چھوٹا بچہ جان کے
نہ کوئی آنکھ دکھانا رے
ڈوبی ڈوبی ڈب ڈب
ڈوبی ڈوبی ڈب ڈب
ماضی کا یہ گیت اُس دور میں بچے بچے کی زبان پر تھا، ہمارا آج کا موضوع اس سے بہت زیادہ تو نہیں، کچھ کچھ ملتا جلتا ضرور ہے۔
اس گیت میں تو تھوڑی سی معصومانہ دھمکی نظر آتی ہے، مگر ہم جس بچے کا ذکر کر رہے ہیں، اس کے پاس تو شاید یہ چوائس ہی نہیں۔ جس گھر میں بچے ہوں تو وہاں ایک بچہ سب سے چھوٹا ضرور ہوتا ہے، چھوٹا بچہ ہونے کے کئی فائدے ہیں، جبکہ اس کے نقصانات بھی کم نہیں۔
شاید نقصانات مناسب لفظ نہ ہو، اس کی جگہ ہم لفظ ۔۔۔ ذمہ داریاں ۔۔۔ لکھ لیتے ہیں، چلیں پہلے ہم بات کرتے ہیں کہ گھر کے چھوٹے بچے کو کن روز مرہ ’چیلنجز‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سرد موسم، رات کا وقت، اچانک بیل بجے تو سب کی نظریں ایک ہی فرد کی جانب اٹھتی ہیں، جی آپ بالکل درست سمجھے اور وہ ہے گھر کا سب سے چھوٹا بچہ، اور چار ناچار اسے ہی یہ ’معرکہ‘ سرانجام دینے کے لیے اٹھنا پڑتا ہے۔
شدید دھوپ ہو ، جھلساتی گرمی میں نکلنا محال، ایسے میں کسی ضروری چیز کی ضرورت پڑے تو ایسی صورت میں بھی نگاہِ انتخاب گھر کے سب سے چھوٹے بچے پر ہی ٹھہرتی ہے۔
کسی بڑے کو پانی کی طلب محسوس ہو تو گھر کا چھوٹا بچہ ہی کام آتا ہے، فریج میں پانی کی بوتلیں رکھنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوتی ہے، موبائل، چشمہ یا پھر کوئی اور ضروری چیز چاہیے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، گھر کا چھوٹا بچہ ہے نا۔
یہ ہی نہیں، اگر گھر میں کوئی چھوٹی موٹی چیز اِدھر اُدھر ہو جائے تو الزام اسی معصوم پر آتا ہے، وہ لاکھ انکار کرے مگر شامت اسی کی آتی ہے۔
چھٹی کا دن ہو، کپڑے دھونے ہوں تو عموماً مدد کے لیے گھر کا چھوٹا بچہ ہی کام آتا ہے۔ دھلے دھلائے کپڑے تار پر ڈالنے ہوں تو یہ بھی اسی کا کام سمجھا جاتا ہے۔ گھر کی کھڑکیاں یا پنکھے صاف کرنے ہوں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، ایک ہی فرد کام آ سکتا ہے، سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔
اگر کسی گھر میں باغیچہ ہو یا گملے رکھے ہوں تو انہیں پانی دینے کی اہم ذمہ داری بھی اکثر اسی اسپیشل شخصیت کے حصے میں آتی ہے۔
چھوٹا بچہ کئی اور معاملات میں بھی نقصان میں رہتا ہے، مگر اس میں ان کا عمل دخل بالکل نہیں ہے۔ وہ اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں کا لاڈلا تو ضرور ہوتا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق، عموماً پہلے بچے پر جتنی توجہ دی جاتی ہے اور ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں، اس کے بعد پیدا ہونے والے بچے اس توجہ سے عموماً محروم رہتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ بڑے بھائی یا بہن کا ذہن اپنے چھوٹے بھائی یا بہن سے تیز ہوتا ہے، عموماً بڑا بیٹا ہی خاندانی کمپنی کا سی ای او یا سیاستدان بنتا ہے۔
اکثر یوں بھی تو ہوتا ہے کہ اگر کوئی قریبی عزیز گھر میں کافی عرصے بعد آئے تو کسی اور کو پیسے ملیں یا نہ ملیں، گھر کے سب سے چھوٹے بچے کو عموماً کچھ نہ کچھ دیا جاتا ہے۔
اب چھوٹے بچے سے ہٹ کر تھوڑی بات کرتے ہیں، بچہ کوئی بھی ہو، گھر کی چھوٹی موٹی ذمہ داریاں تو سب ہی ادا کرتے ہیں، تحقیق کہتی ہے کہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے سے یہ بچے بڑے ہو کر کامیاب افراد ثابت ہوتے ہیں۔
ان میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان کی بھی اہمیت ہے۔ یہ ہی نہیں، ذمہ داری کے اس احساس سے ان کا رشتہ مستقبل میں بھی قائم رہتا ہے۔ ایسے افراد عموماً اپنے دیگر ساتھیوں یا عزیز و اقارب کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ہمدری کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی مشکل آن پڑے تو نہ صرف وہ خود اس کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں، بلکہ دیگر افراد کی بھی مدد کرنے سے گھبراتے نہیں۔
ایک اور اہم بات، چھوٹا بچہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کی غلطیوں سے بھی سیکھتا ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو چیز بڑے بچے کو دیر سے ملتی ہے، چھوٹے بچے کو جلد مل جاتی ہے۔
چھوٹے بچے کے پاس کپڑے یا کھلونوں کی بھی کمی نہیں ہوتی، نئی چیزوں کے علاوہ اپنے بھائی بہنوں کی چیزوں کا مالک بھی یہ ہی ہوتا ہے، بڑے بچوں کے کپڑے چھوٹے ہو جائیں تو یہ خوشی خوشی انہیں لیتا ہے۔
ایک برطانوی سروے میں بتایا گیا تھا کہ سب سے چھوٹے بچے زیادہ خوش مزاج ہوتے ہیں، اپنے بڑے بہن بھائیوں سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں، دوسروں کی توجہ کیسے حاصل کرنی ہے، اس میں بھی یہ ماہر ہوتے ہیں
خوبصوت سوچ کے منفرد شاعر مرحوم منور رانا کا یہ اچھوتا شعر ہمارے بلاگ پر کیا خوب بیٹھتا ہے۔
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
جمیل الدین عالی صاحب بھی کیا خوب کہہ گئے
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں
پر کام کروں گا بڑے بڑے
چھوٹے اور بڑے بچوں کی تو بہت بات ہو گئی، اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ کئی گھروں میں اکلوتا بچہ ہوتا ہے، نہ تو اس کا کوئی چھوٹا بہن بھائی ہوتا ہے نہ ہی بڑا ۔ وہ ہی گھر کا شہزادہ ہوتا ہے۔ اسے اپنے والدین کی توجہ زندگی بھر ملتی ہے۔
ایک برطانوی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ اکلوتے بچے زیادہ خوش رہتے ہیں، انہیں نہ تو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ گھر میں کسی اور کے لیے کوئی چیز نہ آ جائے اور گھر کے پسندیدہ کمرے پر بھی ان کی ہی حکومت ہوتی ہے۔
بچہ چھوٹا ہو یا بڑا، رونق ان سے ہی ہوتی ہے۔ تھوڑا فرق ضرور ہو سکتا ہے، مگر پیار تو سب کو ہی ملتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنے گھر کے سب سے چھوٹے بچے ہیں تو پریشان نہ ہوں، تاریخ ایسی کئی کامیاب شخصیات سے بھری ہوئی ہیں، جو اپنے گھر کے سب سے چھوٹے بچے تھے۔
غم کیا ہوتے ہیں، بڑے عرصے بعد پتہ چلا
گھر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا میں
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سب سے چھوٹا ہوتا ہے کہ بہن بھائی ہوتے ہیں کرتے ہیں میں بھی ہوتی ہے گھر میں بچے کو ہوں تو کے لیے گھر کا
پڑھیں:
خبردار ہو جائیں، بینکوں میں پیسے رکھوانے والوں کیلئے اہم خبر
ویب ڈیسک:عصر حاضر میں لوگ نقد رقم کے بجائے کریڈٹ کارڈ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، کسی کو رقم کی منتقلی یا بلوں کی ادائیگی اب سب اے ٹی ایم کے ذریعہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ نقدی رکھنے اور لوٹے جانے کے خطرے بھی بچ جاتے ہیں مگر دنیا کے ڈیجیٹل ہوتے ہی مجرم بھی سائبر کرمنل بن چکے ہیں۔
تفصیلات کےمطابق جب سے لوگوں نے نقدی کی بجائے کریڈٹ کاڑڈ استعمال کرنا شروع کیا تب سے سائبر کرمنلز نے انہیں لوٹنا شروع کر دیا اور آئے روز ایسی وارداتیں سامنے آتی ہیں جس میں سائبر کرائمز کے ذریعہ لوگوں کو ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کو گردے کی پتھری کا زیادہ خطرہ ؛ تحقیق سامنے آگئی
دنیا بھر میں اے ٹی ایم کارڈ کے استعمال کے لیے چار ہندسوں والا خفیہ پن کوڈ ہوتا ہے، جو سوائے کارڈ ہولڈر کے کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ متعلقہ بینک بھی اس سے لاعلم ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود سائبر کرمنل فراڈ کے ذریعہ لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی جانب سے اپنے اے ٹی ایم کے رکھے جانے والے پن کوڈز ہیں۔ جو صارفین اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے لیے پن کوڈ کے لیے عام ہندسے استعمال کرتے ہیں، وہی زیادہ ہیکرز کا شکار بنتے ہیں۔
44 برس سے مسجد نبویﷺ میں قرآن مجید پڑھانے والے پاکستانی نژاد مدرس انتقال کرگئے
ماہرین کے مطابق آسان پن کوڈ چند لمحے میں آپ کا اکاؤنٹ کا صفایا کرا سکتا ہے۔ سائبر ماہرین نے ان پن کوڈز کی نشاندہی بھی کی ہے، جو سائبر کرمنلز کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ یہ عموماً ترتیب وار ہندسے اور دہرائے گئے ہندسوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی صارف مثال کے طور پر 1111، 2222، 3333، 0000، 5555 یا ترتیب سے استعمال کیے گئے ہندسوں پر مبنی کوڈ جیسے 1234، 2345، 6789 یا اس کے الٹ جن میں سب سے زیادہ 4321 غیر محفوظ ہے۔
ویل چیئر ٹی ٹونٹی سیریز؛ پاکستان نے 3.1 سے جیت لی
اسی طرح بعض لوگ اپنی تاریخ پیدائش بطور پن کوڈ استعمال کرتے ہیں جیسے 13 اگست (1308)، 17 دسمبر (1712) یا پیدائش کا سال مثلاً 2025، 1970 یا پھر گاڑی نمبر، موبائل نمبر کے ہندسے پر مبنی کوڈز کا پتہ لگانا بھی ہیکرز کے لیے آسان ہوتا ہے، کیونکہ تاریخ پیدائش، اور سن پیدائش کا سوشل میڈیا اور دیگر دستاویزات سے پتہ لگانا اور بھی زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اور اس کو ہیک کرنے میں صرف چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں۔
ماہرین نے محفوظ پن کوڈ کے انتخاب کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایسے ہندسوں کا پن کوڈ بنائیں جو بے ترتیب ہو لیکن آپ اسے ذہن نشین کر لیں۔ اس کے علاوہ ہر 6 یا 12 ماہ بعد اپنا پن کوڈ تبدیل کر لیں۔ پن کوڈ کو موبائل فون یا کہیں بھی لکھ کر محفوظ نہ کریں۔ اس نمبر کو کسی کے ساتھ شیئر بھی نہ کریں اور اگر آپ ایک سے زائد اے ٹی ایم کارڈ رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ہر ایک کا پن کوڈ دوسرے سے بہت مختلف رکھیں۔
سکیورٹی سوپروائزر کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار