UrduPoint:
2025-11-08@05:06:39 GMT

امریکا میں سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

امریکا میں سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 ستمبر2025ء) امریکا میں سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی، نیویارک میں فرانسیسی صدر کو امریکی پولیس نے سرعام سڑک پر روک لیا۔ تفصیلات کے مطابق فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے جاتے ہوئے راستے میں پولیس نے روک لیا جس پر انھیں پیدل ہی جانا پڑا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ غیر معمولی واقعہ اُس وقت پیش آیا جب فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا قافلہ اپنے ملک کے مشن دفتر کی جانب بڑھ رہا تھا۔

نیویارک پولیس نے فرانسیسی صدر سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال سڑک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قافلے کے لیے حفاظتی طور پر بند کی گئی ہے۔ پولیس اہلکار نے کہا کہ سر، معاف کیجیے، ابھی سب کچھ بند ہے، صدر ٹرمپ کا موٹرکیڈ آنے ہی والا ہے۔

(جاری ہے)

آپ کو کچھ دیر رکنا ہوگا۔ جس پر فرانسیسی صدر نے مزاحیہ انداز اپناتے ہوئے سڑک پر کھڑے کھڑے اپنا فون نکالا اور صدر ٹرمپ کو کال کر کے کہا کہ اندازہ لگائیں، میں سڑک پر انتظار کر رہا ہوں کیونکہ سب کچھ آپ کے لیے بند ہے۔

اس کے چند منٹ بعد ہی سڑک کو پیدل چلنے والوں کے لئے کھول دیا گیا لیکن گاڑیوں کو پھر بھی جانے نہیں دیا گیا۔ جس کی وجہ سے صدر ایمانوئل میکرون پیدل چلتے ہوئے فرانس کے سفارتی مشن کی طرف چلے گئے۔ یاد رہے کہ اس واقعے سے قبل ہی ایمانوئل میکرون نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
                                                                .

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایمانوئل میکرون

پڑھیں:

امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251107-03-3

 

میر بابر مشتاق

نیویارک کی سیاسی تاریخ میں ۴ نومبر ۲۰۲۵ ایک یادگار دن بن گیا۔ دنیا کے اس سب سے متنوع شہر نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو صرف سیاست دان نہیں بلکہ ایک نظریہ اور تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔ زہران ممدانی، ایک مسلم، جنوبی ایشیائی نژاد، اصلاح پسند رہنما، جو اب نیویارک شہر کے ۱۱۱ ویں میئر بن چکے ہیں۔ انتخابات میں دو ملین سے زائد ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جو ۲۰۰۱ کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ عوام کے بدلتے رجحان کا ثبوت ہے۔ لوگ اب نسلی یا جماعتی سیاست سے ہٹ کر عوامی فلاح اور سماجی انصاف کی بنیاد پر ووٹ دینے لگے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنوں پر نوجوانوں، مزدور طبقے اور اقلیتوں کی غیر معمولی شرکت نے ایک نئے سیاسی رجحان کو جنم دیا۔ نیویارک کے گلی کوچوں سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی تھی: ’’ہمیں وہ قیادت چاہیے جو کرائے کم کرے، انصاف مہیا کرے، اور شہر کو صرف امیروں کا نہیں، سب کا بنائے‘‘۔

ممدانی کا مقابلہ سابق گورنر اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلیوا سے تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر ارب پتی سرمایہ کاروں نے کومو کی حمایت کی، مگر اس انتخاب نے ایک بات ثابت کر دی: عوامی طاقت، سرمایہ دارانہ اثر سے بڑی ہے۔ ٹرمپ کی حمایت، میڈیا پر اشتہارات اور سرمایہ دار طبقے کی بھرپور پشت پناہی کے باوجود عوام نے فیصلہ اس طبقے کے حق میں کیا جو برسوں سے دباؤ میں تھا۔ ورکنگ کلاس۔ ممدانی کا ایجنڈا ’’عوام کے لیے شہر‘‘ زہران ممدانی کا منشور سادہ مگر انقلابی تھا۔ گھروں اور دفاتر کے کرائے منجمد کیے جائیں۔ مفت پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز کیا جائے۔ یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کی جائے۔ مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے مسائل کو ترجیح دی جائے، یہ وہ نکات تھے جنہیں نیویارک کے عام شہریوں نے اپنی زندگی سے جڑا پایا۔

ممدانی نے انتخابی مہم میں نعرے نہیں، حل اور پالیسی دی۔ ان کا مؤقف تھا: ’’جب شہر کی ترقی کا بوجھ صرف غریب اٹھاتا ہے، تو وہ ترقی نہیں، استحصال کہلاتا ہے‘‘۔ زہران نے نیویارک کی کوئینز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور نوجوانی میں ہی سماجی سرگرمیوں سے وابستہ ہو گئے۔ انہیں نیویارک کے شہری مسائل کا براہِ راست تجربہ ہے۔ وہ خود کرائے کے فلیٹ میں پلے بڑھے، اور یہی تجربہ ان کے سیاسی وژن کی بنیاد بنا۔ زہران ممدانی کی کامیابی امریکی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔ امریکا میں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور تعصبات کے دور میں، نیویارک جیسے شہر کا ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی نژاد شخص کو منتخب کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ جمہوریت اب شناخت سے زیادہ کارکردگی پر یقین رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلم حلقوں نے اس کامیابی پر خوشی اور فخر کا اظہار کیا۔

عالمی تجزیہ نگاروں نے کہا کہ: ’’یہ انتخابی جیت صرف نیویارک کی نہیں، پوری مسلم دنیا کی اخلاقی فتح ہے‘‘۔ ممدانی نے اپنی مہم کے دوران فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اگر عالمی عدالت ِ انصاف کے وارنٹ کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک آئے، تو میں قانون کے مطابق انہیں گرفتار کراؤں گا‘‘۔ یہ بیان امریکی مین اسٹریم سیاست کے لیے غیرمعمولی تھا۔ لیکن ممدانی نے دکھا دیا کہ انصاف پسندی، اخلاقی جرأت اور سچ بولنے کا حوصلہ بھی سیاست کا حصہ ہو سکتا ہے۔

CNN, The New York Times اور Politico نے ممدانی کی کامیابی کو “Progressive Revolution in Urban Politics” قرار دیا۔ امریکی میڈیا نے تسلیم کیا کہ ممدانی نے نیویارک کے عوام کے ذہنوں میں ایک نیا فریم ورک بنا دیا ہے —”City for People, Not for Profit”۔ کچھ دائیں بازو کے تبصرہ نگاروں نے انہیں “Left Populist” اور “Idealist” کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ممدانی نے صرف خواب نہیں دکھائے بلکہ ان کے لیے پالیسی روڈ میپ بھی پیش کیا۔ اب جبکہ نیویارک کا انتظام سنبھالنا ممدانی کی ذمے داری ہے، انہیں شدید عملی مشکلات کا سامنا ہوگا: مالی وسائل کی کمی۔ ریاستی قوانین کی رکاوٹیں۔ رئیل اسٹیٹ لابی کا دباؤ۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کے چیلنجز۔ ان چیلنجز کے باوجود ممدانی کی اخلاقی برتری اور عوامی مقبولیت انہیں ایک مضبوط پوزیشن میں رکھتی ہے۔

ان کے لیے اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ تحریک کو پالیسی میں کیسے ڈھالتے ہیں۔ زہران ممدانی کی کامیابی صرف امریکی سیاست نہیں، بلکہ عالمی بیانیے کی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ کامیابی بتاتی ہے کہ دنیا کی طاقتور معیشتوں میں بھی سماجی انصاف اور عوامی فلاح کی سیاست جگہ بنا سکتی ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، اور فرانس میں بھی مسلم نژاد امیدواروں کی مہم کو نئی توانائی ملی ہے۔ امریکا کے اندر بھی یہ نتیجہ بتا رہا ہے کہ ریاستی اشرافیہ کے خلاف عوامی مزاحمت اب محض نعرہ نہیں، ایک حقیقت ہے۔

زہران ممدانی کی کامیابی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب مسلمان معاشروں میں تعلیم، سماجی خدمت، اور فکری خوداعتمادی کو بنیاد بنایا جائے تو وہ دنیا کے کسی بھی سیاسی نظام میں عزت، اثر اور قیادت حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ جیت امت کے نوجوانوں کے لیے پیغام ہے: ’’تبدیلی کا انتظار مت کرو۔ خود وہ تبدیلی بنو جس کی تمہیں ضرورت ہے‘‘۔ زہران ممدانی کا یہ جملہ اب عالمی سطح پر مقبول ہو چکا ہے: ’’ہم شہر کو دوبارہ انسانی ہاتھوں میں لوٹا رہے ہیں، طاقت کے ایوانوں سے عوام کے دلوں تک‘‘۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو نیویارک کی گلیوں سے اْٹھ کر دنیا بھر کے شہریوں کے ضمیر میں گونج رہا ہے۔ اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب امریکی خواب ایک نئے مفہوم میں زندہ ہوا۔ انصاف، برابری اور انسانی وقار کے خواب کے طور پر۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کی تجویز
  • امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب
  • افغانستان کی جانب سے چمن بارڈ ر پر سرحدی خلاف ورزی ، فورسزنے جارحیت کا موثر جواب دیا ، وزیر اطلاعات
  • فیصل آباد میں ای چالان کا آغاز:کس کس وائلیشن پر ای چالان ہوگا؟
  • فیصل آباد : ای چالان کا باقاعدہ آغاز
  • سموگ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر سیف سٹی کا سخت کریک ڈاؤن
  • دیکھتے ہیں ممدانی نیویارک میں کیسا کام کرتے ہیں، ٹرمپ
  • ڈرائیونگ لائسنس معطل ہوگا، نیا ٹریفک لائسنس پوائنٹس سسٹم متعارف
  •  پنجاب  میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے بڑھانے کا فیصلہ 
  • یورپ روس سے جنگ کے لئے تیار نہیں، رپورٹ نے خطرے کی گھنٹی بجادی