Jasarat News:
2025-09-26@00:47:02 GMT

ایمان کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایمان جب اس بلندی پر پہنچ جاتا ہے اور دلوں میں اس طرح جاگزیں ہوجاتا ہے تو انسان کی زندگی پر اس کے اثرات نظر آنے لگتے ہیں۔ کیونکہ ایمان کسی جامد چیز کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ انسانی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ دن سے زیادہ روشن و تابناک ہوتے ہیں، مثلاً:
ایمان کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کو اپنی سعادت اور لازوال انعام سے محبت ہوجاتی ہے، ایسی محبت جو اس کی رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر ومدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہوتے ہیں جیسی گرویدگی اللہ کے ساتھ ہونی چاہیے مگر اہلِ ایمان سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘ (البقرہ: 165)۔
ایمان کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ مومن وہ راحت وسکون محسوس کرتا ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی شقاوت کا احساس تک نہیں ہوتا، تعذیب کا کوئی ڈھنگ ان کے عقیدے کو متزلزل نہیں کرپاتا۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! میں تجھے ذلیل کرکے رہوں گا۔ بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا: ذلت، تمھارے اختیار میں نہیں ہے۔ اس نے حیرت سے پوچھا: کیوں؟ جواب دیا: میری سعادت، میرے ایمان میں ہے اور ایمان دل میں ہوتا ہے اور دل پر کسی کا زور نہیں چلتا۔
یہ وہ ایمان ہے جو صرف حقیقی مومن کو حاصل ہوتا اور ہوسکتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قید کی مشقت ان پر طویل ہوگئی، تو ان کے شاگرد ان کی مزاج پُرسی کے لیے گئے اور رہائی کی کوششیں کرنے لگے۔ جب امام صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو کہا: ’’قید کو مَیں خلوت گاہ، قتل کو شہادت اور جلاوطنی کو سیاحت تصور کرتا ہوں اور یہ سب تزکیۂ نفس کے انعامات ہیں‘‘۔
اللہ اکبر! یہ ہے ایمان کی حقیقت جس کے ساتھ مصائب و مشکلات بھی نعمت و راحت محسوس ہوتے ہیں اور بڑے بڑے غم و اندوہ سے انسان لذت گیر اور راحت محسوس کرتا ہے۔ کتنی سچی اور پیاری بات اللہ کے رسولؐ نے فرمائی کہ: ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا ہر معاملہ خیر ہے۔ نعمتیں ملتی ہیں تو سجدئہ شکر بجا لاتا ہے اور جب مصائب آتے ہیں تو جادئہ صبر پر قائم رہتا ہے۔ (مسلم)
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ان بادشاہوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمیں ایمان میں کتنی لذت ملتی ہے تو وہ ہمیں قتل کرا دیں‘‘۔
ایمان کا ایک اور اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے مومن اپنے ربّ کا عزیز بن جاتا ہے اور اسے اپنی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی نگاہ میں کوئی اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اس کی عزّت و شوکت مخلوق سے نہیں بلکہ اللہ سے وابستہ ہے جو عزیزوں کا عزیز ہے۔

حقیقی ایمان کے نتیجے میں مومن کو وہ شجاعت نصیب ہوتی ہے جس کے سامنے بڑے بڑے جابرو ظالم سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں ساری مصیبتیں ہیچ ہوتی ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘ (التوبہ: 111)۔
ان سب کے ساتھ ایمان کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ پھر بندئہ مومن اللہ کی راہ میں اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اور آخری قطرئہ خون تک بہا دینے میں دریغ نہیں کرتا۔ مال سے جہاد کرتا ہے اور اپنی ساری دولت ایمان کے راستے میں نچھاور کردیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ جنّت اسی میں ہے۔
ہمارے سامنے بہت سی آیات اور بکثرت احادیث ہیں جن سے ہم حقیقی ایمان سے آشنا ہوسکتے ہیں۔ ان آیات و احادیث کو بار بار پڑھنا چاہیے کہ ہم بھی مومنین صادقین کی صف میں شامل ہوجائیں۔

حسن البنا شہیدؒ گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہوتا ہے کہ ایمان کا ہوتے ہیں ہے اور ا اللہ کے کرتا ہے ا ہے کہ اثر یہ

پڑھیں:

اللہ تو ضرور پوچھے گا !

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کے کٹھ پتلی حکمران اور کچھ کریں نہ کریں چوری چھپے معاہدے کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ ویسے ماہر تو وہ ہر اس چیز میں ہیں جس سے ان کی جیبیں اور بینک بیلنس ڈالروں سے بھرتے رہیں۔ ویسے بھی تمام معاہدے عوام ہی کے مفاد میں تو کیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام ان کے ثمرات دیکھنے میں سالوں گزار دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا آ رہا ہے۔

ہاں کبھی کبھار کچھ دینی اور سیاسی جماعتوں کی رگِ غیرت پھڑکتی ہے تو وہ احتجاج بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن آخر کار کچھ شور شرابہ کرکے چپ سادھ لیتے ہیں۔ انہیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں ان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے گا۔ یہ خاموشی اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ کوئی زلزلہ یا طوفان جیسی بڑی آفت لوگوں کو دوبارہ سے نہیں جھنجوڑ ڈالتی۔ اس دوران جب حکومتی رویہ غیر ذمہ دارانہ رہتا ہے اور عوام کو کسی قسم کی امداد نہیں ملتی تو یہی عوام غصے میں بھرے جتنا برا بھلا حکومت وقت کو کہہ سکتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ لیکن جب ملک کی مختلف فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی طرف سے بھرپور امداد کے بعد جب دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اور سیلاب کا پانی بھی خود ہی خشک ہو جاتا ہے تو تب تک لوگوں کا غصہ بھی رفو چکر ہو چکا ہوتا ہے اور دوسری طرف عوام کے خیر خواہ سیاستدان بیرونی امداد سمیٹے اور ہضم کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی دوسری آفت عوام کو اپنے شکنجے میں نہیں لے لیتی۔ اب ایک اور معاہدہ جو منظر عام پر آیا ہے وہ سعودی حکومت اور پاکستان کے درمیان طے پایا ہے اور حکومتی درباری اس کی خوشیاں منا رہے ہیں۔عوام حج عمرہ کر کے ثواب پر ثواب کما رہے ہیں اور ہمارے حکمران حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ ملنے پر دنیا اور آخرت کی فلاح سمیٹنے کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں۔

 کاش ان جاہلوں کو معلوم ہو کہ حرمین شریفین کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ رب العزت نے خود اٹھا رکھا ہے۔ ان مسلم حکمرانوں پر جتنی ذمہ داریاں اللہ نے ڈالی تھیں یہ اس کو ہی پورا کر دیتے تو بڑی بات تھی۔ فلسطین کے معاملے کو لے کر پاکستان اور امت مسلمہ کا کردار تو سب پر ہی عیاں ہے۔ سعودی حکمرانوں کے بارے میں تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ یہود و نصاری کے حمایت یافتہ ہیں اور اس کا تو صاف مطلب ہے کہ اگر وہ امریکہ کے دوست ہیں تو پاکستان کو بھی امریکہ کی ہی ہر بات ماننی پڑے گی۔ ویسے تو پاکستان کی حکومت پہلے ہی اُسے اپنا آقا بنائے بیٹھی ہے۔ بہرحال یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ معاہدہِ ابراہیم کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حمایتیوں نے اہلِ فلسطین کو ان حالوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھلم کھلا انداز میں حکومتِ پاکستان کا کردار سامنے آئے گا۔

حکومتی اہلکار کس قسم کی تحسین کے حقدار بن رہے ہیں اور کس بات کی خوشیاں منا رہے ہیں؟ بے بس، مظلوم اور نہتے فلسطینیوں تک خوراک تو پہنچا نہیں سکے چلے ہیں اللہ کے گھر کی حفاظت کرنے۔ اس معاہدے کے پسِ منظر میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے کوئی ہے جو اس پر سوال اٹھائے؟ بھانت بھانت کی مذہبی و سیاسی جماعتیں، اور فلاحی تنظیمیں مل کر بھی حکومت پر ذرہ برابر بھی دباؤ نہ ڈال سکیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں، واقعی دل پتھر کے تو ہو گئے ہیں۔ ایٹم بم کا راگ الاپنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو مسلم حکمرانوں سے پوچھے کہ کیا خانہ کعبہ کا خدا کوئی اور ہے اور نبیوں کی سرزمین اور مسجدِ اقصیٰ کا خدا کوئی اور ہے؟ یہ حکمران عوام کو تو جواب نہیں دیں گے لیکن اللہ کو تو جواب دینا ہی پڑے گا۔

فوزیہ تنویر

متعلقہ مضامین

  • تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
  • ہم کہاں سرکار جائیں آپؐ کے ہوتے ہوئے۔۔۔!
  • آخر کوٹ کی آستینوں میں یہ اضافی بٹن کیوں موجود ہوتے ہیں؟
  • غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟
  • آئی ایم ایف جائزے میں سیلاب کے اثرات کو بھی شامل کرے، قرض مسئلہ کا حل نہیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین متاثر: شہباز شریف
  • قیلولہ کرنے کے بعد درد کیوں ہوتا ہے؟
  • اللہ تو ضرور پوچھے گا !
  • ایمان مزاری ایڈووکیٹ اور انکے شوہر ہادی علی چھٹہ کو راہداری ضمانت مل گئی
  • جب دن اور رات برابر ہو جائیں تو یہ کس بات کا اعلان ہوتا ہے؟