جب دن اور رات برابر ہو جائیں تو یہ کس بات کا اعلان ہوتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
گزشتہ روز دنیا بھر میں ایک انوکھا اور دلکش فلکیاتی مظہر دیکھنے کو ملا جب دن اور رات کا دورانیہ تقریباً برابر ہو گیا۔
ماہرین فلکیات کے مطابق سورج خطِ استوا کے عین اوپر تھا، اور اس لمحے کو اعتدالِ خریف (Autumnal Equinox) کہا جاتا ہے۔
یہ واقعہ ہر سال صرف دو مرتبہ پیش آتا ہے، اور کل کے ساتھ شمالی نصف کرے میں خزاں کی باضابطہ آمد ہو گئی ہے۔
اب رفتہ رفتہ دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہونے لگیں گی، یہاں تک کہ دسمبر میں سب سے لمبی رات اپنے جوبن پر ہوگی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ خزاں کے رنگ بکھرنے اور سردیوں کی ہلکی آہٹیں اب فضا میں گھلنے لگی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:یورپی سیٹلائٹس نے مصنوعی سورج گرہن پیدا کرکے تاریخ رقم کردی
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جہاں ہمارے خطے میں خزاں کا آغاز ہوا، وہیں جنوبی نصف کرے میں بہار کی آمد کا جشن شروع ہو گیا۔ ایک طرف درختوں کے پتے جھڑنے لگے ہیں تو دوسری طرف کہیں کلیاں کھلنے کی تیاری میں ہیں۔
یہ دن صرف سائنسی اہمیت ہی نہیں رکھتا بلکہ دنیا کی کئی قدیم تہذیبوں میں بھی اس کی اپنی علامتی اور ثقافتی اہمیت رہی ہے۔
قدیم کاشتکار معاشروں میں یہ دن نئی فصل کی تیاری اور موسم کی تبدیلی کا اشارہ سمجھا جاتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اور سورج کی یہ ترتیب سال میں صرف 2 مرتبہ وقوع پذیر ہوتی ہے، ایک بار مارچ میں ’اعتدالِ ربیع‘ کے موقع پر اور دوسری بار ستمبر میں ’اعتدالِ خریف‘ کے موقع پر۔
کل کا دن انہی نایاب لمحوں میں سے ایک تھا جب زمین اور سورج نے دن اور رات کو ایک ہی پلڑے میں رکھ دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اعتدالِ خریف دن رات موسم خزاں موسم سرما.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اعتدال خریف دن رات اور رات
پڑھیں:
اسرائیل، بھارت اور افغان طالبان کا شیطانی گٹھ جوڑ
خطے میں ایک خطرناک اور مبینہ سازش آشکار ہوئی ہے جس میں بعض حلقے اسرائیل، بھارت اور افغان طالبان کی باغی قیادت (TTA) کو ایک محوری کردار میں جوڑنے کی بات کررہے ہیں، اور یہ الزام تب زور پکڑا جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ طے پایا جس نے پاکستان کو «محافظِ حرمینِ شریفین» کا مرتبہ دیا۔
اس منظرنامے کے حامی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا 17 ستمبر کو طے پانے والا معاہدہ محض اتفاقی تبدیلیاں لا رہا تھا، یا اس نے اُن قوتوں کو متحرک کر دیا جو اس اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ اُن کے مطابق مندرجہ ذیل خام نکات قابلِ غور ہیں:
مبینہ سفارتی رابطے اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تسلسل مشکوک معلوم ہوتا ہے — جن میں بھارتی وزیراعظم اور اسرائیلی رہنماؤں کے رابطے، افغان طالبان قیادت کے دورے، اور پھر بعض سرحدی واقعات شامل ہیں۔
بیان کے مطابق بعض ملاقاتیں محض سفارتی گفتگو نہیں بلکہ دفاعی و انٹیلی جنس تعاون کی سمت میں پیش رفت تھیں، جسے مبصرین ایک عسکری محور سمجھتے ہیں۔
الزام ہے کہ تینوں فریقوں کے درمیان کرداروں کی تقسیم ہے: اسرائیل حکمتِ عملی اور خفیہ معلومات فراہم کرتا ہے، بھارت سیاسی و مالی معاونت کرتا ہے، اور مقررہ باغی عناصر سرحدی حملے یا پراکسی کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔
مقصد کے طور پر اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ سب پاکستان کے نئے کردار — خاص طور پر «محافظِ حرمینِ شریفین» کا عہدہ — کو کمزور کرنا اور مسلم اُمہ میں اتحاد کو ٹھیس پہنچانا ہے۔
اس طرح کے بیانات اس لیے خطرناک ہو سکتے ہیں کہ وہ تیزی سے تنازعہ انگیز روایات کو فروغ دیں اور بغیر تصدیق کے عوامی رائے تشکیل پائیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ:
جو بھی سنجیدہ دعوے کیے جائیں، اُن کے شواہد، ثبوت اور حوالہ جات ساتھ پیش کیے جائیں؛
معاملے کی تحقیقات مناسب اداروں کے ذریعے شفاف انداز میں کی جائیں؛
عوامی گفتگو میں ذمہ دارانہ انداز اپنایا جائے تاکہ کشیدگی اور اشتعال سے بچا جا سکے۔
آخر میں، چاہے کن سازشی نظریات کا نتیجہ کچھ بھی ہو، مؤقف رکھنے والوں کا ایمان ہے کہ پاکستان متحد، پراعتماد اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، امن، استحکام اور خطے میں باہمی اعتماد کے فروغ کے لیے شواہد پر مبنی مباحثہ، سفارتی رابطے اور مل کر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہی مفید راستہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں