Express News:
2025-11-03@18:03:35 GMT

یہ کیا رنگ ہے میخانے کا؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT

یہ ہم نہیں بلکہ علامہ اقبال نے پوچھا تھا کہ

کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا

آنکھ ساقی کی گرے نام ہو پیمانے کا

اپنے ایک’’ جہاں دیدہ ‘‘ سب کچھ پوشیدہ اور بہت شنیدہ ملازم کے بارے میں تو ہم آپ کو بتاچکے ہیں کہ وقت نے اس کا سب کچھ چھین کر کہاوتوں حکایتوں اور اقوال زرین کا گنج بے بہا بنادیا تھا۔ چنانچہ جب وہ ایک بات کرتا تھا اور بیچ میں کوئی اور بات یاد آجاتی تھی تو پوپلے سے مسکرا کرکہتا، ایک کر رہا ہوں دوسری دُم ہلا رہی ہے۔اس کی یہ بیماری کچھ کچھ ہمارے اندر بھی سرایت کرچکی ہے کہ ایک سوال پر ابھی سوچ رہے ہوتے کہ دوسرا سوال’’دُم‘‘ ہلانے لگتا ہے۔

ابھی پچھلے دنوں ہم نے ایک سوال پر سوچا تھا اور جواب میں ناکام ہوکر اپنے قارئین کی طرف لڑھکا دیا تھا۔ سونے کی چڑیا اور جنت پر روئے زمین سے لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں لیکن اس کا جواب ابھی نہیں ملا تھا کہ دوسرے سوال نے دُم ہلانا شروع کردی ہے، یہ دوسرا سوال یہ ہے کہ چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ملک میں مسجدوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے ان میں نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ باہر سڑکوں اور گلیوں میں صفیں بچائی جاتی ہیں ، حج وعمرہ پر جانے والوں کی تعداد بھی ہرسال بڑھ رہی ہے، داڑھیاں اتنی کہ حجاموں کی دکانیں بند ہورہی ہیں۔

مدرسوں کی تعداد مسجدوں سے بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ ہر مدرسے کے ساتھ گھروں میں للبنات کے مدرسے بھی قائم ہوچکے ہیں ، تعلیمات نشر کی جا رہی ہیں، مطلب یہ عبادتیں،ثواب ہی ثواب تبلیغ ہی تبلیغ۔ لیکن دوسری طرف دیکھیے تو اچھائی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں حرام ہی حرام، ناجائز ہی ناجائز، ناروا ہی ناروا، معاملات سے دین کو مکمل طور پر خارج کیا چکا ہے۔ حرام ہی حرام، کرپشن ہی کرپشن،جرائم ہی جرائم اور ہمیں اسی کا جواب ڈھونڈنا ہے کیوں؟ آخر کیوں یہ آگ اور پانی یوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

ایک کا دوسرے پر اثرکیوں نہیں ہو رہا ہے۔  کچھ ایسے بھی ہیں جن کا وطیرہ یہ ہے کہ لوگوں کے گلے بھی کاٹتے رہو اور نیک کاموں میں چندے بھی دیا کرو۔حالانکہ ہم انھی لوگوں سے سنتے آئے ہیں کہ برائیوں سے بچنے کے لیے نیکی کا رستہ اختیار کرو۔ لیکن یہاں یہی نام نہاد نیکوکار ہی برائیوں کے سرچشمے ہیں۔ انھی سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’حقوق اللہ‘‘ یعنی اپنے حقوق تو بخش سکتا ہے لیکن حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق نہیں بخشے گا۔ مگر ان عبادتوں اور حقوق کے سائے میں حقوق العباد کا جو حال ہے وہ کس کو معلوم نہیں کہ سب کچھ انھی کا کیا دھرا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ علامہ اقبال جب وکالت کرتے تھے تو ان کے پاس ایک بزرگ آکر بیٹھے تھے جو اپنی بہنوں کو باپ کی وراثت میں حصہ نہیں دے رہے تھے اور اسی مسئلے پر مقدمہ لڑرہے تھے۔

وہ علامہ کو ہمیشہ داڑھی رکھنے اور نماز پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ ایک دن علامہ نے کہا چلیے ہم آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں ، آپ اپنی بہنوں کو حصہ دیجیے اور میں داڑھی رکھ لیتا ہوں۔لیکن بزرگ نے یہ شرط قبول نہیں کی، کہ ہم نے جو دین کے نام پر رویہ اپنا رکھا ہے وہ صرف عبادات تک محدود ہے ، دنیاوی معاملات کے لیے ہمارے رویے الگ ہیں وہاں قوانین، کورٹ کچہری اور وکیل جو ہیں۔ایک چشم دید واقعہ سنیے۔ہمارے گاؤں کے نہایت دیندار تین بھائی تھے ان کے ٹریکٹر ٹرالی سے افغان مہاجرین کا ایک بچہ مرگیا تو ان بھائیوں نے ایک جرگہ مرتب کیا جس میں ہم بھی تھے، مہاجرکیمپ میں ہمیں ایک مسجد میں بٹھایا گیا، ہم بھی بیٹھے تھے دوسرے مہاجر فریق کے بزرگ بھی بیٹھے تھے۔

اب بات شروع کرنا تھی لیکن دیکھا کہ وہ تین بھائی مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے حالانکہ دن کے دس بجے تھے، بعد میں ہم نے پوچھا کہ ادھر جرگہ میں بات چلانا تھا اور تم وہاں نماز پڑھ رہے تھے یہ کس وقت کی نماز تھی۔ بولے کسی بھی مسجد میں پہلی بار جاؤ تو دو رکعت نفل اس مسجد کا حق ہیں اور یہیں پر ہم نے انھیں یاد دلایا کہ کچھ عرصے پہلے تمہاری بہن نے تم سے وراثت میں سے دس مرلے زمین دکان کے لیے مانگی تھی۔ تو تم نے کہا تھا کہ ہم ایک انچ بھی نہیں دیں گے اور ساری پدری جائداد کو ہڑپ کر لیا اور بہن کو اس کے حق کے دس مرلے نہیں دیے اور اب مسجد کا حق دے رہے ہو کہ اس میں کوئی مالی نقصان تو نہیں۔بعد میں بڑے بھائی نے پوری زندگی دین کے لیے وقف کی تھی اب آپ سے پوچھنا ہے کہ

’’یہ کیا رنگ ہے میخانے کا‘‘؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی تعداد رہے تھے ہیں کہ

پڑھیں:

شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟

محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔

’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔

فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘

اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘

شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔

جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔

شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد