کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن ) نامور گلوکارہ صنم ماروی اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ کے درمیان جاری تنازع ختم ہوگیا،  دونوں نے غلط فہمیاں دور کرکے ایک دوسرے کو معاف کر دیا۔

نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق چند روز قبل صنم ماروی نے احمد شاہ کو 5 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ 10 اگست کو سکھر میں سندھ حکومت کے ایک پروگرام کے دوران انہیں دھکے دیے گئے، نامناسب زبان استعمال کی گئی اور دھمکیاں بھی دی گئیں۔ گلوکارہ نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر معافی مانگیں ورنہ قانونی کارروائی کا سامنا کریں۔

سابق ایم پی اے احمد خان بھچر کی نااہلی کیخلاف درخواست پر سماعت22اگست تک ملتوی 

احمد شاہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے نہ توہین کی اور نہ ہی کسی قسم کی دھمکیاں دیں۔ تاہم اب صوبائی وزیر ثقافت سید ذوالفقار علی شاہ اور لکھاری نور الہدیٰ شاہ کی مداخلت سے دونوں شخصیات کے درمیان صلح ہوگئی۔

وزیر ثقافت نے اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں احمد شاہ نے صنم ماروی کو چھوٹی بہن اور بیٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے درمیان برسوں پرانے تعلقات ہیں اور محض غلط فہمی کی بنیاد پر تنازع سامنے آیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کے اسٹاف کے نامناسب رویے سے گلوکارہ کو تکلیف پہنچی، تاہم اب تمام اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔

اسلام آباد راولپنڈی سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بارش کا امکان

صنم ماروی نے بھی سندھی زبان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کی روایات کے مطابق انہوں نے اپنے تمام الزامات واپس لے لیے ہیں۔ انہوں نے صلح میں اہم کردار ادا کرنے پر سید ذوالفقار علی شاہ اور نور الہدیٰ شاہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ سندھ کے عوام کی شکر گزار ہیں۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: صنم ماروی احمد شاہ انہوں نے

پڑھیں:

افغان مہاجرین کی واپسی: جرمنی نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اگست 2025ء) جرمن وزارتِ خارجہ کے ترجمان یوزف ہِنٹر زیہر نے کہا ہے کہ 200 سے زیادہ افغان، جو جرمنی میں پناہ کے منتظر تھے، حالیہ دنوں میں پاکستان کی جانب سے طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان واپس بھیج دیے گئے ہیں اور جرمن حکومت اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ انہیں واپس آنے کی اجازت دی جائے۔

بے دخل کیے گئے یہ افراد اس گروپ کا حصہ ہیں جنہیں پہلے جرمنی میں پناہ دینے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اب وہ جرمن چانسلر فریڈرش میرس کی سخت امیگریشن پالیسی اور پاکستان سے بڑے پیمانے پر ہونے والی بے دخلیوں کے بیچ پھنس گئے ہیں۔

ہِنٹر زیہر نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی پولیس نے حال ہی میں تقریباً 450 افغانوں کو گرفتار کیا ہے، جنہیں طالبان کی جانب سے اپنی جان کو خطرہ کے پیش نظر ایک جرمن اسکیم کے تحت پناہ دینے کے لیے تسلیم کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا، ''ہماری معلومات کے مطابق ان میں سے 211 افراد کو افغانستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ''245 افراد کو پاکستان کے ان کیمپوں سے جانے کی اجازت دی گئی، جہاں مجوزہ بے دخلی سے قبل انہیں رکھا گیا تھا۔‘‘

جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا،''ہم پاکستان سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ ان افراد کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے جو پہلے ہی بے دخل کیے جا چکے ہیں۔

‘‘ کتنے افغانوں کو جرمنی میں دوبارہ آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا؟

سن دو ہزار اکیس میں افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کے بعد، جرمنی نے مقامی عملے کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تھا جنہوں نے جرمن افواج کی مدد کی تھی۔ نیز ان افغانوں کو بھی جو طالبان کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے پاکستان فرار ہو گئے تھے۔

اب بھی 2,000 سے زیادہ افغان، جنہیں جرمنی کی طرف سے پناہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، پاکستان سے جرمنی جانے کے منتظر ہیں۔

ان میں انسانی حقوق کے محافظ، وکلا، اساتذہ اور صحافی شامل ہیں جو افغانستان میں طالبان کے تحت ظلم و ستم سے خوفزدہ ہیں۔

ان میں تقریباً 350 سابق مقامی عملے اور ان کے اہلِ خانہ بھی شامل ہیں جنہوں نے جرمن اداروں کے ساتھ کام کیا تھا۔

چانسلر میرس کی سخت امیگریشن پالیسی

یہ پروگرام جرمن چانسلر فریڈرش میرس، جنہوں نے مئی میں عہدہ سنبھالا ہے، کے تحت متعارف کرائی گئی سخت امیگریشن پالیسی کے باعث روک دیا گیا ہے۔

جرمن وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ داخلہ پروگرام میں شامل ہر شخص کے لیے انفرادی جائزہ، اور ممکنہ طور پر سکیورٹی اسکریننگ، جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے، حقوقِ انسانی کی دو جرمن تنظیموں نے دو جرمن وزیروں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔ ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے ویزا کے امیدوار افغانوں کو ''نظرانداز کرنے اور مدد فراہم نہ کرنے کا ارتکاب کیا۔

‘‘

ترجمان کے مطابق، جرمن وزارتِ خارجہ پاکستانی حکام سے رابطے میں ہے تاکہ ان 211 افراد کو واپس پاکستان لایا جا سکے۔

اس دوران، بے دخل کیے گئے افراد کے لیے افغانستان میں ایک سروس فراہم کرنے والے ادارے کی مدد سے رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے، جب جرمن وزیرِ داخلہ الیگزانڈر ڈوبرنٹ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ افراد جو پہلے ہی پاکستان سے افغانستان واپس بھیجے جا چکے ہیں، اب واپس لائے جا رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعاون (جی آئی زیڈ) کے ذریعے ان افراد سے رابطہ قائم ہے اور انہیں مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

متعلقہ مضامین

  • ٹرین حادثات کا نوٹس، بریک پاور ہر ٹرین، کوچ کیلئے لازمی قرار
  • پاکستان ریلوے نے ٹرین حادثات کا نوٹس لے لیا۔
  • افغان مہاجرین کی واپسی: جرمنی نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا
  • قومی کرکٹر بابر اعظم امریکا سے وطن واپس پہنچ گئے
  • صنم ماروی اور احمد شاہ کا تنازع ختم، 5 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھی واپس
  • میئر کراچی کا وزیراعظم سے گورنر سندھ کی سیاسی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ
  • روس یوکرین تنازع: ٹرمپ نے پیوٹن کے بعد زیلنسکی کو ملاقات کے لیے بلالیا
  • اسلام آباد میں ’غیر قانونی‘ مساجد کے تنازع کا حل کیا ہے؟
  • یوکرین جنگ: پوتن ٹرمپ ملاقات اور یو این کا تنازع کے منصفانہ حل پر زور