پاکستان نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے استعمال، خصوصاً اس کے عسکری پہلوؤں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت باقاعدہ ضابطے میں لایا جائے تاکہ یہ ٹیکنالوجی جبر یا اجارہ داری کا ہتھیار نہ بن سکے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی یہ اپیل ترقی پذیر ممالک کے ان خدشات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگر اے آئی پر مؤثر کنٹرول نہ کیا گیا تو طاقتور ممالک اپنے مفاد کے مطابق اصول وضع کریں گے۔
اسی سال کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں جامع اور منصفانہ اے آئی گورننس پر زور دیا گیا تھا تاکہ ڈیجیٹل تقسیم کو کم کیا جا سکے، تاہم، انڈونیشیا اور برازیل جیسے عالمی جنوب کے کئی ممالک نے خبردار کیا ہے کہ غیر منظم اے آئی عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر ایجنڈا آئٹم ’بین الاقوامی امن و سلامتی کا تحفظ‘ کے تحت مصنوعی ذہانت پر اعلیٰ سطح کے مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے اس کے غلط استعمال کے امکانات کو اجاگر کیا اور زور دیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اے آئی کی تیاری اور استعمال کو مکمل طور پر منظم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ خودکار ہتھیاروں اور اے آئی سے لیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کا بڑھتا ہوا استعمال عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایسی ایپلیکیشنز جو بامعنی انسانی کنٹرول کے بغیر ہوں، انہیں مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔
میڈیارپورٹس میں وزیر دفاع کے حوالے سے بتایا گیاکہ ’اے آئی کو جبر یا ٹیکنالوجیکل اجارہ داری کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے
اجلاس کی صدارت جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے کی، کیونکہ جنوبی کوریا ستمبر کے لیے 15 رکنی سلامتی کونسل کی صدارت کر رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے وزیر نے زور دیا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت ایک ’انتہائی اہم اور دہرا استعمال رکھنے والی ٹیکنالوجی‘ ہو سکتی ہے لیکن اس میں ’عدم مساوات بڑھانے اور عالمی نظام کو غیر مستحکم کرنے‘ کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
15 رکنی کونسل سے خطاب میں انہوں نے مزید کہاکہ ’ایسی ایپلی کیشنز جن پر بامعنی انسانی کنٹرول نہ ہو، ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے‘،۔
خواجہ آصف نے مصنوعی ذہانت کے غیر منظم ہونے کے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’اے آئی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے جھوٹی معلومات کی مہمات، جارحانہ سائبر آپریشنز اور نئے قسم کے ہتھیاروں کی تیاری ممکن ہو جاتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’خودکار ہتھیاروں اور اے آئی سے لیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کا بڑھتا ہوا استعمال عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے‘۔
انہوں نے ریاستوں پر زور دیا کہ وہایسے اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہوں جو عدم استحکام پیدا کرنے والے استعمال کو روکیں اور پہلے سے ہی حفاظتی اقدامات اختیار کریں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان مئی میں 4 روزہ فوجی تصادم کا حوالہ دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس تنازعے کے دوران ’ایک ایٹمی طاقت نے خودکار اسلحہ اور تیز رفتار دہری صلاحیت رکھنے والے کروز میزائل دوسرے ملک کے خلاف استعمال کیے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے آئی کس قدر خطرناک ہو سکتی ہے‘۔
انہوں نے خبردار کیا کہ بدلتے ہوئے جنگی مستقبل میں ’اے آئی طاقت کے استعمال کی رکاوٹ کو کم کرتی ہے اور جنگ کو سیاسی و عملی طور پر زیادہ ممکن بناتی ہے‘۔
وزیردفاع نے کہا کہ اے آئی فیصلہ سازی کے وقت کو محدود کرتی ہے جبکہ سفارت کاری اور کشیدگی کم کرنے کی گنجائش کو تنگ کرتی ہے، خواجہ آصف نے کہا کہ ’اے آئی میدانِ جنگ کی سرحدیں دھندلا دیتی ہے اور سائبر، فوجی اور معلوماتی اثرات کو غیر متوقع انداز میں یکجا کر دیتی ہے‘۔

انہوں نے زور دیا کہ اے آئی کو ’تصادم اور عدم استحکام‘ کے بجائے’امن و ترقی کے فروغ‘ کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہمیں جنگ اور امن کے معاملات میں انسانی فیصلے کی بالادستی کو محفوظ رکھنا ہوگا، تاکہ ذہین مشینوں کے دور میں بھی ایجادات اخلاقی اور انسانی اصولوں کے مطابق رہیں‘۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’خوراک کی کمی، بارودی سرنگوں کی صفائی اور تشدد کے واقعات روکنے جیسے شعبوں میں اے آئی مددگار ہو سکتی ہے، تاہم اگر اس پر قدغن نہ لگائی گئی تو یہ ہتھیار بھی بن سکتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی اب کوئی دور کی بات نہیں رہی، یہ یہاں موجود ہے، روزمرہ زندگی، معلوماتی دنیا اور عالمی معیشت کو تیز رفتاری سے بدل رہی ہے، تاہم ایجاد انسانیت کی خدمت کرے، اسے نقصان نہ پہنچائے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ نے ’اے آئی پر بین الاقوامی سائنسی پینل‘ اور ’اے آئی گورننس پر عالمی مکالمہ‘ قائم کیا ہے، انہوں نے کہا کہ انسانیت کی تقدیر کسی الگورتھم پر نہیں چھوڑی جا سکتی کیونکہ زندگی اور موت کے فیصلوں میں اختیار ہمیشہ انسانوں کے پاس ہونا چاہیے۔
اسی ضمن میں انہوں نے کونسل اور رکن ممالک سے اپیل کی کہ ’طاقت کے ہر استعمال میں انسانی کنٹرول اور فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائے‘۔
انتونیو گوتیریس نے مزید کہا کہ ’ایسے خودکار مہلک ہتھیاروں پر مشمتل سسٹمز پر پابندی ہونی چاہیے جو انسانی کنٹرول کے بغیر کام کرتے ہیں، اور اس کے لیے 2026 تک ایک قانونی معاہدہ ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ بھی انسانوں کے پاس ہونا چاہیے، مشینوں کے پاس نہیں‘۔
سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ ’جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول سے لے کر ہوابازی کی حفاظت تک، عالمی برادری نے ہمیشہ قوانین بنا کر، ادارے قائم کر کے اور انسانی وقار کو یقینی بنا کر ان ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کیا ہے جو ہمارے معاشروں کو غیر مستحکم کر سکتی تھیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اے آئی کو امن، انصاف اور انسانیت کے لیے ڈھالنے کے لیے وقت تیزی سے کم ہو رہا ہے، ہمیں تاخیر کیے بغیر عمل کرنا ہوگا‘۔
یہ پیش رفت گوگل کی جانب سے پاکستان سمیت 40 مزید ممالک میں ’گوگل اے آئی پلس پلان‘ شروع کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔
پاکستان میں گوگل کے کنٹری ڈائریکٹر فرحان قریشی نے ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستان کا ڈیجیٹل منظرنامہ متحرک اور تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اور پاکستانیوں نے جس تخلیقی انداز میں اے آئی ٹولز کو اپنایا ہے وہ متاثر کن ہے‘۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے جولائی میں ’نیشنل اے آئی پالیسی 2025‘ کی منظوری دی تھی، اس پالیسی کے تحت 2030 تک 10 لاکھ اے آئی پروفیشنلز تیار کرنے، نجی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے فنڈز قائم کرنے، 50 ہزار شہری منصوبے اور ایک ہزار مقامی اے آئی مصنوعات اگلے 5 برس میں تیار کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ ”ہمارے نوجوان پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ انہیں اے آئی میں تعلیم، ہنر اور مساوی مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے“۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسانی کنٹرول خواجہ ا صف نے مصنوعی ذہانت ہونا چاہیے زور دیا کہ کہ اے ا ئی کرتے ہوئے کرتی ہے سکتی ہے کے تحت کے لیے

پڑھیں:

اے آئی کے باعث جنگیں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں، خواجہ آصف کا مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال پرشدید تحفظات کا اظہار

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2025ء)وزیر دفاع خواجہ آصف نے مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے باعث آئندہ کی جنگیں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں،مصنوعی ذہانت امن کا ذریعہ بنے، ہتھیار نہیں، مصنوعی ذہانت کی عسکریت پسندی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے،اگر اس ٹیکنالوجی کو ذمہ داری سے استعمال کیا جائے، تو یہ جامع ترقی اور مشترکہ خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے، عالمی سطح پر کسی بھی واضح اصولی یا قانونی فریم ورک کی غیر موجودگی میں، مصنوعی ذہانت انقلاب ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا، انحصار کو مزید پیچیدہ، اور امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

سلامتی کونسل میں مصنوعی ذہانت اور عالمی امن و سلامتی مباحثے سے خطاب میں انہوںے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت مصنوعی ذہانت کا امن کیلئے استعمال ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ پاکستان نے رواں سال اپنی پہلی مصنوعی ذہانت پالیسی بنائی ہے۔وزیر دفاع نے مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں جمہوریہ کوریا کی اس اہم اوپن ڈیبیٹ کے انعقاد کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔

یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ صدر لی جے میونگ ذاتی طور پر ہماری ان مشاورتوں کی صدارت فرما رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت حیرت انگیز رفتار سے ہماری دنیا کو بدل رہی ہے،یہ ہماری عصرِ حاضر کی سب سے اہم ٹیکنالوجی ہے، جو ایک طرف ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے، تو دوسری جانب عدم مساوات میں اضافے اور عالمی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا بھی سبب بن سکتی ہے،اگر اس ٹیکنالوجی کو ذمہ داری سے استعمال کیا جائے، تو یہ جامع ترقی اور مشترکہ خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے لیکن عالمی سطح پر کسی بھی واضح اصولی یا قانونی فریم ورک کی غیر موجودگی میں، مصنوعی ذہانت انقلاب ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا، انحصار کو مزید پیچیدہ، اور امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر منظم اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت غلط معلومات پھیلانے، سائبر حملوں، اور مہلک ہتھیاروں کی نئی اقسام کی تیاری میں استعمال ہو سکتی ہے، مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال میں تیزی، جیسے خودکار ہتھیار اور مصنوعی ذہانت پر مبنی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جولائی 2025 میں اپنی پہلی قومی مصنوعی ذہانت پالیسی متعارف کرائی۔

یہ ایک انقلابی فریم ورک ہے جو مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر کی تعمیر، ایک ملین افراد کی تربیت، اور مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ و اخلاقی استعمال کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس پالیسی میں چھ ستونوں کو بنیاد بنایا گیا ہے، جن میں جدت طرازی، عوامی شعور، محفوظ نظام، شعبہ جاتی اصلاحات، بنیادی ڈھانچہ اور بین الاقوامی شراکت داری شامل ہے،پاکستان نے 17 جون 2025 کو اسلام آباد میں عسکری میدان میں مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال کے عنوان سے علاقائی مشاورت کا انعقاد بھی کیاجس میں جمہوریہ کوریا، نیدرلینڈز اور اسپین نے اشتراک کیا،ہم اس شعبے میں کوریا اور نیدرلینڈز کی قیادت کو سراہتے ہیں،مصنوعی ذہانت کا انقلاب ایک ایسے بین الاقوامی ماحول میں برپا ہو رہا ہے جہاں اقوام متحدہ کے چارٹر پر دباؤ ہی؛ طاقت کے استعمال کو معمول بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ہتھیاروں کے کنٹرول کے نظام کمزور پڑ رہے ہیں،اسٹریٹجک مسابقت میں شدت آ رہی ہی؛ اور تکنیکی فرق وسیع تر ہو رہا ہے۔

ایسے حالات میں مصنوعی ذہانت کی عسکریت پسندی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے، مساوی سلامتی کے اصول کو مجروح کرتی ہے، اور اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی میں پہلی مرتبہ ایک جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک نے دوسرے کے خلاف خودکار ہتھیاروں اور دوہرے استعمال والے تیز رفتار کروز میزائل استعمال کیے،ان واقعات نے جنگ کے مستقبل سے متعلق سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ تین باتیں واضح ہو چکی ہیں،اول تو یہ کہ مصنوعی ذہانت طاقت کے استعمال کی حد کو کم کر دیتا ہے اور جنگ کو سیاسی و عملی طور پر زیادہ ممکن بناتا ہے،دوم مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی کے وقت کو محدود کر دیتا ہے، جس سے سفارت کاری اور کشیدگی کم کرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے اور سوم یہ کہ مصنوعی ذہانت مختلف میدانوں کی سرحدیں ختم کر دیتا ہے سائبر، عسکری اور معلوماتی اثرات آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں، جس کے نتائج غیر متوقع ہوتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمارا مشترکہ لائحہ عمل اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے،اقوام متحدہ کا چارٹر اور بین الاقوامی قوانین مصنوعی ذہانت کی تیاری اور استعمال پر مکمل طور پر لاگو ہونے چاہئیں؛ انسانی کنٹرول کے بغیر استعمال کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ مصنوعی ذہانت اور جوہری ہتھیاروں کے باہمی اثرات پر اسٹریٹجک مکالمہ ضروری ہے تاکہ غلط فہمیوں اور غلط فیصلوں سے بچا جا سکے۔

انہوںنے کہاکہ ریاستوں کو ایسے اقدامات پر متفق ہونا چاہیے جو غیر مستحکم استعمال اور پیشگی حملوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے صلاحیت، وسائل اور رسائی حاصل ہونی چاہیے،مصنوعی ذہانت کو جبر یا ٹیکنالوجیکل اجارہ داری کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ مصنوعی ذہانت گورننس کو اقوام متحدہ کے نظام کی قانونی حیثیت میں لنگر انداز ہونا چاہیے،اسٹریٹجک فائدے کو اجارہ داری کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی؛ پائیدار راستہ صرف باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہے۔

خواجہ آصف نے کہاکہ مصنوعی ذہانت کی ترقیاتی جہت نہایت اہم ہے، جنرل اسمبلی کی قرارداد 78/311 ظ جسے چین نے پیش کیا ظ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جو مصنوعی ذہانت صلاحیت سازی کے لیے پہلا متفقہ عالمی خاکہ فراہم کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان سالانہ مصنوعی ذہانت گورننس ڈائیلاگ اور بین الاقوامی سائنسی پینل کے قیام کا خیر مقدم کرتا ہے، اور اقوام متحدہ کے تحت مزید صلاحیت سازی کے مواقع کو فروغ دینے کا خواہاں ہے،ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ مصنوعی ذہانت ترقی اور امن کے لیے استعمال ہو، نہ کہ جنگ اور عدم استحکام کیلئے۔

انہوںنے کہاکہ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا مصنوعی ذہانت نظام تشکیل دیں جو شمولیتی، منصفانہ اور مؤثر ہو،ہمیں جنگ و امن کے معاملات میں انسانی فیصلے کی بالادستی کو برقرار رکھنا ہو گا تاکہ ذہین مشینوں کے اس دور میں بھی ہماری پیش رفت، اخلاقیات اور انسانیت کے اصولوں کی رہنمائی میں ہو۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا اقوام متحدہ سے مصنوعی ذہانت کو ضابطہ اخلاق میں لانے کا مطالبہ، فوجی استعمال پر سخت انتباہ
  • اے آئی کے باعث جنگیں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں، خواجہ آصف کا مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال پرشدید تحفظات کا اظہار
  • مستقبل کی جنگیں مصنوعی ذہانت کے باعث نہایت خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔خواجہ آصف
  • مصنوعی ذہانت کے باعث آئندہ کی جنگیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں: خواجہ آصف
  • اقوام متحدہ کے نظام کی قانونی حیثیت میں ہی اے آئی گورننس کی بنیاد ہونی چاہیے: خواجہ آصف
  • مصنوعی ذہانت امن کا ذریعہ بنے، ہتھیار نہیں، خواجہ آصف
  • پاکستان کی فارما صنعت میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کا آغاز
  • بوئنگ اور پیلنٹیئر کا دفاعی پیداوار میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر اشتراک
  • سپین کے وزیر اعظم کا فلسطینی ریاست کو اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا مطالبہ