WE News:
2025-11-03@19:14:21 GMT

راحت فتح علی کا بنگالی میں ڈیبیو مداحوں کو بھا گیا

اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT

راحت فتح علی کا بنگالی میں ڈیبیو مداحوں کو بھا گیا

پاکستان اور بنگلہ دیش کے ثقافتی تعلقات کو ایک نئی سنگیت بھری جہت ملی ہے، عالمی شہرت یافتہ گلوکار استاد راحت فتح علی خان نے پہلی بار بنگالی گانا گایا ہے جسے مداح بے حد پسند کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: راحت فتح علی خان کی بنگلہ دیش میں شاندار پرفارمنس، سامعین جھوم اٹھے

راحت نے معروف بنگالی گلوکارہ روبایات جہاں کے ساتھ ڈوئٹ تُمی امر پریم پیاشا ریکارڈ کیا ہے۔ اس کی کمپوزیشن اور ارینجمنٹ میوزک ڈائریکٹر راجہ کاشف نے کی، جنہوں نے راحت کو بنگالی میں گانے کا چیلنج قبول کرنے کی ترغیب دی۔

مداحوں نے راحت کی درست تلفظ اور جذباتی اندازِ گائیکی کو بے حد سراہا ہے۔ خاص طور پر لائن ’الے تمی مونیر گو بیرے، جانبے تومار آمی کے‘ پر سامعین نے کہا کہ راحت ایک ماہر بنگالی گلوکار کی طرح لگ رہے تھے۔

راجہ کاشف، جنہوں نے اس سے قبل آشا بھوسلے اور عدنان سمی جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کیا ہے، نے کہا کہ راحت کی قیمتی آواز نے ایک ناقابلِ فراموش تاثر چھوڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: راحت فتح علی خان کا باکمال بیٹا برطانیہ میں پہلی پرفارمس کے لیے تیار

روبایات جہاں نے انکشاف کیا کہ راحت نے بنگالی بول اردو رسم الخط میں لکھ کر اپنی ادائیگی بہتر بنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ استاد راحت کے ساتھ گانا ایک اعزاز تھا۔

یہ ڈوئٹ برصغیر کی موسیقی میں ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے جو پاکستان کی قوالی کی روایت اور بنگلہ دیش کی نغمگی کو ایک ساتھ جوڑتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بنگالی گانا بنگلہ دیش پاکستان راحت فتح علی سنگیت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنگلہ دیش پاکستان راحت فتح علی سنگیت راحت فتح علی بنگلہ دیش

پڑھیں:

چُھٹکی

سردیوں کی پہلی بارش نے ٹھنڈ کی شدت کو مزید بڑھا دیا تھا، وہ اور اس کا چھوٹا سا پوڈل ہیٹر کے سامنے بیٹھے تھے، اس کے باوجود سردی ہڈیوں میں یوں سرایت کر رہی تھی جیسے نوکیلے کانٹے چبھ رہے ہوں۔

اچانک اسے اُس کی یاد آئی، وہ جو گلی کے نکڑ پر خالی پلاٹ میں کئی برسوں سے ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی۔

میڈیکل کالج آتے جاتے یا اپنے پوڈل کو واک کراتے ہوئے اکثر اُس پر نظر پڑ جاتی، آنکھوں میں ایک ایسی اداسی، ایسا دکھ کہ دل چیر دے، وہ ہر بار سر جھٹک دیتا۔

’ایسی اداس آنکھیں تو جا بجا ہیں، سب کے بارے میں سوچا جائے تو جئیں گے کیسے۔‘

دن گزرتے گئے، وہ وہیں خالی پلاٹ میں براجمان رہی، دن بھر کہیں سے کچھ کھانے پینے کو ڈھونڈتی، مگر شام ڈھلے پھر اپنے اسی مسکن پر لوٹ آتی۔

کچھ دنوں سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے پیٹ کا حجم بڑھنے لگا ہے، رفتہ رفتہ وہ پھولنے لگا۔ ایک صبح اماں نے اسے آواز دی:

’ہائے بیٹا، رات بہت برا خواب دیکھا، میرا دل ہول رہا ہے، بندو قصائی سے پھیپھڑے کلیجی لے آؤ، صدقہ دوں تو ذرا من ہلکا ہو۔ اللہ ہر بری بلا سے بچائے۔‘

اس نے دل میں سوچا، اس صدقے کی اصل حقدار تو وہ پیٹ والی ہی ہے۔

قصائی سے گوشت لیا اور سیدھا اسی خالی پلاٹ کی طرف چل پڑا۔

وہ آنکھیں موندے نیم بے ہوش سی پڑی تھی اور شاید دھیرے دھیرے سسک بھی رہی تھی، پیٹ ایسا جیسے ابھی پھٹ جائے۔

اس نے سرخ گوشت کی تھیلی آہستہ سے اس کے سامنے رکھی، ایک نظر اس پر ڈالی اور الٹے قدموں واپس آگیا۔

رات بھر موسلا دھار بارش ہوتی رہی، موسم کی شدت بڑھتی گئی۔ اس نے بستر میں دبکے پوڈل کو دیکھ کر سوچا، ’اس بیچاری کا کیا بنے گا اتنی ٹھنڈ میں؟‘

صبح وہ پوڈل کے ساتھ چہل قدمی کو نکلا تو قدم خود بخود اسی پلاٹ کی جانب اٹھ گئے۔

پلاٹ کے ایک کونے میں وہ بے جان پڑی تھی، اور اس کے آس پاس پانچ چھ ننھے وجود کلبلا رہے تھے۔

اس نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو، ’اب میرا کچھ نہیں، ان کا خیال رکھنا۔‘

اس کا کلیجہ کٹ گیا۔

ننھا پوڈل ان بچوں پر زور زور سے بھونکنے لگا جیسے اپنی اہمیت جتا رہا ہو، لیکن وہ ذرا نہیں غرائی، اپنے محسن کے پیارے پر وہ کیونکر غصہ کر سکتی تھی۔

وہ دوڑ کر گھر آیا، جو کچھ کھانا بچا تھا ایک تھیلی میں ڈالا اور بھاگ کر دوبارہ اسی پلاٹ میں پہنچا۔

ماں جلدی جلدی کھانے پر منہ مارنے لگی، بچے اس کے پستانوں سے چمٹے ہوئے تھے۔

اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا، اپنے کتے کو واک پر لے کر جاتا تو ہاتھ میں گھر کا بچا ہوا کھانا، ہڈیاں، سوکھی روٹیاں بھی ساتھ ہوتیں، ان ننھنی جانوں کے لیے۔

کبھی گھر میں کچھ نہ ہوتا تو قصائی سے چھیچھڑے لے آتا، ابالتا اور ان کے آگے رکھ دیتا۔

بچے خوشی سے چاؤں چاؤں کرتے دوڑتے آتے، لپک لپک کر کھانے لگتے۔

وقت گزرتا گیا، بچے بڑے ہوئے، بکھر گئے، لیکن ایک بچی ماں کے ساتھ چپکی رہی، لاغر سی۔ اس نے اس کا نام رکھا ’چھٹکی‘۔

چھٹکی بھوری کتھی رنگ کی تھی، جیسے ہی وہ آتا، وہ دم ہلاتی دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی۔ پوڈل کے ساتھ مستی کرتی لیکن پوڈل اس پر خوب گرجتا برستا پر چھٹکی کی دم اس کے بھونکنے پر بھی مسلسل ہلتی رہتی۔

وہ اسے سہلاتا تو چھٹکی زمین پر لیٹ جاتی، پیروں سے لپٹ جاتی،

ایک دن وہ محلے کے ڈاکٹر کے پاس گیا۔

’ڈاکٹر صاحب، اس کو شاید الرجی ہو گئی ہے، بہت کھجا رہی ہے، کوئی دوا دے دیں۔‘

ڈاکٹر نے ابرو چڑھائے، ’دوا کا نام لکھ دیتا ہوں، مگر پلانا تمہارا کام۔ میں جانوروں کا ڈاکٹر نہیں ہوں، اور ان آوارہ کتوں سے مجھے دور ہی رکھو۔‘

وہ پرچی لے آیا، دوا سرنج میں بھری، کھانے کے ساتھ چھٹکی کو پلائی۔ چھٹکی بنا چوں چراں منہ کھول کر دوا پی لیتی۔

رفتہ رفتہ ٹھیک ہونے لگی۔ ماں کی صحت ڈھل رہی تھی، مگر چھٹکی دن بدن قد نکال رہی تھی، تندرست اور چست ہو رہی تھی۔

ایک دن وہ بو سونگھتے سونگھتے سیدھی اس کے دروازے تک پہنچ گئی۔ ’ارے چھٹکی! تُو یہاں کیسے آگئی؟‘ چھٹکی دم ہلاتی، پیروں سے لپٹ گئی۔

’کھانا کھائے گی میری چھٹکی؟‘

’کوں کوں‘!

وہ ہنس دیا۔

’اچھا، ٹھہر، ابھی لایا‘!

اس نے جلدی سے مٹی کی پرانی پلیٹ میں کھانا نکالا اور باہر آیا تو دیکھا چھٹکی ادھ کھلے دروازے سے اندر بڑی حسرت بھری نظروں سے جھانک رہی تھی۔

سامنے لاؤنج کے صوفے پر پوڈل آرام سے بیٹھا مزے سے کچھ کھا رہا تھا۔ وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سوچنے لگا۔’ فرق صرف انسانوں میں نہیں، جانوروں کے ساتھ برتا جاتا ہے، اونچ نیچ، امیری غریبی، اعلیٰ و کم تر نسل‘!

اس نے چھٹکی کے سامنے کھانے سے بھری پلیٹ رکھ دی، چھٹکی نے پیٹ بھر کے کھایا، پھر گھر کے باہر کٹورے سے سڑپ سڑپ پانی پیا، ایک شکر گزار نظر اس پر ڈالی اور دم ہلاتی واپس چلی گئی۔

اب یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ آتی، کھانا کھاتی، پیار سے سہلوا کے چلی جاتی۔

ایک روز وہ باہر نکلا تو دیکھا، چھٹکی دروازے کے پاس سمٹی بیٹھی ہے۔ ’ارے میری چھٹکی آئی ہے‘!

اس کے پکارنے پر چھٹکی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، مگر اٹھلانے کے بجائے فوراً سمٹ کر ایک طرف ہوگئی۔

وہ اکڑوں بیٹھ کر اسے سہلانے لگا تو زمین پر کچھ لال سا دکھائی دیا۔۔۔ خون۔

اس نے چونک کر غور سے دیکھا، چھٹکی کے اگلے پیر کی ایک انگلی کٹی ہوئی تھی، اور اس زخم سے مسلسل خون رس رہا تھا۔

’افف۔۔۔ یہ کیا ہوا چھٹکی؟‘ وہ بےاختیار بول اٹھا۔

چھٹکی درد سے کپکپا رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں عجب سا بھروسہ تھا۔

وہ تیزی سے اندر گیا، مرہم، پٹی اور دوا لے آیا، اور نہایت نرمی سے اس کے زخم پر پٹی باندھنے لگا۔

’وحشی ظالم لوگ۔۔۔‘ وہ دل ہی دل میں انسانوں کو گالیاں دینے لگا۔

چھٹکی خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، جیسے اپنے مسیحا کو پہچانتی ہو جانتی ہو۔

ایک دن اماں نے اسے دیکھ کر کہا:

’بیٹا، انسانوں کو تو کوئی پوچھتا نہیں، تم نے کتوں سے دوستی پال لی ہے؟‘

وہ مسکرا دیا۔

’اماں، انسان کے پاس زبان ہے، دماغ ہے، ہاتھ ہیں۔

یہ بے زبان تو ہم پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔

اگر ہم بھی ان کا آسرا نہ بنیں تو کون بنے گا؟‘

پھر کئی دن گزر گئے، چھٹکی نہ آئی۔

وہ خالی پلاٹ گیا، پارک گیا، مگر کہیں نظر نہ آئی۔

دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔

ایک رات وہ دوست کے ساتھ گلی میں کھڑا بات کر رہا تھا کہ سامنے سے چھٹکی آتی دکھائی دی۔

دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے قریب آئی، سر جھکائے خاموش کھڑی ہوگئی۔

’چھٹکی! کہاں تھی تو اتنے دن؟‘

وہ کوں کوں کرتی، اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔

اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

اور تبھی اس کی نظر پڑی، چھٹکی کے لٹکے ہوئے پستانوں پر۔

’ارے۔۔۔ میری چھوٹی سی چھٹکی۔۔۔ اماں بن گئی تُو؟‘

وہ سر جھکائے کھاتی رہی۔

وہ بار بار اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا جاتا، اور آنکھوں سے آنسو ٹپکتے جاتے۔

اس نے سوچا بچے جننے کا دکھ صرف انسانوں کا نہیں، جانور بھی اسی اذیت سے گزرتے ہیں۔

چھٹکی نے گھر کے قریب پارک میں تین بچے دیے تھے۔ اب وہ روز آتا، کھانا ڈالتا، پانی رکھتا۔ چھٹکی کی آنکھوں میں وہی شکر گزاری ہوتی، جو کبھی اس کی ماں کی آنکھوں میں تھی۔

شہر میں کتوں کی آبادی روکنے کے لیے مہم زوروں پر تھی، انہیں زہر دے کر مارا جا رہا تھا۔

وہ سوچ میں گم رہتا، ’اگر انسانوں میں تھوڑا سا بھی رحم باقی ہوتا تو یہ بے زبان یوں نہ مرتے۔‘

ہر بار خالی پلاٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے چھٹکی کی ماں کی آنکھیں یاد آجاتیں۔ اداس، مگر شکر گزار!

جو لفظوں سے نہیں، نگاہوں سے بات کرتی تھیں۔

یہ انسان قدرت کی سب سے ظالم مخلوق ہے کیسے کسی جاندار کو اتنی بے دردی سے زہر دے کر سسکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے؟

اب اسے ہر وقت چھٹکی اور اس کے بچوں کی فکر ستانے لگی تھی، روز جب وہ چھٹکی کو زندہ سلامت اور اس کے بچوں کو رینگتا ہوا دیکھتا تو اس کے اندر جیسے زندگی لوٹ آتی۔

میڈیکل کالج کا آخری سال اختتام کے قریب تھا، آج صبح وہ معمول کے مطابق تیار ہو کر کالج جانے نکلا ہی تھا کہ پارک کے سامنے بڑے سے کوڑے دان کے گرد اسکول کے بچوں کا ہجوم دیکھ کر ٹھٹھک گیا، دل زور زور سے دھڑکنے لگا، ایک انجانی گھبراہٹ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے کوڑے دان کی طرف بڑھا،

بچے اسے آتا دیکھ کر ایک طرف ہو گئے۔

کوڑے دان کے اندر سینکڑوں مرے ہوئے کتے ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر تھے، انہی کے بیچ چھٹکی اور اس کے ننھے بچے بھی پڑے تھے۔

چھٹکی کے منہ سے اب بھی سفید جھاگ نکل رہا تھا، اور اس کے پستان دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

wenews انسان آوارہ کتے چھٹکی ظلم وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر سے ترکیہ کے پارلیمانی وفد کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مستحکم کرنے پر اتفاق
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان
  • بلبل صحرا گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • شیخ حسینہ واجد بغاوت کیس میں مفرور قرار،اخباروں میں نوٹس
  • چُھٹکی
  • بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے دوران سیکیورٹی انتظامات کی، ایک لاکھ کے قریب اہلکار تعینات ہوں گے
  • بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ایک مشکل کا سامنا