تعلیم ، نوجوان اور انتہا پسندی
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
پاکستانی معاشرہ اعتدال پسندی اور ایک دوسرے کے مختلف خیالات، سوچ ،فکر اور عقیدہ کے تناظر میں عدم قبولیت یا عدم برداشت کے سنجیدہ بحران سے گزر رہا ہے ۔نوجوان چاہے وہ خواندہ یا ناخواندہ ہو، وہ شہری ہو یا دیہاتی یا وہ بڑے شہروں یا چھوٹے شہروں یا قصبوں سے ہو ، ان کے مزاج میں ایک دوسرے کے بارے میں غصہ اور پرتشدد رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ اگر بچے اور بچیاں تعلیم یافتہ ہوں تو وہ عدم برداشت کے مقابلے میں اعتدال پسندی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھتے ہیں۔
کیونکہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم انسان کے سماجی، سیاسی، مذہبی اور اخلاقی شعور کو بیدار کرتی ہے اور یہ ہی فرق تعلیم حاصل کرنے والے اور نہ حاصل کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔لیکن ایسے لگتاہے کہ ہمارا پرائمری سے اعلی تعلیم یعنی ہائر ایجوکیشن تک تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان اپنی بنیادی ذمے داری ادا کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے ۔ کیونکہ جو تحقیق کے ادارے ہیں ان کے مطابق انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات ہم زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ یا تو انفرادی سطح پر پرتشدد رجحانات اختیار کرتے ہیں یا وہ کسی گروہ کے ساتھ مل کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ محض مذہبی انتہا پسندی تک محدود نہیں بلکہ اب سیاسی ،علاقائی ،لسانی بنیادوں پر بھی ہمیں نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ہماری جامعات کی سطح پر مختلف نوجوانوں کے گروپ جو ایک دوسرے سے زبان،کلچر ،سماج اور علاقے کی بنیاد پر مختلف ہوتے ہیں ان میں مختلف طرزکے ٹکراؤ اور تقسیم نظر آتی ہے جو آگے جاکر پرتشدد عمل کا حصہ بن جاتی ہے۔
اسی طرح اس مسئلہ کو محض تعلیمی اداروں کی حد تک دیکھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی محض ان کو قصور وار کہا جاسکتا ہے۔ ہمارا حکمرانی کا نظام، حکمرانوں کے ذاتی مفادات، عدم انصاف، معاشی روزگار کے مواقع ،غربت اور پس ماندگی جیسے مسائل بھی نئی نسل میں حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔ جو لوگ انتہاپسندی یا دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ بنتے ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد پس ماندہ علاقوںسے تعلق رکھتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل یا محرومیوں کی وجہ یہ حکومتی نظام ہے اور اسی بنیاد پر اس کو چیلنج کیا جاتا ہے۔
جس بھی سماج میں مکالمہ،بات چیت اور مختلف طبقات میںمل بیٹھنے کا رواج ختم ہوگا یا جہاں متبادل سوچ پر پابندی ہوگی وہاں بھی انتہا پسندی کو فروغ ملتاہے ۔ہم ہمیشہ تعلیمی نظام کو تو چیلنج کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے مگر اپنی اس تنقید میں ہمیں حکمرانی کے نظام کے دوہرے معیارات اور تضادات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ ہماری قومی بحث کا حصہ ہونا چاہیے کہ وہ آخر کونسی وجوہات ہیں چاہے ان کا تعلق تعلیمی نظام سے ہو یا حکومت کے نظام سے ، اسے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔اسی بنیاد پر ہم انتہا پسندی یا پرتشدد رجحانات کا علاج تلاش کرسکتے ہیں۔ ملک کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں پندرہ برس سے پینتیس یا چالیس برس پر مشتمل ہے۔ ہم نئی نسل پر انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات کا الزام تو دیتے ہیں مگر یہ کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ ان نوجوانوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں اورحکمرانی کے نظام سے کس طرز کی ناراضگی یا تحفظات ہیں۔
ہمارے تعلیمی اور حکمرانی کے نظام میں آپس میں نہ توکوئی رابطہ کاری ہے اور نہ ہی ان میں کوئی ایسا علمی و فکری میکنزم ہے جس میں دونوں فریق مل کر مسائل کا حل تلاش کریں ۔ایسے لگتا ہے کہ حکمرانی کا نظام ایک طرف اور دوسری طرف تعلیمی اداروں کا نظام ہے اور ان میں مل کر کام کرنے کے عمل کا نہ ہونا بھی ہمارے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح یہ بات کافی حد تک بجا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی سطح پر بھی انتہا پسندی، پرتشدد رجحانات اور عدم برداشت کے مسائل پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی۔
تعلیم اور تعلیمی اداروں کا مقصد محض ڈگری تک محدود نہیں بلکہ ریاست اور سماج سے جڑے مسائل کے حل میںاس کے انفرادی کردار پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔بالخصوص سوک ایجوکیشن پر مبنی تعلیم کے فقدان نے اچھے شہری پیدا کرنے کے عمل کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اس میں یقینی طورپر تعلیمی پالیسی ، تعلیمی ماہرین اور تعلیمی اداروں کی بھی ذمے داری ہے جو آج بھی روائتی تعلیمی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ خود حکومت کی اپنی بھی تعلیمی ترجیحات کیا ہیں اور تعلیم پر کتنی بڑی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔جب تک حکمران طبقات جدیدیت پر مبنی تعلیمی حکمت عملی اختیار نہیں کریں گے تب تک تعلیم اور سماج کا باہمی تعلق کبھی مضبوط نہیں ہوسکے گا۔یہ جو طاقت کے زور پر نئی نسل کی آوازوں کو دبانے کی کوشش جاری رہے گی تو حکومت اور نئی نسل میں خلیج کا پہلو نمایاں رہے گا اور ہم کسی بھی طور پر بہتری کا راستہ تلاش نہیں کرسکیں گے۔
یہ جو سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم آپ کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کے نئے امکانات کو پیدا کرتی ہے اس کا عملی مظاہرہ ہم حکومت کے نظام میں نہیں دیکھ رہے۔ہماری مڈل اور لوئر مڈل کلاس پڑھی لکھی نسل اس وقت سب سے زیادہ معاشی عدم روزگار ، معاشی عدم تحفظ کا شکار ہو کر ملک بھی چھوڑ رہی ہے۔
حکومت سے جڑے لوگ اس عمل کو برین ڈرین کی بجائے برین ایکسپورٹ کہہ رہے ہیں ۔لیکن برین ایکسپورٹ اسے کہتے ہیں جب حکومت اپنی پالیسیوں کی بنیاد پر باہر کی دنیا میں نئی نسل کے لیے مواقع پیدا کرتی ہے ۔لیکن جہاں نئی نسل حکومتی نظام سے مایوس ہوکر ملک سے ہجرت کررہی ہے اور اس کے پیچھے مایوسی اور معاشی عدم تحفظ ہے تو اسے برین ڈرین ہی کہا جاتا ہے۔ یعنی جب ہم مخصوص طبقات کے لیے مختلف نوعیت کے مواقع پیدا کرتے ہیں اور ایک بڑے یا کمزور طبقے کے لیے مواقع پیدا نہیں کریں گے تو سماج میں انتہا پسندی سمیت بہت سے تفریق کے پہلو پیدا ہوں گے۔جہاں ہم حکومت کے نظام کو طبقاتی بنیاد پر چلانے کی جو کوشش کررہے ہیں اس سے سماج میں تفریق کے پہلو بڑھ رہے ہیں جو معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کے پہلو کو کمزور کرتا ہے۔
جب لوگوں کو نظر آتا ہے کہ اس نظام میں ہمارا کوئی حصہ نہیں اور یہ نظام کمزور طبقات کی بجائے طاقت ور افراد کے ساتھ ہے تو ان میں باغیانہ مزاج جنم لیتا ہے۔ انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات جنم لیتے ہیں ۔ا ول لوگوں میں کسی بھی عمل کے بارے میں تحفظات یا مختلف رائے پائی جاتی ہے۔دوئم جب ریاست یا حکومت کا نظام ان تحفظات پر اپناکردار ادا نہیں کرتا تو اس کے نتیجے میں لوگوں میں ریاستی و حکومتی نظام پر تعصب یا غصہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے حکمران طبقات حالات کی نزاکت کا احساس کریں اور سمجھیں کہ پاکستان میں نئی نسل کے مسائل کیا ہیںاور انھیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے ۔اس میں تعلیم اور تعلیمی ادارے ایک بڑی کنجی کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکمرانی کے نظام پرتشدد رجحانات تعلیمی اداروں انتہا پسندی پسندی اور اور تعلیم بنیاد پر جاتا ہے رہے ہیں ہیں اور کا نظام ہے اور کے لیے کا حصہ اور پر
پڑھیں:
ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-4
معوذ اسد صدیقی
ممکن ہے ممدانی منافقت کر رہے ہوں، یا جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں اس پر خود پورا یقین نہ رکھتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ کو عملی جامہ پہنانا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ ممکن ہے کہ شور دریا میں ہو اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نیویارک کے ناکام ترین میئر ثابت ہوں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج وہ مقبولیت کا دوسرا نام بن چکے ہیں۔ بلکہ دنیا کے مقبول سیاستدانوں میں ان کا شمار ہونے لگا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کئی روز تک اس مقبولیت کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہا۔ 31 سالہ رکن اسمبلی ممدانی کو مختلف مواقع پر خطاب کرتے دیکھا، تو ہمیشہ ایک سنجیدہ، باشعور اور باوقار انداز نمایاں نظر آیا۔ خاص طور پر جب بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے، ظہران ممدانی نے اپنی سیاسی حیثیت کی پروا کیے بغیر کھل کر اسرائیل کے جرائم کے خلاف آواز بلند کی۔ اْس وقت بہت کم لوگوں نے ان کے اس جرأت مندانہ مؤقف پر توجہ دی۔
مجھے بخوبی یاد ہے کہ ایک موقع پر ان کے حلقے کی ایک مسجد میں ہمیں اسکول بیگ تقسیم کرنے تھے۔ میں نے اس سلسلے میں ممدانی کے دفتر سے رابطہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ بھی اس مہم میں شریک ہوں۔ وہ فوراً رضامند ہوگئے۔ لیکن جب میں نے مسجد کی انتظامیہ کو بتایا کہ میں ظہران ممدانی کو مدعو کر رہا ہوں، تو ابتدا میں اْنہوں نے کچھ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ ممدانی کے چند خیالات مین اسٹریم مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ میں اْن سے بات کر چکا ہوں۔ میں انہیں ذاتی طور پر دعوت دے چکا ہوں، اور دوسرا یہ کہ فلسطین کے مسئلے پر اْن کا مؤقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔
آخرکار، مسجد کی انتظامیہ نے وسعت ِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اْن کا خیرمقدم کیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اْس وقت بہت کم لوگ اْنہیں پہچانتے تھے، حالانکہ وہ اسی علاقے کے منتخب نمائندہ تھے۔ ہم دونوں نے مل کر اسکول بیگ تقسیم کیے، اور اْس لمحے کوئی خاص ہجوم یا میڈیا کی توجہ نہیں تھی۔ ان سے میری ملاقات مسجدوں، مسلم کمیونٹی کے اجتماعات کے علاوہ کہیں نہیں ہوئی اس لیے سوچتا رہا کہ ان کی مقبولیت کی بنیاد صرف مسلمان ہونا، سوشلسٹ ہونا، پرکشش شخصیت یا خوبصورت مسکراہٹ نہیں ہے۔ مگر گزشتہ روز کے جلسے نے میری تمام سابقہ تشریحات بدل دیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ میرے گھر سے صرف دو میل دور جس اسٹیڈیم میں خطاب کرنے جا رہے تھے وہ بہت بڑا نہ ہوگا؛ کیونکہ میں بھی کبھی وہاں نہیں گیا تھا۔ مگر جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ درحقیقت تیرہ ہزار افراد گنجائش رکھنے والا اسٹیڈیم تھا۔ دیکھا کہ لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں آرہے ہیں ہزاروں لوگ داخل ہونے سے قاصر رہ گئے۔ جلسے میں جانے سے قبل میرا خیال تھا کہ وہاں شرکاء کی اکثریت بنگلا دیشیوں پر مشتمل ہوگی، اس کے بعد پاکستانی، پھر گورے، ہسپانوی اور دیگر قومیتوں کے افراد ہوں گے۔ یہ اندازہ اس لیے تھا کہ اس انتخابی مہم میں بنگلا دیشی کمیونٹی نے غیر معمولی طور پر سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو منظر بالکل مختلف تھا۔ توقعات کے برعکس، سامعین میں نسل، رنگ اور قومیت کا ایسا حسین امتزاج تھا جو نیویارک کے بدلتے سیاسی مزاج کا آئینہ دار تھا۔ جلسے میں خطاب کے لیے گورنر ہوگو اور اسپیکر کارل یسٹی کی طرح کی روایتی سیاسی شخصیات بھی تھیں، مگر جب انہوں نے خطاب کیا تو سامعین نے ان کا خیرمقدم نہیں کیا؛ ان کے نعروں سے بڑھ کر ایک ہی صدا بلند ہوئی: ’’امیروں پر ٹیکس لاؤ‘‘۔
یہ منظر واضح کر گیا کہ ممدانی کی مقبولیت خود ممدانی کی نہیں؛ بلکہ اس نظام کے خلاف ایک اجتماعی نفرت، ایک ناخوشگوار بے چینی ہے۔ ہم جیسے بہت سے مہاجرین اور وہ لوگ جو ماضی میں نسبتاً کم توقعات کے ساتھ یہاں آئے تھے، معمولی بہتری پر خوش ہوجاتے ہیں؛ مگر جن نوجوانوں نے یہاں جنم لیا، جنہوں نے خواب دیکھے، ان کی زندگی مشکلات میں پھنستی جا رہی ہے۔ مہنگائی، روزگار کے مسائل، بے بسی، درمیانی طبقے کا خاتمہ اور امیروں کا مزید امیر بننا یہ وہ کیفیات ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو ناراض کیا ہے۔ یہ غم و غصہ اور بے چینی زبانی شکل میں ظہران ممدانی کے نعروں کے ذریعے نمودار ہوئی۔ وہ تبدیلی کا نعرہ دے رہے ہیں۔ ایسا نعرہ جو نسل، مذہب اور رنگ سے بالاتر ہو کر لوگوں کو متحد کر رہا ہے۔ نوجوان ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے ورکرز کے ساتھ کھڑے ہیں اور روایتی سیاست دان پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایتی پارٹی لیڈرز مجبور ہو کر ممدانی کی حمایت کرنے پر راغب ہوئے یا انہیں انڈورس نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ مقابلے کا خدشہ لاحق ہوا۔
یہ معاملہ مسلمانوں یا سوشلسٹس کا نہیں؛ معاملہ تبدیلی کا ہے۔ اس تبدیلی کا جو امتیازی، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ ایسا رجحان ہم نے دنیا کے مختلف حصوں میں بھی دیکھا ہے۔ نوجوان نسل کی بغاوت، مطالباتِ انصاف اور نظام سے ناپسندیدگی۔ شاید یہ وہی جذبہ ہے جس نے کہیں یا دیگر مقبول تحریکوں کو جنم دیا، نعرہ دیا گیا اور لوگوں نے اس نعرے کے پیچھے کھڑا ہونا شروع کر دیا۔ یقینا اس راستے میں مشکلات اور غیر یقینی کا پہلو موجود ہے۔ انتخابات میں کامیابی بسا اوقات ایک آزمائش بنتی ہے اور ناکامی بھی سامنے آ سکتی ہے۔ آنے والا وقت سخت بھی ہو سکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ مگر فی الحال حقیقت یہی ہے کہ لوگ نظام سے نالاں ہیں اور ممدانی نے اْن جذبات کو زبان دی ہے۔ یہ جنگ مذہب یا نظریے کی نہیں؛ یہ ایک سماجی و اقتصادی تبدیلی کی جنگ ہے اور اس میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔