بڑھتی عمر میں طلاق: بالغ بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
طلاق کا رجحان بڑھتی عمر کے افراد میں تیزی سے بڑھ رہا ہے اور محققین اب اس کے بالغ بچوں پر گہرے اثرات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ مسئلہ دنیا بھر میں ہے تاہم اس حوالے سے ایک مثال دیتے ہوئے بیان کیا گیا کہ امریکا میں نوجوانوں کے مقابلے میں درمیانی عمر اور بزرگ افراد میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ آج کل تقریباً 36 فیصد طلاقیں 50 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں ہوتی ہیں، جنہیں ’گرے ڈائیوورس‘ یعنی بڑھاپے میں طلاق کہا جاتا ہے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ لوگ اپنی زندگی میں زیادہ معیار چاہتے ہیں اور غیر مطمئن ازدواجی زندگی کو سہنے کے بجائے الگ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ رجحان صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں بڑھتی عمر کی آبادیوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے جیسے کوریا اور جاپان میں بھی۔
بالغ بچوں پر اثرات: ایک زلزلے کی مانند صدمہاگرچہ بچوں پر طلاق کے اثرات پر بہت تحقیق ہو چکی ہے مگر بالغ بچوں پر اس کے گہرے جذباتی اثرات پر توجہ کم دی گئی تھی۔ تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ بالغ بچوں کو بھی والدین کی طلاق سے شدید صدمہ اور مایوسی ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: ڈی ایل ڈی ایک چھپی ہوئی بیماری جو 10 فیصد بچوں میں ہوتی ہے، حل کیا ہے؟
شادی اور فیملی تھراپسٹ کیروول ہیوز کہتی ہیں کہ بالغ بچے اکثر کہتے ہیں کہ والدین کی طلاق سے ان کی دنیا ہی لرز گئی ہے اور وہ اپنے خاندانی نظام کی بنیاد کھو بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ بالغ بچوں نے تو اپنے ذاتی تعلقات ختم کر دیے یا اپنی شناخت پر سوال اٹھائے۔
والدین کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگیاںطلاق کے بعد بالغ بچے اکثر ایک طرفداری کی کیفیت میں پھنس جاتے ہیں اور جذباتی یا قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔ خاص طور پر بیٹیاں جذباتی مدد میں زیادہ ملوث ہوتی ہیں۔
والدین کی جانب سے ذاتی معاملات جیسے تعلقات کے مشورے طلب کرنا بالغ بچوں کے لیے ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔
والدوں کا سماجی تنہائی کا شکار ہونامطالعے سے پتا چلا ہے کہ خواتین عام طور پر خاندان کی سماجی زندگی کو سنبھالتی ہیں اور طلاق کے بعد مرد اکثر سماجی تنہائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
طلاق کے بعد والدین سے بچوں کے تعلقات میں بھی تبدیلی آتی ہے خصوصاً والدوں کے ساتھ تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں۔
ایک جرمن تحقیق کے مطابق طلاق کے بعد بالغ بچے اپنی ماں کے قریب تر ہو جاتے ہیں اور والد سے فاصلہ بڑھ جاتا ہے جس سے والد سماجی تنہائی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: اگر آپ کو بھی پڑوس کا شور بہت پریشان کرتا ہے تو یہ خبر آپ کے لیے ہے؟
بڑھتی عمر میں طلاق بالغ بچوں کے لیے بھی ایک مشکل اور جذباتی تجربہ ہے جو ان کے اپنے رشتوں اور ذہنی سکون پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے خاندانوں کو سمجھداری اور تعاون کے ساتھ اس تبدیلی کا سامنا کرنا چاہیے تاکہ ہر فرد کی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بڑھاپے میں طلاق بڑی عمر میں طلاق گرے ڈائیوورس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بڑی عمر میں طلاق بالغ بچوں پر طلاق کے بعد بڑھتی عمر میں طلاق جاتے ہیں کے ساتھ ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر سے آئینی ترمیم کی باتیں ہورہی ہیں، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے کا اختیار، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر ڈیڈلاک ختم کرنا ہے۔
’وی نیوز‘ نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی ترمیم کے ذریعے کون سے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق سربراہ حسن رضا پاشا نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے عدلیہ سے متعلق مجوزہ حکومتی اقدامات پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا اور کہاکہ اطلاعات کے مطابق حکومت ایگزیکٹو مجسٹریٹس کا نظام دوبارہ متعارف کرانے جا رہی ہے جو ماضی میں ختم کیے جا چکے تھے۔
انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین کے تحت عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ رکھا گیا تھا تاکہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار حیثیت میں کام کر سکے، لیکن اب اگر حکومت ان حدود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی تصور ہوگا۔
حسن رضا پاشا نے کہاکہ اگر کسی نئے قانون کے تحت حکومت کو عدالتی ٹرائل یا جوڈیشل امور میں براہِ راست مداخلت کا اختیار دیا گیا تو یہ نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اس سے عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ججز کی تقرری، تبادلوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے آئین میں پہلے سے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی باہمی مشاورت سے ہی کسی جج کا تبادلہ یا تقرری ممکن ہے۔
’اگر حکومت اس میں ترمیم کرکے جج کی مرضی یا رضامندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو یہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ججز کے تبادلوں کے چند معاملات، جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کو لاہور ہائیکورٹ میں بھیجنے اور دیگر صوبوں سے ججز کی تعیناتی کے فیصلے پہلے ہی بار اور عدلیہ کے درمیان بحث کا باعث بنے ہیں، ایسے میں کسی بھی ترمیم سے مزید تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔
حسن رضا پاشا نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ دیگر سرکاری محکموں کی طرح ایک معمول کی انتظامی کارروائی ہو سکتی ہے، لیکن عدلیہ کے حساس کردار کے پیش نظر اس میں شفافیت، میرٹ اور جج کی رضامندی لازمی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ کسی جج کو محض ناپسندیدگی یا ذاتی اختلاف کی بنیاد پر ہٹانا یا تبدیل کرنا عدالتی آزادی کے منافی ہوگا۔
انہوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت کو ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے تاکہ ججز کی تعیناتی یا تبادلوں کے عمل میں کسی قسم کی جانبداری یا سیاسی اثر و رسوخ شامل نہ ہو۔
ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیاکہ اگر ججوں کی رضامندی کا اصول ختم کر دیا گیا تو عدلیہ میں عدم تحفظ اور بے چینی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ عدلیہ کو سیاست یا انتقامی عمل سے دور رکھا جائے، کیونکہ یہ ادارہ ریاست کا ستون ہے اور اس کی غیرجانبداری ہی جمہوریت اور انصاف کے نظام کی بنیاد ہے۔
سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کی بیان کردہ مجوزہ آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلوں کا اختیار اور آرٹیکل 243 میں ترمیم جیسی تجاویز شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ تجاویز بظاہر اصلاحات کا لبادہ رکھتی ہیں مگر ان کے اثرات عدلیہ کی آزادی اور آئینی توازن پر انتہائی خطرناک ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اس نظام کی واپسی ہے جس میں انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود خلط ملط ہو جاتی تھیں۔ ججوں کے تبادلے کا اختیار کسی غیر عدالتی اتھارٹی کو دینا ناقابلِ قبول ہے۔ ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔
عمران شفیق نے کہاکہ آئینی عدالت دراصل سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی ایک غیر ضروری توسیع ہے، جو عدلیہ کے اندر تقسیم اور دباؤ پیدا کرے گی۔ ایسی عدالت عدلیہ کے چند ارکان کو خصوصی مراعات دے کر باقی ججوں سے الگ حیثیت دینے کے مترادف ہے، جو ایک طرح کی ادارہ جاتی رشوت اور داخلی تقسیم ہے۔
مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ
انہوں نے کہاکہ آئین میں کسی بھی ترمیم کا مقصد اداروں کو مضبوط بنانا ہونا چاہیے، ان کی حدود کمزور کرنا نہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہ آئینی ہو سکتا ہے، نہ جمہوری۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی ترمیم پیپلز پارٹی حسن رضا پاشا حکومت پاکستان مشاورتی عمل وی نیوز