Express News:
2025-11-05@02:48:25 GMT

تعلیم ، نوجوان اور انتہا پسندی

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

پاکستانی معاشرہ اعتدال پسندی اور ایک دوسرے کے مختلف خیالات، سوچ ،فکر اور عقیدہ کے تناظر میں عدم قبولیت یا عدم برداشت کے سنجیدہ بحران سے گزر رہا ہے ۔نوجوان چاہے وہ خواندہ یا ناخواندہ ہو، وہ شہری ہو یا دیہاتی یا وہ بڑے شہروں یا چھوٹے شہروں یا قصبوں سے ہو ، ان کے مزاج میں ایک دوسرے کے بارے میں غصہ اور پرتشدد رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ اگر بچے اور بچیاں تعلیم یافتہ ہوں تو وہ عدم برداشت کے مقابلے میں اعتدال پسندی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھتے ہیں۔

کیونکہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم انسان کے سماجی، سیاسی، مذہبی اور اخلاقی شعور کو بیدار کرتی ہے اور یہ ہی فرق تعلیم حاصل کرنے والے اور نہ حاصل کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔لیکن ایسے لگتاہے کہ ہمارا پرائمری سے اعلی تعلیم یعنی ہائر ایجوکیشن تک تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان اپنی بنیادی ذمے داری ادا کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے ۔ کیونکہ جو تحقیق کے ادارے ہیں ان کے مطابق انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات ہم زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوانوں میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ یا تو انفرادی سطح پر پرتشدد رجحانات اختیار کرتے ہیں یا وہ کسی گروہ کے ساتھ مل کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔

یہ مسئلہ محض مذہبی انتہا پسندی تک محدود نہیں بلکہ اب سیاسی ،علاقائی ،لسانی بنیادوں پر بھی ہمیں نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ہماری جامعات کی سطح پر مختلف نوجوانوں کے گروپ جو ایک دوسرے سے زبان،کلچر ،سماج اور علاقے کی بنیاد پر مختلف ہوتے ہیں ان میں مختلف طرزکے ٹکراؤ اور تقسیم نظر آتی ہے جو آگے جاکر پرتشدد عمل کا حصہ بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس مسئلہ کو محض تعلیمی اداروں کی حد تک دیکھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی محض ان کو قصور وار کہا جاسکتا ہے۔ ہمارا حکمرانی کا نظام، حکمرانوں کے ذاتی مفادات، عدم انصاف، معاشی روزگار کے مواقع ،غربت اور پس ماندگی جیسے مسائل بھی نئی نسل میں حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔ جو لوگ انتہاپسندی یا دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ بنتے ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد پس ماندہ علاقوںسے تعلق رکھتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل یا محرومیوں کی وجہ یہ حکومتی نظام ہے اور اسی بنیاد پر اس کو چیلنج کیا جاتا ہے۔

جس بھی سماج میں مکالمہ،بات چیت اور مختلف طبقات میںمل بیٹھنے کا رواج ختم ہوگا یا جہاں متبادل سوچ پر پابندی ہوگی وہاں بھی انتہا پسندی کو فروغ ملتاہے ۔ہم ہمیشہ تعلیمی نظام کو تو چیلنج کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے مگر اپنی اس تنقید میں ہمیں حکمرانی کے نظام کے دوہرے معیارات اور تضادات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

یہ ہماری قومی بحث کا حصہ ہونا چاہیے کہ وہ آخر کونسی وجوہات ہیں چاہے ان کا تعلق تعلیمی نظام سے ہو یا حکومت کے نظام سے ، اسے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔اسی بنیاد پر ہم انتہا پسندی یا پرتشدد رجحانات کا علاج تلاش کرسکتے ہیں۔ ملک کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں پندرہ برس سے پینتیس یا چالیس برس پر مشتمل ہے۔ ہم نئی نسل پر انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات کا الزام تو دیتے ہیں مگر یہ کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ ان نوجوانوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں اورحکمرانی کے نظام سے کس طرز کی ناراضگی یا تحفظات ہیں۔

 ہمارے تعلیمی اور حکمرانی کے نظام میں آپس میں نہ توکوئی رابطہ کاری ہے اور نہ ہی ان میں کوئی ایسا علمی و فکری میکنزم ہے جس میں دونوں فریق مل کر مسائل کا حل تلاش کریں ۔ایسے لگتا ہے کہ حکمرانی کا نظام ایک طرف اور دوسری طرف تعلیمی اداروں کا نظام ہے اور ان میں مل کر کام کرنے کے عمل کا نہ ہونا بھی ہمارے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ اسی طرح یہ بات کافی حد تک بجا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی سطح پر بھی انتہا پسندی،  پرتشدد رجحانات اور عدم برداشت کے مسائل پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی۔

تعلیم اور تعلیمی اداروں کا مقصد محض ڈگری تک محدود نہیں بلکہ ریاست اور سماج سے جڑے مسائل کے حل میںاس کے انفرادی کردار پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔بالخصوص سوک ایجوکیشن پر مبنی تعلیم کے فقدان نے اچھے شہری پیدا کرنے کے عمل کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اس میں یقینی طورپر تعلیمی پالیسی ، تعلیمی ماہرین اور تعلیمی اداروں کی بھی ذمے داری ہے جو آج بھی روائتی تعلیمی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ خود حکومت کی اپنی بھی تعلیمی ترجیحات کیا ہیں اور تعلیم پر کتنی بڑی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔جب تک حکمران طبقات جدیدیت پر مبنی تعلیمی حکمت عملی اختیار نہیں کریں گے تب تک تعلیم اور سماج کا باہمی تعلق کبھی مضبوط نہیں ہوسکے گا۔یہ جو طاقت کے زور پر نئی نسل کی آوازوں کو دبانے کی کوشش جاری رہے گی تو حکومت اور نئی نسل میں خلیج کا پہلو نمایاں رہے گا اور ہم کسی بھی طور پر بہتری کا راستہ تلاش نہیں کرسکیں گے۔

یہ جو سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم آپ کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کے نئے امکانات کو پیدا کرتی ہے اس کا عملی مظاہرہ ہم حکومت کے نظام میں نہیں دیکھ رہے۔ہماری مڈل اور لوئر مڈل کلاس پڑھی لکھی نسل اس وقت سب سے زیادہ معاشی عدم روزگار ، معاشی عدم تحفظ کا شکار ہو کر ملک بھی چھوڑ رہی ہے۔

حکومت سے جڑے لوگ اس عمل کو برین ڈرین کی بجائے برین ایکسپورٹ کہہ رہے ہیں ۔لیکن برین ایکسپورٹ اسے کہتے ہیں جب حکومت اپنی پالیسیوں کی بنیاد پر باہر کی دنیا میں نئی نسل کے لیے مواقع پیدا کرتی ہے ۔لیکن جہاں نئی نسل حکومتی نظام سے مایوس ہوکر ملک سے ہجرت کررہی ہے اور اس کے پیچھے مایوسی اور معاشی عدم تحفظ ہے تو اسے برین ڈرین ہی کہا جاتا ہے۔ یعنی جب ہم مخصوص طبقات کے لیے مختلف نوعیت کے مواقع پیدا کرتے ہیں اور ایک بڑے یا کمزور طبقے کے لیے مواقع پیدا نہیں کریں گے تو سماج میں انتہا پسندی سمیت بہت سے تفریق کے پہلو پیدا ہوں گے۔جہاں ہم حکومت کے نظام کو طبقاتی بنیاد پر چلانے کی جو کوشش کررہے ہیں اس سے سماج میں تفریق کے پہلو بڑھ رہے ہیں جو معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کے پہلو کو کمزور کرتا ہے۔

جب لوگوں کو نظر آتا ہے کہ اس نظام میں ہمارا کوئی حصہ نہیں اور یہ نظام کمزور طبقات کی بجائے طاقت ور افراد کے ساتھ ہے تو ان میں باغیانہ مزاج جنم لیتا ہے۔ انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات جنم لیتے ہیں ۔ا ول لوگوں میں کسی بھی عمل کے بارے میں تحفظات یا مختلف رائے پائی جاتی ہے۔دوئم جب ریاست یا حکومت کا نظام ان تحفظات پر اپناکردار ادا نہیں کرتا تو اس کے نتیجے میں لوگوں میں ریاستی و حکومتی نظام پر تعصب یا غصہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے حکمران طبقات حالات کی نزاکت کا احساس کریں اور سمجھیں کہ پاکستان میں نئی نسل کے مسائل کیا ہیںاور انھیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے ۔اس میں تعلیم اور تعلیمی ادارے ایک بڑی کنجی کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حکمرانی کے نظام پرتشدد رجحانات تعلیمی اداروں انتہا پسندی پسندی اور اور تعلیم بنیاد پر جاتا ہے رہے ہیں ہیں اور کا نظام ہے اور کے لیے کا حصہ اور پر

پڑھیں:

کراچی: ٹریکس نظام سے قبل اونرشپ کا مسئلہ  حل نہیں کیا گیا، چالان گاڑیوں کے سابق مالکان کو ملے گا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی میں ٹرانسفر آف اونر شپ کا مسئلہ ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) کے نفاذ کی راہ میں ایک بڑی تکنیکی رکاوٹ بن گیا ہے۔

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شہر میں سیکڑوں گاڑیاں ایسی ہیں جو اصل مالکان نے فروخت کر دی ہیں لیکن خریداروں نے انہیں اپنے نام پر رجسٹرڈ نہیں کرایا ہے اور اب چونکہ ای چالان گاڑی کے رجسٹرڈ مالک کے پتے پر بھیجا جائے گا، اس لیے خلاف ورزی کا مرتکب کوئی اور ہوگا اور جرمانہ سابق مالک کو ادا کرنا پڑے گا۔

سماجی رہنماؤں نے نشاندہی کی ہے کہ جب تک حکومت گاڑیاں ہر شخص کے نام پر منتقل کرنے کا نظام مؤثر نہیں بناتی، ای چالان کا یہ نظام بری طرح ناکام ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خریدار اور فروخت کنندہ صرف سیل پرچیز رسید پر سودا کرتے ہیں اور ای چالان سے بچنے کا یہ راستہ خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے سے بچا لے گا۔

شہریوں نے بھی  اس صورتحال کو افراتفری کا باعث قرار دیا ہے کیوں کہ سابق مالک کے لیے نئے خریدار کو تلاش کرنا ایک ناممکن عمل ہوگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ای چالان کے نفاذ کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد گاڑیوں کو اپنے نام پر رجسٹرڈ کرانے کے لیے محکمے سے رجوع کر رہی ہے، مگر مسئلہ اب بھی بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • کھپرو میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ،شہری پریشان
  • حکومت تعلیم کے شعبے میں بہتر اقدامات کررہی ہے، ندیم الرحمن میمن
  • شک و شبہ نہیں ملک میں جبر کا نظام نافذ ہے، مصطفیٰ نواز کھوکھر
  • ہندو انتہا پسند: اسلامی تاریخ سے وابستہ ’دہلی‘ کا نام بدلنے کی تیاری
  • ڈمپر حادثے میں نوجوان کی ہلاکت کا مقدمہ درج، ایسوسی ایشن کے سربراہ  کی سپر ہائی وے بند کرنے کی دھمکی
  • کراچی: ٹریکس نظام سے قبل اونرشپ کا مسئلہ  حل نہیں کیا گیا، چالان گاڑیوں کے سابق مالکان کو ملے گا
  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • اصول پسندی کے پیکر، شفیق غوری کی رحلت
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ