Islam Times:
2025-09-23@06:07:18 GMT

نیتن یاہو خطے میں نسل کشی کر رہا ہے، رجب طیب اردگان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

نیتن یاہو خطے میں نسل کشی کر رہا ہے، رجب طیب اردگان

ترکی کے صدر نے پیر کی شب دو ریاستی حل کانفرنس میں کہا کہ فلسطین کو کچھ ممالک کی جانب سے تسلیم کرنا ایک تاریخی اور غیر معمولی قدم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترکی کے صدر نے پیر کی شب دو ریاستی حل کانفرنس میں کہا کہ فلسطین کو کچھ ممالک کی جانب سے تسلیم کرنا ایک تاریخی اور غیر معمولی قدم ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، رجب طیب اردگان صدر ترکیہ نے پیر کی شب کہا کہ میں ان ممالک کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انہوں نے انصاف اور انسانی ضمیر کی آواز کا احترام کیا۔ اردگان نے اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل کانفرنس کے دوران وضاحت کی کہ غزہ کی پٹی میں مصائب بڑھ رہے ہیں اور کوئی بھی صاحبِ ضمیر شخص اسے قبول نہیں کرسکتا۔

الجزیرہ نیٹ ورک نے ان کے حوالے سے رپورٹ دی کہ فلسطین کو کچھ ممالک کی جانب سے تسلیم کرنا ایک تاریخی اور غیر معمولی قدم ہے۔ ترکی کے صدر نے مزید کہا کہ اسرائیل دو ریاستی حل کے خواب کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ اپنے ہمسایوں کے خلاف نسل کشی کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اردگان نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی قائم ہونی چاہیے، امداد اندر جانے دی جائے اور اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی پٹی سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دو ریاستی حل فلسطین کو کہا کہ

پڑھیں:

فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-03-2

 

برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے ایک بیان میں کہا کہ آج، امن اور دو ریاستی حل کی اُمید کو زندہ کرنے کے لیے میں بطور وزیراعظم برطانیہ اعلان کرتا ہوں کہ برطانیہ باضابطہ طور پر ریاست ِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی ہولناکی کے سامنے ہم یہ قدم اٹھا رہے ہیں کہ امن اور دو ریاستی حل کے امکان کو زندہ رکھا جا سکے۔ قبل ازیں آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز اور آسٹریلوی سینیٹ میں قائد ایوان و وزیرخارجہ پینی وونگ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ دوسری جانب برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد پرتگال نے بھی فلسطین کو باضابطہ طورپر خود مختار ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھاری اکثریت سے دو ریاستی حل پر مبنی قرارداد منظور کی جاچکی ہے اور نیویارک ڈیکلیریشن میں بھی دو ریاستی حل پیش کیا جاچکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مزید ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کیے جانے کا امکان ہے۔ اِدھر حماس نے مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اتوار کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو یکطرفہ تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ بن یامین نیتن یاہو نے بھی ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے اقدامات جاری رکھیں گے، نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی امریکا سے واپسی پر اسرائیل کی جانب سے ردعمل دیا جائے گا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل برطانیہ اور کچھ دیگر ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کے یکطرفہ اعلان کو قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔ یہ اعلان امن قائم کرنے کے بجائے خطے کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے اور مستقبل میں پرامن حل کے امکانات کو نقصان پہنچائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دو ریاستی حل کے تحت آج فلسطین کو بطور ایک ریاست تسلیم کیا تو جارہا ہے مگر اس امر کی تلخ حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک امریکا اسرائیل کی پشت پر ہے، اسے اخلاقی، سفارتی اور عسکری کمک پہنچا رہا ہے یہ فارمولا کامیاب نہیں ہو سکتا، خود اسرائیل کی پوری تاریخ ہٹ دھرمی سے عبارت ہے، یاسر عرفات نے مزاحمت سے تھک کر اس امید پر کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا، اس سے اوسلو معاہدہ کیا، معاہدے میں یہ بات طے پائی تھی کہ مغربی کنارے اور غزہ کو خودمختاری دی جائے گی اور فلسطینی اتھارٹی ایک نیم خودمختار حکومت کی حامل ہوگی، مگر اس معاہدے کی کتنی پاسداری کی گئی پوری دنیا اس سے واقف ہے، یہی نہیں اسرائیل نے اپنے غاصبانہ قبضے کے دوران فلسطینی قیادت سے متعدد معاہدے کیے مگر کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں کیا، ابھی حالیہ جنگ بندی کے حوالے سے جو معاہدے حماس سے کیے گئے ان کا حال بھی کسی سے مخفی نہیں۔ اسرائیل اور صہیونی قیادت کسی طور اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، گریٹر اسرائیل کا قیام ہی اسرائیل کا اصل منصوبہ ہے۔ جس امید سے دو ریاستی حل کی بات کی جارہی ہے، اس حل کو بھی اسرائیل کسی طور تسلیم نہیں کرے گا، اسے اگر فلسطینیوں کی آزادی اور خود مختاری کو کسی بھی سطح پر تسلیم کرنا ہوتا تو وہ جارحیت سے باز رہتا، معاہدے کی پاسداری کرتا، مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری ترک کردیتا۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ دو ریاستی حل پیش کرنے میں وہ عرب ریاستیں بھی پیش پیش ہیں جنہوں نے 1947 میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے پارٹیشن پلان کی مخالفت کی تھی، مگر آج وہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم آج کہہ رہے کہ ہیں کہ ہم نے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی ہولناکی کے پیش نظر فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیئر اسٹارمر کو خبر ہو کہ مشرقِ وسطیٰ کے سینے میں اسرائیل نامی خنجر انہی کا پیوست کیا ہوا ہے، دنیا اس باب میں تاجِ برطانیہ کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی، جس نے فلسطین پر خلافت عثمانیہ کی گرفت کے خاتمے کی سازشیں کیں، ان کے وزیر خارجہ نے اعلان ِ بالفور کے ذریعے دنیا بھر کے یہودیوں کو یہ یقین دہائی کروائی کہ ان کی قومی حکومت قائم کی جائے گی یوں عملاً یہویوں کو فلسطین میں لاکر بسایا گیا اور صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو جبری ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر فلسطینی ریاست تسلیم کر بھی لی جائے تو اس کا عملی قیام کیسے اور کیونکر ممکن ہوسکے گا؟، یہاں تو حال یہ ہے کہ امریکا محمود عباس کو نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ویزہ تک دینے پر آمادہ نہیں، امریکا کی آشیر واد اور اسرائیل کی دھمکیاں کبھی دو ریاستی حل کے فریم ورک کو قابل عمل نہیں بننے دیں گی۔ دو ریاستی حل کو امن کا واحد قابل ِ عمل راستہ باور تو کرایا جارہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے مغربی کنارے میں یہودی آبادی کاری کے ذریعے عملاً اسے تقسیم کردیا ہے، بچی کھچی فلسطینی سرزمین کی جغرافیائی وحدت ختم ہوکر رہ گئی ہے، نیتن یاہو اب بھی اس عزم کا اعادہ کر رہے ہیں کہ یہودی آبادکاری اور فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس دو ریاستی حل کے تحت فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے جس کے تحت اسرائیل کو تو مکمل طور پر فوجی اور ایٹمی صلاحیت رکھنے کی اجازت ہوگی، اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ کیا فلسطینی ریاست کو بھی فوج رکھنے کی اجازت ہوگی؟ کیا وہ اپنی بقا اور سلامتی کے تحفظ میں خود مختار ہوگی یا اس کا انحصار بین الاقوامی ضامنوں پر ہوگا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر فلسطین کو Demilitarized کرکے تشکیل دی جانے والی ریاست، ریاست نہیں اسرائیلی رجواڑ بن جائے گی۔ کیا موجودہ دور میں کسی ایسی ریاست کا تصور جس کی نہ اپنی کوئی فوج ہو، نہ فوجی ساز و سامان، جسے اپنی دفاع کی اجازت بھی نہ ہو، ایسی کسی ریاست کا وجود کس قدر مضحکہ خیز ہوسکتا ہے۔ چشم ِ تصور سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دو ریاستی حل، فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں دھوکا فریب، جعل سازی اور فلسطینیوں کے حق پر کھلم کھلا ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے، یہ اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت دلانے کی مجہولانہ کوشش ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ خطے میں مستقل اور پائیدار حل کے لیے ناگزیر ہے کہ فلسطین کی سرزمین واگزار کرائی جائے۔ قانونی، اخلاقی، تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے فلسطین کی ایک انچ زمین پر بھی اسرائیل کا حق نہیں، بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے، اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کی جانے والی کوئی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی۔

گوہر ایوب اداریہ

متعلقہ مضامین

  • لکسمبرگ اور مالٹا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا
  • ہم فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں، پرتگال
  • لکسمبرگ اور مالٹا نے فلسطین کو تسلیم کر لیا
  • فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • فلسطین،دو ریاستی حل کے لیے ممکنہ راہیں
  • برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کا فلسطین کو تسلیم کرنا قابل تحسین ہے، امان اللہ کنرانی
  • برطانیہ ،آسٹریلیا،کینیڈا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا،کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی،نیتن یاہو
  • نیتن یاہو کا برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے فلسطینی ریاست کے فیصلے پر شدید ردعمل
  • اسرائیل اور شام میں مذاکرات پر نیتن یاہو کا اہم بیان