data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-11-4
خیرپور (جسارت نیوز)پاکستان بیت المال کی جانب سے ضرورت مندوں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں ایم این اے مہرین بھٹو نے ضرورت مندوں میں 30 ہزار روپے کے امدادی چیک تقسم کئے چیک تقسیم کی تقریب میں کنگری، گمبٹ، خیرپور اور کوٹڈیجی تعلقہ کے 50 سے زائد ضرورت مندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر ایم این اے ڈاکٹر مہرین بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی غریبوں کی جماعت ہے جس نے ہمیشہ غریب عوام کی خدمت کی ہے۔ اس مشکل وقت میں غریب عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔پاکستان کے صدر آصف زرداری کا دورہ چین پاکستان کے استحکام، اقتصادی ترقی اور دفاعی تعاون کا پیغام ہے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ لیڈیز ونگ کنگری کی صدر سلطانہ کٹیاں، حفیظ میتلو اور دیگر بھی چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں موجود تھے۔

جسارت نیوز.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چیک تقسیم کرنے کی تقریب

پڑھیں:

ٹی ٹی پی معاملے پر افغان طالبان 3 دھڑوں میں تقسیم

‏طالبان رجیم کے قندھار گروپ، کابل حکومت اور حقانیوں کے درمیان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے پر سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ قندھار شوریٰ ٹی ٹی پی پر سخت کنٹرول کی حامی ہے، جبکہ حقانی گروپ اور کابل حکومت اس سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

حقانی گروپ کی سٹرٹیجک ترجیحات

‏حقانی دراصل پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اپنی strategic depth کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حقانی قندھار اور کابل کے طالبان گروپوں کے مقابلے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کو جغرافیائی اور انکی افرادی قوت کو اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں۔ تا کہ مستقبل کی خانہ جنگی میں دوسرے دھڑوں کے مقابلے میں انکی پوزیشن مضبوط ہو۔

کابل حکومت کا موقف اور شیخ ہیبت اللہ کا فتویٰ

‏کابل حکومت اور قندھار شوری ساری صورتحال سے واقف ہے۔ مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ شیخ ہیبت اللہ نے ایک فتوی بھی دیا کہ افغانی شہری ٹی ٹی پی کی تشکیلوں میں پاکستان جنگ کے لئے نہ جائیں۔ مگر ٹی ٹٰی پی کے زیر تسلط علاقوں میں اس فتوی پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

ٹی ٹی پی کے زیرِ اثر علاقے: عملی کنٹرول اور انتظام

‏کنڑ، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا اور خوست کابل حکومت کے زیرِ اثر نہیں ہیں۔ درحقیقت ان علاقوں میں ٹی ٹی پی ہی کی حکومت قائم ہے، جو عوام سے ٹیکس بھی وصول کرتی ہے اور اپنی عدالتیں بھی چلاتی ہے۔ ان علاقوں میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد سر عام گھومتے ہیں اور اپنے کیمپوں میں کابل حکومت کے سرکاری اہلکاروں کو بھی داخل نہیں ہونے دیتے۔ ٹی ٹی پی ازبک جنگجو، مدرسوں سے افغانی لڑکے اور شام سے منتقل ہونے والے جنگجوؤں کو اپنی صفوں میں شامل کر رہی ہے۔ ٹی ٹی پی اپنے مدرسے چلا رہی ہے اور کمانڈران گاؤں گاؤں جا کر پاکستان کے خلاف جہاد کی تبلیغ کر رہے ہیں۔

کابل کے لیے خطرہ: ٹی ٹی پی کو چیلنج کرنے کے ممکنہ نتائج

‏کابل حکومت بخوبی جانتی ہے کہ اگر اس نے ٹی ٹی پی کے کنٹرول کو چیلنج کیا تو صورتحال کھلی جنگ میں بدل سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ‘ وزیرتعلیم سردار شاہ مقامی ہوٹل میں اسکول کی صوبائی افتتاحی تقریب کے ایجوکیشن اینذلٹریسی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اسٹوڈنٹ اٹینڈنس مانیٹرنگ اینڈ ریڈریس سسٹم کے دوران خطاب کررہے ہیں
  • عوامی تقریب میں میکسیکو کی صدر کے ساتھ نازیبا حرکت کرنے والا شخص گرفتار
  • حکومت کو 27ویں ترمیم سے باز آ جانا چاہیے، یہ ترمیم قوم کو تقسیم کرنے کا سبب بنے گی: مولانا فضل الرحمن
  • خاتون نے شادی کا جھانسہ دے کر میرے کروڑوں روپے ٹھگ لیے، سیف اللہ
  • ٹی ٹی پی معاملے پر افغان طالبان 3 دھڑوں میں تقسیم
  • 3 مزید بجلی گھروں کو نجکاری فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ
  • سیلاب متاثرین میں 10 ارب روپے سے زاید تقسیم کر دیے، پنجاب حکومت
  • 27ویں ترمیم سندھ کے وجود پر حملہ ہے، عوامی تحریک
  • 18 ویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم میں توازن کی ضرورت، رانا ثنا کا اہم بیان
  • 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے: رانا ثنا