4 ججوں نے سپریم کورٹ رولز کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری غیر قانونی قرار دے دی
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے 4 ججز نے سپریم کورٹ رولز 2025 کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا ہے۔
مذکورہ 4 ججوں نے سپریم کورٹ رولز پر تجاویز پر غوروخوض کی غرض سے بلائے گئے فُل کورٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے۔
خط پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دستخط ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس آدھا گھنٹے بعد اختتام پذیر
ججز نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کبھی بھی فُل کورٹ کے سامنے پیش یا منظور نہیں کیے گئے، جو محض ایک تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حیثیت کا بنیادی سوال ہے۔
ان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو بحیثیت ادارہ حاصل ہے اور ان کی منظوری اجتماعی طور پر ہونی چاہیے تھی۔
عدالت عظمیٰ کے 4 ججز نے مؤقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس نے یکطرفہ طور پر سرکولیشن کے ذریعے رولز کی منظوری دی، جو کہ نہ صرف طریقہ کار بلکہ مواد کے لحاظ سے بھی غیر قانونی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سرکولیشن معمولی نوعیت کے انتظامی امور کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جبکہ عدالت کے آئینی ڈھانچے اور طریقہ کار کو متعین کرنے کے لیے فُل کورٹ کا باضابطہ اجلاس ناگزیر ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگر رولز 9 اگست 2025 کو منظور اور گزٹ میں شائع ہو چکے تھے، تو پھر 12 اگست کو ان پر تجاویز کیوں مانگی گئیں اور اب فُل کورٹ اجلاس بلانے کا کیا جواز ہے۔
ججز کے مطابق یہ سلسلہ دراصل اس امر کا اعتراف ہے کہ رولز پر اجتماعی غور و خوض ضروری تھا لیکن منظوری کے بعد فُل کورٹ کو محض رسمی حیثیت دی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر فُل کورٹ سے پہلے ہی رولز کو ’منظور شدہ‘ قرار دیا جا چکا ہے تو اجلاس محض خانہ پُری اور جواز تراشی کے مترادف ہوگا، جس سے ادارے کی اجتماعی حیثیت مجروح ہوگی۔
ججز نے مطالبہ کیا کہ رولز کو ازسرِنو مکمل طور پر فُل کورٹ کے سامنے رکھا جائے اور شفاف بحث کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے۔ بصورت دیگر وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔
مزید برآں ججز نے زور دیا کہ فُل کورٹ کے اجلاس کی کارروائی عوام کے سامنے لائی جائے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ سپریم کورٹ کے اندرونی اصول کس طرح طے کیے گئے۔
ان کے مطابق شفافیت ہی عدلیہ کی ساکھ اور عوامی اعتماد کی بنیاد ہے، اور اس ضمن میں اجلاس کے منٹ پبلک کرنا ادارے کی آئینی ساکھ کو مضبوط کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ رولز ف ل کورٹ کورٹ کے
پڑھیں:
گورنر ہاؤس میں اسپیکر کو رسائی کیخلاف کامران ٹیسوری کی درخواست، سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل
گورنر سندھ کامران ٹیسوری—فائل فوٹوگورنر ہاؤس کراچی میں گورنر کی غیر موجودگی میں اسپیکر صوبائی اسمبلی کو مکمل رسائی دینے کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی درخواست پر 5 رکنی آئینی بنچ تشکیل دے دیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہاؤس کی مکمل رسائی کا حکم دیا تھا۔
گورنر سندھ کے دفتر کو تالہ لگانے پر قائم مقام گورنر سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی اویس شاہ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ ان کا درخواست میں مؤقف ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے ہمیں سنے بغیر فیصلہ سنایا۔
گورنر سندھ کا درخواست میں مؤقف ہے کہ قائم مقام گورنر اویس قادر شاہ کو اجلاس کرنے سے روکا نہیں گیا، تصاویر اور ویڈیو سے واضح ہے کہ قائم مقام گورنر کو مکمل پروٹوکول دیا گیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئین میں قائم مقام گورنر کا دائرہ اختیار طے ہے، قائم مقام گورنر 2015ء کے قانون کے تحت گورنر ہاؤس استعمال نہیں کر سکتا، سندھ ہائی کورٹ نے جلد بازی میں فیصلہ کر کے درخواست نمٹائی ہے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔