دوحا اجلاس،کھودا پہاڑ نکلی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قطر میں حماس کی قیادت پر حملوں نے عرب ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اعتراض حماس کے لیڈروں کو نشانہ بنانے پر نہیں کیونکہ ماضی میں اسرائیل کئی عرب ملکوں میں فلسطینی راہنماؤں کو مختلف انداز میں نشانہ بناتا رہا ہے معاملہ یہ تھا کہ اسرائیل نے ایک آزاد عرب ملک کی فضائی حدود کیوں پامال کیں۔ یہی وہ نکتہ تھا جو او آئی سی ملکوں کو سرجوڑنے پر مجبور کرنے کا باعث بنا۔ قطر میں امریکی ائر بیسز موجود ہیں۔ قطر کے دفاع کا امریکا ضامن ہے مگر صدر ٹرمپ بہت بھولپن کے ساتھ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اسرائیل نے قطر پر حملے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ملک میں امریکا کے تزویراتی اثاثے مادی اور انسانی شکل میں موجود ہوں اس پر حملہ کرنے سے پہلے اسرائیل امریکا کی رضامندی نہ لے۔ کچھ ایسے ہی بھولپن کا مظاہرہ قطر کے وزیر اعظم نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ ہمیں اسرائیل نے دھوکا دیا۔ اسرائیل اسی طرح عرب ملکوں کو دھوکا دیتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل نے عرب حکمرانوں کو ہمیشہ یہ باور کرایا ہے کہ ان کی جنگ تو دہشت گردوں اور اسرائیل مخالف دہشت گردوں کے خلاف ہے، عرب حکمرانوں سے نہیں۔ پھر یہ نقطہ ایک دائرہ بنا اور کہا گیا ہماری جنگ صدام اور حافظ الاسد جیسے اسرائیل مخالف عربوں سے ہے۔ پھر سنی دنیا کو کہا گیا کہ ہماری جنگ شیعہ ایران سے ہے۔ جب جب اسرائیل نے یہ یقین دلایا سب نے آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا اور خاموشی یا خاموش معاونت سے اسرائیل کے اقدامات کو ایک راہ دی جاتی رہی۔ اب اس آگ شعلے ایسے عرب ملکوں کے دامن کی جانب بھی لپکنے لگے جو بین الاقوامی سسٹم کے احترام میں اسرائیل کے ساتھ خوش گوار تعلقات بھی رکھتے ہیں اور امن کی کوششوں کے لیے سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔
قطر ان ملکوں میں سر فہرست ہے جو امریکا اور طالبان کے درمیان سہولت کاری بھی کرتا ہے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان بھی معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں قطر کی سرزمین پر حماس کی قیادت کو نشانہ بنانا عرب دنیا کے لیے اچنبھے کا باعث تھا۔ شاید اکثر کو یقین ہی نہیں تھا کہ غزہ کے قتل عام میں مصروف اسرائیل کبھی ان کی جانب بھی میلی آنکھ سے دیکھے گا۔ اس سے پہلے مسلم حکمران غزہ کا تماشا دیکھتے رہے۔ وہ رقص بسمل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
غزہ عہد ِ حاضر کی سب سے بڑی قتل گاہ بن چکا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اب تک 65 ہزار افراد جن میں بڑی تعداد میں بچے ہیں شہید ہو چکی ہے۔ ہزاروں لوگ بے خانماں ہو کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ چہار سو ملبے کے ڈھیر ہیں جہاں کبھی پھول کھلتے اب وہاں دھول اْڑتی ہے۔ ایک سو پچاس مقامات کو بمباری سے کھڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یونیسف کے مطابق غزہ میں دس ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ایک سروے میں کہا گیا کہ غزہ میں ہر آٹھ میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد غزہ چھوڑ کو جنوب کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔ غزہ کی اس صورت حال پر فیصلہ سازی پر حاوی دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ اسرائیل غزہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہے اور مسلم حکمرانوں کو یہ محاصرہ توڑنے کی ہمت نہیں ہوسکی۔ حد تو یہ کہ مسلمان حکمرانوں نے اپنی رائے عامہ کو اہل غزہ کی زبانی کلامی حمایت سے بھی روک دیا۔ اس کی وجہ یہ خوف ہے اگر مسلم رائے عامہ میں اسرائیل مخالف جذبات بھڑک اْٹھے تو آگے چل کر یہ اپنے حکمرانوں کی اسرائیل نواز ی یا اسرائیل پروری کے خلاف نفرت کی لہر میں ڈھل سکتے ہیں۔ اس لیے مسلم معاشروں میں جذبات اور احساسات کو ایک حد میں رکھنے میں سب کی بقا ہے۔
مغربی ملکوں میں غزہ کے قتل عام پر احتجاج کی آزادی تھی مگر مسلمان معاشروں میں فلسطین کا جھنڈا لہرانا بھی جرم بنا دیا گیا تھا۔ مسلمان حکمرانوں کی حساسیت کا یہی لٹمس ٹیسٹ تھا کہ وہ اسرائیل کا ہاتھ روکنے یا توڑنے کے لیے کس حدتک جا سکتے ہیں۔ ایسے میں قطر کے اقتدار اعلیٰ کو اسرائیل نے چیلنج کیا تو خیال تھا کہ مسلم حکمران جب سرجوڑ کر بیٹھیں گے تو کئی انقلابی فیصلے کر کے الوداع ہوں گے مگر ہمیشہ کی طرح یہ خواہش بھی ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے انجام سے دوچار ہوگئی۔ مسلم حکمرانوں نے کوئی ٹھوس قدم اْٹھایا نہ ہی اسرائیل کو کوئی مسکت جواب دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ لفظی مذمت سے کام چلا لیا گیا اور یوں یہ اجلاس بھی نشتند گفتند وبرخاستند کا عملی نمونہ قرار پایا۔ ناٹو طرز پر مسلم اتحاد کی باتیں بھی زیر گردش رہیں مگر نتیجہ صفر۔ ماضی میں چھتیس ملکوں کی فوج اور ایک عدد کمانڈر انچیف صاحب کی سرپرستی میں قائم ہوئی تھی۔ اس فوج کا غزہ میں کوئی سراغ نہ ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اسرائیل کا سرپرست ہے۔ مسلم دنیا میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ امریکی اڈے ہیں۔ جہاں باضابطہ اڈے نہیں وہاں بھی دفاعی تعاون یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مضبوط اتحاد قائم ہیں تو ایسے میں مسلم دنیا امریکا کے راج دلارے اور دنیا کے واحد اسٹرٹیجک شراکت دار اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس قدم کیونکر اْٹھا سکتی ہے؟ پہلے اس زنجیر کا کچھ کرنا ہوگا پھر قدم بڑھائے جا سکتے ہیں۔ اس اجلاس پر کسی دل جلے کا یہ تبصرہ خوب رہا کہ کھودا پہاڑ نکلی مذمت۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں اسرائیل اسرائیل نے عرب ملکوں کے خلاف کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جیسے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہونگے، صدرزرداری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-08-32
دوحا (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جیسے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوں گے‘ پاکستان کو اب ایک نئے خطرے کا سامنا ہے جو پانی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کی صورت میں ہے، مخالف فریق کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، تاہم اس طرح کے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوں گے۔ صدر زرداری نے آخر میں فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان مسائل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ دوحا میں منعقدہ ورلڈ سمٹ برائے سماجی ترقی سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ غربت کے تمام مظاہر کو ختم کرنا، مکمل اور بامقصد روزگار کو فروغ دینا اور سب کے لیے باعزت کام کے مواقع فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے‘ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے حوالے سے ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ عالمی ادارے جامع اور جوابدہ ہوں۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان پالیسی سازی میں عوام کو مرکز میں رکھنے کے اپنے عزم پر قائم ہے جب کہ ہمارا جامع اور پائیدار ترقی کا وژن دوحا اعلامیے کی روح کے عین مطابق ہے‘ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) ہماری ترجیحات میں شامل ہیں جب کہ پاکستان کا ہدف شرحِ خواندگی کو 90 فیصد تک بڑھانا اور ہر بچے کو اسکول میں یقینی طور پر داخل کرنا ہے۔ علاوہ ازیں صدرِ مملکت زرداری نے تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے میں ملاقات کی۔ ملاقات دوسری ورلڈ سمٹ برائے سماجی ترقی کے موقع پر دوحا میں ہوئی، اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے آصف زرداری کا کہنا تھا پاکستان تاجکستان کے ساتھ تاریخی، ثقافتی اور لسانی رشتوں پر مبنی تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔