فرانس میں حکومتی پابندی کے باوجود 21 ٹاؤن ہالز میں فلسطینی پرچم کشائی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پیرس: فرانس میں حکومت کی جانب سے واضح پابندی کے باوجود ملک کے 21 ٹاؤن ہالز پر فلسطینی پرچم لہرایا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق فرانسیسی وزارت داخلہ کاکہنا ہے کہ ملک کی 34 ہزار 875 میونسپلٹیوں میں سے 21 نے فلسطینی پرچم لہرا کر حکومتی حکم نامے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں پریفیکٹس کو ہدایت دی گئی تھی کہ فلسطینی پرچم ٹاؤن ہالز اور عوامی عمارتوں پر لہرانے سے روکا جائے، بعض مقامی حکومتوں نے ان احکامات کو نظرانداز کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی پرچم لہرانے والے شہروں میں نانت، سینٹ ڈینس اور اسٹینز شامل ہیں جبکہ مزید کئی بلدیاتی ادارےفلسطینی پرچم کشائی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
خیال رہےکہ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے بھی فلسطین کو باضابطہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ کر 193 میں سے 153 ہو گئی ہے جو فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کر چکے ہیں۔
مزید یہ کہ مالٹا، لکسمبرگ، فرانس، بیلجیئم اور آرمینیا سمیت گیارہ ممالک نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے دوران فلسطین کو تسلیم کریں گے، نیویارک میں آج سے شروع ہونے والے اس اجلاس میں دنیا کے اعلیٰ رہنما شریک ہو رہے ہیں جہاں فلسطین کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔
یادر ہے کہ غزہ میں امریکا اور اسرائیل امداد کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں اور عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی پرچم رہے ہیں
پڑھیں:
برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد فرانس کا بھی فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
برطانیہ، کینیڈا ،آسٹریلیا اور پرتگال کے بعد فرانس نے بھی فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا۔
فرانس کے صدر میکرون نے اقوام متحدہ کانفرنس میں فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین میں امن قائم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور منصفانہ امن قائم نہ کرنے کی اجتماعی ذمہ داری پوری عالمی برادری پر عائد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ دہائیوں سے ادھورا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کو پیغام دیا کہ دنیا امن کے موقع سے محض چند لمحوں کے فاصلے پر ہے اور اگر اب بھی کچھ نہ کیا گیا تو یہ موقع ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جائے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ کی جنگ کو روکنے کا وقت آ گیا ہے اور اس کے لیے تمام فریقین کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ خطے کے عوام کو امن اور انصاف میسر آ سکے۔انہوں نے کہا کہ طاقت کے بجائے قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔
یہ پڑھیں: برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد پرتگال نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا
صدر میکرون نے اپنے خطاب کے دوران دیگر ممالک کا بھی ذکر کیا جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا، ان ممالک میں اندورا، آسٹریلیا، بیلجیم، لکسمبرگ، مالٹا، مراکش، برطانیہ، کینیڈا اور سان مارینو شامل ہیں۔
صدر میکرون نے غزہ میں جاری جنگ کو ناقابلِ جواز قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حماس کے زیر حراست باقی 48 مغویوں کو فوری رہا کیا جائے۔
دوسری جانب حماس نے غزہ جنگ بندی سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک اہم خط بھیجا ہے جس میں 60 روزہ جنگ بندی کے بدلے اسرائیل کے نصف یرغمالیوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی گئی ہے جس سے خطے میں پائیدارامن قائم کرنے کے امکانات مزید روشن ہوگئے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور آسٹریلیا نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نے جنگ بندی سمیت دیگر شرائط پورے نہیں کیے۔