فیروز کا مسئلہ ہے کہ اپنے ہیروازم سے باہر نہیں نکل سکتے: عتیقہ اوڈھو
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سینئر اور تجربہ کار اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے حال ہی میں ایک نجی چینل کے پروگرام میں اداکار فیروز خان کی اداکاری پر کھل کر اظہارِ خیال کیا اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ فیروز خان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے “ہیرو” والے تاثر سے باہر نہیں آ پاتے۔ چاہے ان کا کردار کسی عام شخص کا ہو یا کسی منفی کردار کا، ان کی باڈی لینگویج اور اسکرین پریزنس ہمیشہ ہیرو کے گرد گھومتی ہے۔ اس رویے کی وجہ سے کردار کی اصلیت متاثر ہوتی ہے اور ان کی پرفارمنس مصنوعی محسوس ہونے لگتی ہے۔
ان کے مطابق ایک اچھے اداکار کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے کردار میں اس طرح ڈھل جائے کہ ناظرین کو وہ کردار حقیقت کے قریب محسوس ہو۔ لیکن فیروز خان کی پرفارمنس میں ہمیشہ یہ جھلکتا ہے کہ وہ “اداکاری کر رہے ہیں”۔ اس بنا پر ان کی اسکرین پر موجودگی متاثر کن ہونے کے بجائے محدود نظر آتی ہے۔
عتیقہ اوڈھو نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ فیروز خان کے حالیہ ڈرامے تجارتی طور پر کامیاب ہیں اور ریٹنگز اچھی جا رہی ہیں، لیکن ان کی اداکاری کا معیار ان ڈراموں کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔ ان کے بقول فیروز خان کی پرفارمنس اکثر کوریوگرافی جیسی لگتی ہے، جیسے سب کچھ پہلے سے ترتیب دیا گیا ہو۔ وہ ہر وقت ایک ہی طرح کے تاثرات اور انداز اپنائے رکھتے ہیں تاکہ خود کو ہیرو کے طور پر پیش کر سکیں، لیکن یہ چیز ان کی تخلیقی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے۔
سینئر اداکارہ نے اس بات پر زور دیا کہ ایک فنکار کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی انا اور امیج سے بالاتر ہو کر کردار کو جِیے۔ فیروز خان اگر واقعی ایک ہمہ جہت اور مضبوط اداکار کے طور پر خود کو منوانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی یہ روش بدلنا ہوگی اور کردار کو اہمیت دینا ہوگی، نہ کہ صرف اپنی شخصیت کو اسکرین پر نمایاں کرنے پر زور دینا۔
اداکاری پر یہ کھری کھری رائے شوبز انڈسٹری میں بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ کچھ لوگ عتیقہ اوڈھو سے متفق نظر آ رہے ہیں جبکہ فیروز خان کے مداحوں کا کہنا ہے کہ ان کی اسکرین پریزنس اور اسٹائل ہی ان کی کامیابی کی بڑی وجہ ہیں۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سینئر اداکارہ کی اس تنقید نے فیروز خان کی اداکاری کے حوالے سے ایک سنجیدہ سوال ضرور کھڑا کر دیا ہے۔
Post Views: 8.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیروز خان کی عتیقہ اوڈھو ہے کہ وہ
پڑھیں:
کراچی میں کیمرے چالان کر سکتے ہیں، دندناتے مجرموں کو کیوں نہیں پکڑ سکتے؟ شہریوں کے سوالات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو پکڑنے کے لیے نصب کیے گئے جدید کیمرہ سسٹم (ٹریکس) کی افادیت پر شہریوں اور قانون دانوں کی جانب سے سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
معروف وکیل نے نکتہ اٹھایا ہے کہ اگر یہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی نظام ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو یہی کیمرے اور ٹیکنالوجی شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کو کیوں نہیں روک سکتے؟
اس سوال سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظام شہریوں کی حفاظت اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے بجائے شاید صرف حکومت کی آمدنی بڑھانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
اگرچہ ماہرین نے ٹریکس نظام کو سیف سٹی پروجیکٹ کا حصہ قرار دیا ہے اور اس کی افادیت کو تسلیم کیا ہے تاہم شہریوں کا اصرار ہے کہ اگر یہ نظام ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر آن لائن کارروائی کر سکتا ہے تو اس کی صلاحیتوں کو سیکورٹی اداروں کے ساتھ مضبوطی سے جوڑا جانا چاہیے تاکہ اس کا دائرہ کار ٹریفک قوانین کی حد سے آگے بڑھ کر شہری تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔
یہ سوال کہ بھاری جرمانوں سے حاصل ہونے والا ریونیو کہاں خرچ ہوگا، نظام کی شفافیت اور مقصدیت کو بھی مزید گہرا کر رہا ہے۔