ایک ویزے پر 6 خلیجی ممالک کا سفر ممکن، ویزے کے لیے اہلیت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) نے سیاحت کے فروغ کے لیے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے متحدہ سیاحتی ویزا متعارف کرانے کی تیاری مکمل کر لی ہے، جسے ’جی سی سی گرینڈ ٹورز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ویزا یورپ کے شینگن ماڈل کی طرز پر ہوگا اور سیاحوں کو بیک وقت 6 ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت اور عمان میں باآسانی سفر کرنے کی سہولت دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: دبئی میں ملازمت کے متلاشی افراد کے لیے خصوصی ویزا کا اجرا، کفیل کی ضرورت نہیں ہوگی
گلف نیوز کے مطابق جی سی سی کے سیکریٹری جنرل جاسم البدوئی نے تصدیق کی ہے کہ یہ ویزا آخری منظوری کے مراحل میں ہے اور رواں سال کے آخر تک اس کا ٹرائل شروع کردیا جائے گا۔ مکمل اجرا مرحلہ وار ہوگا جبکہ درخواستیں ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے جمع کرائی جاسکیں گی۔
اگرچہ جی سی سی ممالک کے شہری پہلے ہی ویزا فری سفر کے اہل ہیں، لیکن یہ ویزا بنیادی طور پر خطے میں موجود غیر ملکی رہائشیوں کو ہدف بنائے گا۔ ان کے لیے چھ مختلف ممالک کے الگ الگ ویزے لینے کے بجائے ایک ہی ویزا کافی ہوگا، جس سے اخراجات بھی کم ہوں گے اور سفری عمل بھی آسان ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستانی عمان کا 10 دن کا مفت سیاحتی ویزا حاصل کر سکتے ہیں؟
متحدہ عرب امارات کے وزیر معیشت عبداللہ بن طوق المری نے کہا ہے کہ اس ویزے سے صرف پاسپورٹ ہولڈرز ہی نہیں بلکہ خطے کے رہائشی بھی فائدہ اٹھا سکیں گے، جس سے ایمریٹس آئی ڈی جیسے دستاویزات کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔
ابتدائی طور پر ویزے کی تفصیلات طے کی جا رہی ہیں لیکن امکان ہے کہ یہ 30 دن سے 90 دن تک کے لیے جاری کیا جا سکے گا۔ اس میں سنگل کنٹری یا چھ ممالک کے ایک ساتھ سفر کے اختیارات شامل ہوں گے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے درخواست دینے کا عمل جدید ٹیکنالوجی اور سکیورٹی معیارات کے مطابق ہوگا، تاکہ عالمی سطح پر سفر کرنے والوں کے لیے سہولت اور اعتماد دونوں یقینی بنائے جا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی بغیر ویزہ قطر کیسے جا سکتے ہیں؟
یہ منصوبہ پہلی بار 2023 میں منظور کیا گیا تھا اور اس کا مقصد خطے میں سیاحتی معیشت کو وسعت دینا ہے۔ یو اے ای پہلے ہی سیاحتی مرکز ہے اور 2026 میں اتحاد ریل پراجیکٹ مکمل ہونے کے بعد ساتوں امارات کو ریل کے ذریعے جوڑ دیا جائے گا، جو اس نئے ویزے کو مزید پرکشش بنا دے گا۔
سعودی عرب بھی اپنے وژن 2030 کے تحت سیاحت پر بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ نیوم سٹی، ریڈ سی ریزورٹس اور العُلا جیسے منصوبے عالمی توجہ کا مرکز ہیں۔ متحدہ ویزے کی بدولت سیاح سعودی عرب کے مذہبی سفر کو دبئی، دوحہ یا مسقط جیسے دیگر شہروں کے ساتھ ملا کر ایک مکمل خلیجی ٹور میں بدل سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب نے پاکستانی سیاحوں کے لیے ویزا کی شرائط آسان کردیں
اگرچہ ویزے کا فریم ورک تقریباً مکمل ہو چکا ہے، لیکن تکنیکی اور سکیورٹی تقاضوں کو ہم آہنگ کرنا اب بھی ضروری ہے۔ جون 2025 میں ریاض میں ہونے والے اجلاس میں ان نکات پر پیشرفت کی گئی اور تمام ممالک نے اس منصوبے کو کامیاب بنانے کا عزم ظاہر کیا۔
سعودی عرب پہلے ہی مذہبی سیاحت کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں حجاج اور عمرہ زائرین آتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیا ویزا ان زائرین کے تجربے کو مزید بہتر بنائے گا کیونکہ وہ طویل قیام کر کے مکہ و مدینہ کے علاوہ العُلا، نیوم اور الدرعیہ جیسے تاریخی اور ثقافتی مقامات کی سیر بھی کر سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بحرین کا گولڈن ویزا کن پاکستانیوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟
آرتھر ڈی لٹل مشرق وسطیٰ کے ماہر ریمنڈ خوری کے مطابق جی سی سی کا متحدہ ویزا نہ صرف سیاحوں کے قیام کو بڑھائے گا بلکہ خطے میں ملٹی کنٹری ٹورز کو بھی فروغ دے گا۔ ریاض اور جدہ کے بڑے ایئرپورٹس مختصر قیام کی سیاحت کے لیے ٹرانزٹ ہب بن سکتے ہیں، جبکہ سستے فضائی سفر اور علاقائی ریل نیٹ ورک کے ذریعے دبئی، مسقط یا دوحہ کو ایک ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بحرین خلیجی ممالک سعودی عرب سفر سیاحتی ویزا عمان قطر کویت متحدہ عرب امارات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خلیجی ممالک سیاحتی ویزا کویت متحدہ عرب امارات یہ بھی پڑھیں کے ذریعے کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ اجلاس؛ متعدد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیں گے؛ اسرائیل امریکا کا بائیکاٹ
اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں رکن ممالک کا سربراہی اجلاس آج فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہوگا جس میں 6 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی سربراہان کے اس اجلاس کا مقصد دو ریاستی حل کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنا ہے۔ جس میں فرانس، بیلجیئم، لکسمبرگ، مالٹا، سان میرینو اور آندورا باضابطہ طور پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور آسٹریلیا بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
اسرائیل اور امریکا نے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جب کہ فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی شریک نہیں ہو پائیں گے کیونکہ امریکا نے ویزے دینے سے انکار کر دیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی اجلاس میں بذریعہ ویڈیو اپنی شرکت کو یقینی بنائیں گے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے کانفرنس کو "سرکس" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے۔
اسی طرح امریکی محکمہ خارجہ نے بھی مغربی ممالک کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلانات کو "محض نمائشی اقدامات" کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیح اسرائیل کی سیکیورٹی، یرغمالیوں کی رہائی اور خطے میں دیرپا امن ہے۔
مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یہ وقت فیصلہ کن ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دو ریاستی حل ہمیشہ کے لیے دفن ہوسکتا ہے۔