پاک چین، 4 ارب ڈالر سے زائد کےزرعی معاہدے
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
پاکستان اور چین کے درمیان زرعی شعبے میں 4 ارب ڈالر سے زائد کے تاریخی معاہدوں پر دستخط ہو گئے ہیں۔ یہ معاہدے پاک چین زرعی سرمایہ کاری کانفرنس کے دوران طے پائے، جسے دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون میں سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداواررانا تنویر حسین نے معاہدوں کی تقریب میں شرکت کی اور کہا کہ یہ کانفرنس پاکستان اور چین کے درمیان زرعی تعلقات کو ایک نئی جہت فراہم کرے گی۔
کانفرنس کے دوران24 مفاہمتی یادداشتوں پر اتفاق کیا گیا۔ معاہدوں میںزرعی مشینری، بیج سازی، اور اسمارٹ ایگریکلچر جیسے منصوبے شامل ہیں۔
معروف چینی کمپنیاں جیسے جی ڈی ایس پی، سانگیانگ اور جِنگ ہوا سیڈ نے پاکستان میں سرمایہ کاری پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ڈیجیٹل ایگریکلچر کے ذریعے پیداوار میں انقلابی بہتری متوقع ہے۔
رانا تنویر حسین نے کہا کہ یہ زرعی تعاون پاکستان کے لیےغذائی تحفظ اوربرآمدات بڑھانے کا اہم ذریعہ بنے گا۔ انہوں نے بتایا کہ چین سالانہ215 ارب ڈالر کی زرعی درآمدات کرتا ہے، اور پاکستان اپنی کم لاگت زرعی مصنوعات کے ذریعے اس مارکیٹ میں بڑا حصہ حاصل کر سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں اپنائی گئی زرعی اور صنعتی پالیسیوں نےپاک چین تعاون کو نئی توانائی دی ہے، اور یہ شراکت داری اب ایک طویل مدتی اسٹریٹیجک تعاون میں ڈھلتی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-14
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔