے کہ بہن بھائی ہوتے ہیں کرتے ہیں میں بھی ہوتی ہے گھر میں بچے کو ہوں تو کے لیے گھر کا

پڑھیں:

اریج فاطمہ نے اپنے نایاب کینسر کی علامات اور علاج کی تفصیلات بیان کردیں

سابقہ اداکارہ اریج فاطمہ نے پہلی بار اپنے نایاب کینسر کی علامات اور علاج کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے مداحوں کو بیماری کی بروقت تشخیص اور احتیاطی ٹیسٹ کی اہمیت سے آگاہ کیا۔

گزشتہ دنوں اریج فاطمہ نے ایک ویڈیو شیئر کی تھی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں کوریوکارسینوما نامی کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، یہ ایک نایاب قسم کا کینسر ہے جو مولر حمل کے بعد پیدا ہو سکتا ہے۔

حال ہی میں اریج فاطمہ نے ایک اور ویڈیو شیئر کی، جس میں بتایا کہ پہلی ویڈیو انہوں نے اس وقت بنائی تھی جب وہ کینسر سے تقریباً صحت یاب ہو چکی تھیں۔

ان کے مطابق ویڈیو کے بعد بہت سے لوگوں نے ان سے رابطہ کیا، نیک تمنائیں اور دعائیں دیں، جن میں شوبز سے وابستہ افراد، خاندان کے افراد، دوست اور مداح شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں، اس دوران کینسر کے حوالے سے انہیں بہت سے سوالات بھی موصول ہوئے، جن میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ تھا کہ وہ اپنے کینسر کی علامات اور علاج کے بارے میں بتائیں۔

اداکارہ کے مطابق مولر حمل حمل کی سب سے نایاب قسم ہے، جو دس ہزار میں سے ایک کیس میں ہوتا ہے، کوریوکارسینوما بھی بہت نایاب ہے، جو پچاس ہزار میں ایک کیس میں ہوتا ہے اور اسے ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اریج فاطمہ کا کہنا تھا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان میں اس کینسر کی بروقت تشخیص ہو گئی، ان کی علامات میں خون بہنا، ٹھوڑی پر دانے اور متلی شامل تھی، لیکن سب سے زیادہ مدد ان کی اندرونی حس نے کی، کیونکہ انہیں فطری طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ جسم میں کچھ غیر معمولی ہو رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی بھی شخص یہ محسوس کرے کہ اس کے جسم میں کچھ غیر متوقع ہو رہا ہے تو اسے لازماً اپنا چیک اپ کروانا چاہیے۔

انہوں نے چند ٹیسٹ کے نام بھی بتائے، جیسے سال میں ایک مرتبہ خون کے ٹیسٹ کروانا، خواتین کے لیے پیپ سمیئر ٹیسٹ لازمی قرار دیا اور 50 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو میموگرام کروانے کا مشورہ دیا، کیونکہ موجودہ دور میں بریسٹ کینسر تیزی سے عام ہو رہا ہے۔

علاج کے بارے میں اداکارہ نے بتایا کہ انہوں نے ہسٹریکٹومی کروائی، اس کے باوجود انہیں کیموتھراپی کے لیے بھیجا گیا، کیونکہ یہ ایک جارحانہ کینسر ہے جو جسم کے دیگر اعضا کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، جیسے جگر، گردے اور دماغ اور انسان تیزی سے موت کے قریب پہنچ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے چار مختلف اقسام کی کیموتھراپیز بھی کروائیں، جون کے آخر میں ان کا علاج مکمل ہوا، اس تمام عرصے کے دوران ان کی فیملی نے ان کا بہت خیال رکھا اور اب انہیں کینسر فری قرار دیا جا چکا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے ان کا خون ٹیسٹ ہر ہفتے ہوتا تھا، لیکن اب ہر مہینے ہوگا اور یہ سلسلہ اگلے دس سال تک جاری رہے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کینسر کے خلیات دوبارہ ان کے جسم میں پیدا نہ ہوں۔

اداکارہ نے کہا کہ ہر مہینے ٹیسٹ کے وقت ان پر ذہنی دباؤ ہوتا ہے، لیکن یہ اب ان کی زندگی کا حصہ ہے۔

اریج فاطمہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، زندگی میں کچھ بھی انسان کی مرضی سے نہیں ہوتا، اسی لیے سب سے درخواست ہے کہ زندگی کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنا خیال رکھیں۔

View this post on Instagram

A post shared by Arij Fatyma (@arijfatymajafri)

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • فلم ’شعلے‘ کی گولڈن جوبلی: فلم کے وہ چھوٹے کردار جو امر ہو گئے؟
  • اریج فاطمہ نے اپنے نایاب کینسر کی علامات اور علاج کی تفصیلات بیان کردیں
  • میں پی ٹی آئی میں ہوتا تو عمران خان مئی 2024 میں رہا ہو چکے ہوتے، شیر افضل مروت
  • اتحادی حکومت میں ہمیشہ چیلنج ہوتا ہے: رانا احسان افضل
  • کچھ بدلنے والا نہیں ہے!