سپریم کورٹ کے 4 ججز نے سپریم کورٹ رولز 2025 کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا ہے۔

مذکورہ 4 ججوں نے سپریم کورٹ رولز پر تجاویز پر غوروخوض کی غرض سے بلائے گئے فُل کورٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے۔

خط پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دستخط ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس آدھا گھنٹے بعد اختتام پذیر

ججز نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کبھی بھی فُل کورٹ کے سامنے پیش یا منظور نہیں کیے گئے، جو محض ایک تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حیثیت کا بنیادی سوال ہے۔

ان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو بحیثیت ادارہ حاصل ہے اور ان کی منظوری اجتماعی طور پر ہونی چاہیے تھی۔

عدالت عظمیٰ کے 4 ججز نے مؤقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس نے یکطرفہ طور پر سرکولیشن کے ذریعے رولز کی منظوری دی، جو کہ نہ صرف طریقہ کار بلکہ مواد کے لحاظ سے بھی غیر قانونی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سرکولیشن معمولی نوعیت کے انتظامی امور کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جبکہ عدالت کے آئینی ڈھانچے اور طریقہ کار کو متعین کرنے کے لیے فُل کورٹ کا باضابطہ اجلاس ناگزیر ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اگر رولز 9 اگست 2025 کو منظور اور گزٹ میں شائع ہو چکے تھے، تو پھر 12 اگست کو ان پر تجاویز کیوں مانگی گئیں اور اب فُل کورٹ اجلاس بلانے کا کیا جواز ہے۔

ججز کے مطابق یہ سلسلہ دراصل اس امر کا اعتراف ہے کہ رولز پر اجتماعی غور و خوض ضروری تھا لیکن منظوری کے بعد فُل کورٹ کو محض رسمی حیثیت دی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر فُل کورٹ سے پہلے ہی رولز کو ’منظور شدہ‘ قرار دیا جا چکا ہے تو اجلاس محض خانہ پُری اور جواز تراشی کے مترادف ہوگا، جس سے ادارے کی اجتماعی حیثیت مجروح ہوگی۔

ججز نے مطالبہ کیا کہ رولز کو ازسرِنو مکمل طور پر فُل کورٹ کے سامنے رکھا جائے اور شفاف بحث کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے۔ بصورت دیگر وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔

مزید برآں ججز نے زور دیا کہ فُل کورٹ کے اجلاس کی کارروائی عوام کے سامنے لائی جائے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ سپریم کورٹ کے اندرونی اصول کس طرح طے کیے گئے۔

ان کے مطابق شفافیت ہی عدلیہ کی ساکھ اور عوامی اعتماد کی بنیاد ہے، اور اس ضمن میں اجلاس کے منٹ پبلک کرنا ادارے کی آئینی ساکھ کو مضبوط کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ رولز ف ل کورٹ کورٹ کے

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کا اجلاس، کراچی برانچ رجسٹری کے ماسٹر پلان کی منظوری
  • وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے قتل کے مجرم سجاد کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی