سماجی روایت اور جدید سماجی تقاضے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان میں ’کزن میرج‘ (خاندان میں شادی) ایک ایسی پرانی روایت ہے، جو نسل در نسل جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بن چکی ہے۔
بہت سے خاندان میں اسے سماجی اقدار کے ساتھ جوڑ کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ خاندان اور رشتوں کو جوڑے رکھنے کے نام پر اسے ضروری گردانا جاتا ہے۔ یعنی کہ اس روایت کو نہ صرف خاندانی اتحاد و یگانگت کے ضامن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، بلکہ بعضے خاندانوں میں یہ عقیدہ جڑ پکڑ چکا ہے کہ خاندان سے باہر شادی کرنا نہ صرف غیرت کے خلاف ہے، بلکہ مذہبی و اخلاقی قدروں سے انحراف بھی ہے۔
ایسے تصورات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ خاندان سے باہر شادی کرنے والی خواتین کو ’’گناہ‘‘ بغاوت اور غیرت کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کزن میرج محض ایک معصوم روایت ہے یا اس کے پیچھے طاقت، جائیداد اور سماجی رسوخ کے تحفظ جیسے محرکات بھی پوشیدہ ہیں؟ اور سب سے اہم یہ کہ اس روایت کے اصل بوجھ تلے کون سا طبقہ کچلا جا رہا ہے؟ جواب واضح ہے۔ عورت! اس دباؤ کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر عورت ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی ذاتی خواہشات، جسمانی صحت، نفسیاتی سکون اور سماجی کردار کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
کزن میرج کا رواج جنوبی ایشیا میں محض ایک خاندانی رسم نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی سماجی و معاشی محرکات کارفرما ہیں۔ جیسے کہ زمین اور جائیداد کو خاندان میں رکھنے کے لیے کزن میرج کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس ہی طرح عزت اور غیرت کے تصورات عورت کی شادی کو خاندان کے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ رشتہ داریوں کو مضبوط کرنے کا بیانیہ دراصل خاندان کے مردوں کی طاقت کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں مشترکہ خاندانی نظام اب بھی غالب ہے، وہاں کزن میرج کو عورت کے لیے تقدیر مان لیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تقدیر کے نتیجے میں عورت کی زندگی اکثر ذہنی دباؤ، جسمانی بیماریوں اور نفسیاتی الجھنوں میں الجھ جاتی ہے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ ہر کزن میرج ناکام یا نقصان دہ نہیں ہوتی۔ بعض اوقات قریبی رشتہ داروں کے درمیان رشتہ داری واقعتاً خاندان کو قریب لاتی ہے۔ لڑکی کے لیے اجنبی ماحول میں جانے کے بہ جائے جان پہچان والے ماحول میں رہنا آسان لگتا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ بیٹی کو ایسے ماحول میں بھیجنے سے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بہتر ہوگی، لیکن آج کل کے نفسانفسی کے دور میں یہ مثبت پہلو کبھی کبھی سطحی نظر آنے لگتا ہے اور اصل حقیقت سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ بنتے ہیں، جب آئے دن یہ خبریں ملیں کہ سگی خالہ نے بیٹیوں کے ساتھ مل نے بہو (سگی بھانجی) کی زندگی اجیرن کردی، یا چچا نے بیٹے کے ساتھ مل کربہو (سگی بھتیجی) کو نقصان پہنچایا وغیرہ وغیرہ۔ کیوں کہ ان تمام واقعات میں عملی طور پر زیادہ تر کیسوں میں اس روایت کے نقصان عورت ہی اٹھاتی ہے۔
’کزن میرج‘ کے نتیجے میں عورت پر خاندانی دباؤ دُہرا ہو جاتا ہے۔ ایک طرف اسے ازدواجی تعلقات نبھانے ہوتے ہیں اور دوسری طرف خاندانی جھگڑوں یا جائیداد کے تنازعات میں بھی گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ اگر رشتہ کام یاب نہ ہو تو خاندان کے درمیان تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، جس کا زیادہ تر الزام عورت پر ڈالا جاتا ہے۔ لڑکی سے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق اکثر چھین لیا جاتا ہے، جس کے باعث وہ ذہنی دباؤ اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیق سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ’کزن میرج‘ سے بچوں میں جینیاتی بیماریوں کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ دل سے لے کر اعصابی اور خون کی مختلف بیماریاں اور دیگر موروثی امراض اس کی مثال ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’کزن میرج‘ عورت کو اکثر ایک ایسے دائرے میں قید کر دیتی ہے، جہاں اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔ اگر شوہر دوسری شادی کر لے تو عورت کو خاندان سے باہر نکالنے یا اس کی حیثیت کم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ طلاق کی صورت میں عورت کے لیے خاندان کے اندر اور باہر دونوں جگہ مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عورت کو یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ وہ خاندان کے وقار اور اتحاد کی محافظ ہے، اس لیے اسے ہر حال میں قربانی دینی ہوگی۔
شادی کے رشتے میں اصل زور عورت اور مرد کی رضا، ان کی مرضی اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر ہے۔ بہ حیثیت معاشرہ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے، معاشرے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خواتین تعلیم اور روزگار کے میدان میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ ایسے میں کزن میرج جیسی روایات پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ خواتین آج اپنی پسند اور اپنی شخصیت کے مطابق شریکِ حیات چننا چاہتی ہیں۔ صحت کے اعتبار سے بھی دنیا بھر کے طبی ماہرین نے کزن میرج کے نقصانات پر تحقیق کر کے خبردار کیا ہے۔ عالمی سطح پر عورت کو خود مختاری دینے پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔ تو پھر ہمارے معاشرے میں عورت کی خاندان میں ہی شادی ہونا کیوں کام یابی کی ضامن سمجھی جاتی ہے؟
’کزن میرج‘ کے تناظر میں عورت ایک ایسے پُل کی مانند ہے جو روایت اور جدیدیت کے درمیان ڈول رہا ہے، کیوں کہ روایت کا دباؤ اسے قید رکھتا ہے، جب کہ جدید تعلیم، شعور اور دنیاوی حقائق اسے آزادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس ڈولتی ہوئی حیثیت میں عورت سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہی ہے۔ اس کی ذات کو خاندان کی عزت کا استعارہ بنا دیا گیا ہے، لیکن اس کے حقوق اور خوشی کو ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
کزن میرج کے مسئلے کا حل صرف تنقید میں نہیں، بلکہ عملی اقدامات میں ہے۔ خواتین اور مرد دونوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ شادی کا مقصد خاندان کی جائیداد یا غیرت کو بچانا نہیں، بلکہ دو افراد کی خوشگوار زندگی ہے۔ حکومت کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو شادی جیسے اہم بندھن میں خواتین کی رضا مندی اور ان کی مرضی کو مزید تحفظ فراہم کریں۔ صحت کے حوالے سے ’کزن میرج‘ کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کی آگاہی مہم چلائی جائے، تاکہ لوگ اپنی آئندہ نسل کو بیماریوں سے بچا سکیں۔ خاندان کے بزرگوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جیسے شادی کے لیے مرد کی خوشی اور اس کی مرضی کو نظرانداز کرنا دراصل خاندان کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے بعینہٖ یہ چیز ایک لڑکی کے لیے بھی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ’کزن میرج‘ ایک ایسی روایت ہے، جو بہ ظاہر خاندان کو جوڑنے کے لیے اپنائی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ عورت کو ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل کی بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔ ہم خاندانی رسم و روایات کے باعث اس پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں، لیکن جدید دور کے تقاضے ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق دیے جائیں اسے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایت اور جدیدیت کے درمیان عورت کو معلق رکھنے کے بہ جائے اس کے قدموں کو مضبوط کریں، تاکہ اپنی زندگی کے فیصلے میں اُسے بھی اختیار مل سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے درمیان خاندان کے کو خاندان کرنے کا عورت کو جاتا ہے جاتی ہے سے باہر کے ساتھ ہیں کہ رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
سلیب کا کھیل: بجلی کے بلوں سے پنشن کی کٹوتی تک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں ریاستی پالیسیوں کا سب سے بڑا تضاد ’’سلیب سسٹم‘‘ ہے۔ یہ ایسا جال ہے جس میں عام آدمی اور سرکاری ملازم دونوں پھنستے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے۔ سلیب کے نام پر کبھی بجلی کے بلوں میں عوام سے اضافی پیسے نکلوائے جاتے ہیں اور کبھی ریٹائرڈ ملازمین کی زندگی بھر کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ یوں یہ ایک ایسا دو دھاری ہتھیار ہے جو ہر طرف سے غریب اور ملازم پیشہ طبقے کو زخمی کرتا ہے۔
بجلی کے نظام میں 200 یونٹ کی ایک مصنوعی لکیر کھینچی گئی ہے۔ عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس حد تک رعایتی نرخ ملیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی کسی صارف کا بل 201 یونٹ پر پہنچتا ہے تو رعایت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ پورے یونٹس مہنگے ہو جاتے ہیں اور ایک یونٹ کا فرق ہزاروں روپے کے اضافے میں بدل جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سلیب ’’ریلیف‘‘ کے بجائے ’’سزا‘‘ بن جاتا ہے۔
غریب مزدور جس کا گھر پہلے ہی مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے، ایک یونٹ زیادہ خرچ کرنے کی پاداش میں پانچ چھ ہزار روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسان جس کی فصلیں ڈیزل اور بجلی کے اخراجات سے تباہ ہو چکی ہیں، وہ بھی اس پھندے میں پھنس جاتا ہے۔ کلرک، استاد اور ریٹائرڈ بزرگ شہری سب کے سب اس سسٹم کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو نہ عوام کی مجبوری کا احساس ہے نہ انصاف کی پرواہ۔ ان کے نزدیک یہ صرف اعداد و شمار کا کھیل ہے، لیکن حقیقت میں یہ لاکھوں گھروں کا چولہا بجھا دیتا ہے۔
یہ سلیب صرف بجلی کے بلوں تک محدود نہیں بلکہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور ریٹائرمنٹ بینیفٹس پر بھی اسی کا اطلاق ہوتا ہے۔ جب کوئی ملازم 3 دہائیاں خدمت کے بعد ریٹائر ہوتا ہے تو وہ اپنے بڑھاپے کی آس اُمید کے ساتھ گریجویٹی اور لیواِن کیشمنٹ کا منتظر ہوتا ہے۔ مگر جب حساب لگایا جاتا ہے تو سلیب کا ہتھیار اس کی جمع پونجی کو کاٹ ڈالتا ہے۔ مختلف سلیب لاگو کر کے اس کی گریجویٹی کم کر دی جاتی ہے اور بعض صورتوں میں لیواِن کیشمنٹ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔
یہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ ایک شخص جس نے 30سال تک محنت، مشقت اور قربانی سے اپنے ادارے کی خدمت کی ہو، اس کے بڑھاپے کا سہارا اس طرح چھین لیا جائے تو یہ سراسر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ریٹائرڈ ملازم کے خواب بکھر جاتے ہیں، اس کی آنکھوں میں مایوسی اُتر آتی ہے اور وہ خود کو ریاست کے رحم و کرم پر تنہا پاتا ہے۔
یہاں اصل سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آخر ایک ہی اصول دو جگہ دو مختلف شکلیں کیوں اختیار کرتا ہے؟ بجلی کے بل میں سلیب عوام پر بھاری بوجھ ڈال دیتا ہے اور پنشن کے نظام میں یہی سلیب ملازمین کے حقوق نگل لیتا ہے۔ کہیں رعایت ختم کر کے پورا بل مہنگا کر دیا جاتا ہے اور کہیں محنت کی کمائی کو نصف یا ایک تہائی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں پالیسیاں انصاف کے بجائے مفادات کے تابع ہیں۔
پالیسی ساز ادارے، وزارتِ خزانہ اور بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹیز سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ نظام کتنا غیرمنصفانہ ہے۔ لیکن ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیونکہ ان کے لیے تو کبھی سلیب کا اطلاق ہوتا ہی نہیں۔ وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافہ کیا جاتا ہے، اراکین اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھائی جاتی ہیں، مگر عام ملازم اور عوام پر سلیب کی تلوار چلائی جاتی ہے۔
میڈیا بھی اس مسئلے کو نظرانداز کرتا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دن رات سیاسی دنگل دکھائے جاتے ہیں، مگر کوئی اینکر یہ سوال نہیں اُٹھاتا کہ ایک یونٹ کے فرق پر پورے بل کی رعایت کیوں ختم کر دی جاتی ہے؟ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ریٹائرڈ ملازمین کی لیواِن کیشمنٹ کیوں کاٹ دی جاتی ہے؟ عوام کو جان بوجھ کر ان حقیقی مسائل سے غافل رکھا جا رہا ہے تاکہ ان کا دھیان صرف وقتی شور شرابے میں الجھا رہے۔
یہ نظام اکثریت کے گلے پر ہاتھ رکھ کر اقلیت کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت یا تو عام عوام ہیں یا نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین۔ لیکن پالیسی سازی میں ان کا ذکر صرف بوجھ کے طور پر ہوتا ہے، حق دار کے طور پر نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجلی کے بل عوام کے لیے عذاب بن گئے ہیں اور پنشن کی کٹوتیاں ملازمین کے بڑھاپے کو بے سہارا کر دیتی ہیں۔
چند عملی مثالیں اس تضاد کو ننگا کر دیتی ہیں۔ ایک اسکول ٹیچر کا بل اگر 201 یونٹ ہو جائے تو اسے پچھلے مہینے کے مقابلے میں 5 ہزار سے زائد ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم جس کی گریجوٹی پنشن 10لاکھ روپے بنتی تھی، سلیب کے نفاذ کے بعد اسے صرف 6 لاکھ دیے گئے۔ یہ مثالیں محض کہانیاں نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہیں جو روزانہ ہزاروں خاندانوں کو متاثر کر رہی ہیں۔
ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کا ریاست پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ لوگ ٹیکس دینے سے کترانے لگتے ہیں، بجلی کے بل چکانے کے بجائے کنڈے ڈالنے لگتے ہیں، اور سسٹم سے بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ یہ ریاست کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ جب شہریوں کا اعتماد اُٹھ جائے تو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
مزید برآں جب تنخواہیں اور پنشنز کم ہوتی ہیں اور مہنگائی کا بوجھ بڑھتا ہے تو لوگ کرپشن کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ نچلے درجے کے ملازمین رشوت لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ گھر کا خرچ پورا کر سکیں۔ یوں سلیب سسٹم صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ کرپشن کا براہِ راست محرک بھی بن جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ان تضادات کو ختم کیا جائے۔ بجلی کے بلوں میں ایک منصفانہ نظام رائج کیا جانا چاہیے۔ اگر 200 یونٹ تک رعایت دی جاتی ہے تو 201 یونٹ پر پورا بل مہنگا کرنے کے بجائے صرف وہی ایک یونٹ مہنگا ہونا چاہیے۔ اس سے عوام پر بلاجواز بوجھ نہیں پڑے گا اور انصاف کا تقاضا بھی پورا ہوگا۔
اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن گریجویٹی اور لیوان کیشمنٹ پر سلیب کا جبر ختم ہونا چاہیے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے جو انہوں نے اپنی محنت کے ذریعے کمایا ہے۔ اس حق پر کسی قسم کی کٹوتی یا تضاد کسی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔
پارلیمنٹ کو فوری طور پر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ بجلی کے سلیب اور پنشن کے سلیب کا خاتمہ کر کے ایک شفاف، منصفانہ اور یکساں نظام رائج کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ناانصافیاں مستقبل میں بغاوت اور سماجی انتشار کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ وہاں بجلی کے نرخ یکساں اور شفاف ہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو بڑھاپے میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر یہی طرزِ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف عوامی اعتماد بحال ہوگا بلکہ معیشت کو بھی استحکام ملے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام اور سرکاری ملازمین اتنے اندھے بہرے بنا دیے گئے ہیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش رہیں گے؟ یا وہ متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر باشعور شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے۔
سلیب کا یہ کھیل عوام اور ملازمین دونوں کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس تضاد کو توڑ دیا جائے۔ بجلی کے بلوں سے لے کر پنشن کی کٹوتی تک، ہر جگہ انصاف قائم کیا جائے۔ کیونکہ جب اکثریت کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں تو ریاستیں اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔