سید مقاومت۔۔۔۔۔ مکین قلوب
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سید مقاومت، شہید مقاومت، سردار عرب و عجم سید حسن نصراللہ ہر غیرت مند، ہر دردمند، ہر مظلوم، ہر مقاوم، ہر مزاحمت کار، ہر ولائی، ہر حسینی، ہر کربلائی کے دل میں مکین ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والوں کو ان دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ شہادت پا کر فتح مند ہیں۔ وہ ٹنوں کے حساب سے بارود جھیل کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی فکر زندہ ہے، ان کا نظریہ زندہ ہے، ان کا راستہ زندہ ہے، ان کا ہدف زندہ ہے، ان کا رہبر زندہ ہے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا ۞ "مومنوں میں کچھ ایسے (ہمت والے) مرد ہیں، جنہوں نے اس عہد کو سچا کر دکھایا، جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا۔ سو ان میں سے بعض نے (شہید ہوکر) اپنی نذر پوری کردی اور ان میں سے بعض منتظر ہیں اور انہوں نے (اپنے وعدہ میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔" وہ جب گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ وارث منبر سلونی کی صدا ہے، جو دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کے الفاظ، ان کا انداز، ان کی حرکیات، ان کے گفتگو کے اشارے ہر ایک تو بغور دیکھے، سمجھے جاتے اور ان کے مطالب نکالے جاتے، ان کی تشریحات کی جاتیں، ان کی ہر ایک بات، ہر ایک جملہ کی تفسیریں کی جاتیں۔۔۔ کبھی ایسا ہوتا کہ وہ سید الشہداءؑ کے مصائب بیان کرتے ہوئے گریہ کی کیفیت میں دکھائی دیتے، جبکہ ایک جہادی تنظیم کے سربراہ کے طور پر ان کا آنسو بہانا شاید بہت سوں کے نزدیک دشمن کو خوش کرنے کا موقع دینا سمجھا جاتا ہے، مگر یہ ان کی فکر باطل ہے، اس لیے کہ وہ جن کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے تھے، وہ خود کئی ایک بار شہدائے کربلا کا تذکرہ گریہ کیساتھ کرتے اور سنتے ہیں۔
ان کی شخصیت کا اس سے بڑا اثر اور کیا ہو کہ وہ دنیا میں رہبر معظم امام خامنہ ای کے بعد دوسری شخصیت تھے، جن کے الفاظ کی قدر، ان کی منزلت، ان کی ارزش، ان کی اہمیت اور اثر پذیری تھی۔ ایسی ہی اثرپذیری و صداقت و سچائی جیسی ولی امر المسلمین کے الفاظ کی ہے، وہ ولی امر المسلمین کی طرح ایک آس تھے، ایک امید تھے، ایک اعتماد تھے، ایک آسرا تھے۔۔۔ جن لوگوں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی۔۔۔ کیساتھ کام کیا ہے، ان سے وابستہ رہے ہیں، وہ اس دور کو یاد کریں تو میری اس بات کو بخوبی سمجھ اور درک کرسکتے ہیں۔ شہید مقاومت کی شخصیت پوری دنیا کے مقاومین کیلئے ایک اعتماد، ایک قرار، ایک امید، ایک یقین کی مانند تھی۔ اللہ نے انہیں جو عزت و شرف عطا کیا تھا، وہ کسی اور کے حصہ میں شاید ہی آئے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔۔ "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ" ﴿۲۹﴾انفال "اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔"
سید حسن نصراللہ نے اپنا عہد نبھایا، وہ عہد نبھانے والوں میں سے تھے، ان کا خالص ہونا، وہ تقویٰ کی اس منزل پہ فائز تھے، جہاں پر اللہ کریم اپنے متقی بندوں کو فرقان عطا کرتا ہے۔ فرقان یعنی حق و باطل میں تمیز، یعنی غلط و صحیح کا ادراک۔ لوگ ساری عمر گزار دیتے ہیں اور انہیں حق کے رستے کی پہچان و معرفت نہیں ہوتی، وہ اس راستے کی نا فقط معرفت رکھتے تھے بلکہ اس پر گامزن تھے اور اسی کے داعی تھے۔ ان کی ہر گفتگو، ہر تقریر، ہر خطاب میں ولایت فقیہ کا درس، اس سے تمسک، اس سے توسل اور اس سے برملا مرتبط ہونا ظاہر ہوتا تھا، جبکہ ہمارے ہاں لوگ اس کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں بلکہ ولی فقیہ کے اختیارات، ان کے مختلف ایشوز پر انہیں مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ سید مقاومت ایسے نا تھے، وہ ولی امر المسلمین کے مطیع تھے۔ انہوں نے اپنی جماعت اور لبنانی قوم کو جس مقام پر پہنچایا، اس کی بدولت انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
بلا شبہ ان کی قربانی اہل فلسطین کیلئے تھی، وہ ہمیشہ ارض مقدس فلسطین کی ناجائز قابض اسرائیل سے آزادی کے متمنی اور اس کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم رکھتے تھے اور اسی پر گامزن تھے۔ جو شخص اسرائیل، جسے دنیا ایک عالمی طاقتور فوجی ریاست سمجھتی ہے، جس کے سامنے عرب و عجم لیٹ چکے ہوں، اس کی حیثیت مکڑی کے کمزور جالے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کو عملی طور پر سید نے ثابت بھی کیا۔ کئی ایک ایسے مواقع ان کی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں، جب انہوں نے اپنے اس خیال و قول کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ بالخصوص قیدیوں کی رہائی کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے وقت تو اسرائیل کی بے بسی کا تماشا بارہا دیکھا گیا۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی عجیب شخصیت تھی کہ وہ کسی حکومتی عہدے پر فائز نا تھے، مگر جب ان کا بیروت میں خطاب ہونا ہوتا تو اعلیٰ حکومتی عہدیدار، بعض ممالک کے سفیر، دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہ و سیاسی شخصیات فرنٹ لائن میں تشریف فرما ہوتے۔ در حالی کہ یہ خطاب اکثر اوقات کسی خفیہ مقام سے لائیو ہوتا تھا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہو کس قدر موثر و موثق تھے۔سید حسن نصراللہ شہید جنہیں آج بھی شہید لکھتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے، عالم جوانی میں جب حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے، تب سے وہ اسرائیل و معاون ممالک و ایجنسیز کے نشانہ پر تھے۔ اللہ نے انہیں بارہا قاتلانہ حملوں اور سازشوں سے محفوظ رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ جہاد و شہادت کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کیلئے شہادت کا تاج سر پر سجانا ہمیشہ زندگی کا اولین مقصد و خواہش ہوتی ہے۔ اس راہ کے راہی اس کیلئے تڑپتے ہیں، دعا و مناجات کرتے ہیں۔ نا وہ گھبراتے ہیں، نا ڈرتے ہیں، نا راستہ سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ اس کے باوجود شخصیات کا چلے جانا تحریکوں، تنظیموں اور انقلابوں کیلئے کسی بھی طور سود مند نہیں ہوتا۔ بعض شخصیات اس مقام و منزلت پر فائز ہوتی ہیں کہ ان کا وجود مبارک ہی بہت سی برکات و الطاف الہیٰ کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا نورانی وجود ہر ہر لمحہ تاریک راہوں میں روشن دیئے کی مانند راستہ بھٹکنے سے بچاتا ہے۔
سید حسن نصراللہ شہید کیلئے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم سب راہ استقامت، راہ القدس، راہ مقاومت کے راہی ان کے قدموں کے نشانوں پر چلتے ہوئے تاریک راستوں میں چل رہے تھے کہ ان کے وجود کو ناپید پایا ہے۔ ایک بار تو ہمیں ایسا لگا کہ منزل کھو دینگے، راستہ سے بھٹک جائیں گے، تاریکی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پائوں مارتے مارتے ہمیں قرآن مجید کی آیہ مبارکہ کانوں میں پڑتی ہے۔ فرمان الہیٰ ہے: "یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ" ﴿۳۲﴾ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا، مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے، اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔" اور پھر دوسری آیہ کریمہ۔۔ "وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ"، "اور نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کھاؤ، اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔" (سورہ آل عمران) اور یہ شعر بھی یاد آرہا ہے۔۔
قتل کرنا سہل سمجھے ہیں مرا صاحب چہ خوش
یہ نہیں سمجھے، دو عالم خوں بہا ہو جائے گا
بھلا کربلا کے اس حقیقی وارث کے جسم پر ٹنوں کے حساب سے بارود ڈالنے سے کیا ان کو دفن کرسکے ہیں، ہرگز نہیں، جس شان کے ساتھ سید کا جنازہ اٹھا، جس عظمت و سربلندی کیساتھ انہیں رخصت کیا گیا، جس محبت کیساتھ ان کی تدفین و تشیع ہوئی، بھلا وہ کسی کو نصیب ہوئی ہے۔
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
سید مقاومت، شہید مقاومت، سردار عرب و عجم سید حسن نصراللہ ہر غیرت مند، ہر دردمند، ہر مظلوم، ہر مقاوم، ہر مزاحمت کار، ہر ولائی، ہر حسینی، ہر کربلائی کے دل میں مکین ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والوں کو ان دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ شہادت پا کر فتح مند ہیں۔ وہ ٹنوں کے حساب سے بارود جھیل کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی فکر زندہ ہے، ان کا نظریہ زندہ ہے، ان کا راستہ زندہ ہے، ان کا ہدف زندہ ہے، ان کا رہبر زندہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سید حسن نصراللہ سید مقاومت انہوں نے زندہ ہے اور ان اور اس
پڑھیں:
اعتقادی اور عملی کفرو شرک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کفرو ایمان، شرک و توحید، بدعت و سنت کا باہمی تعلق تو اضداد پر مبنی ہے۔ لیکن قرآن و سنت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک ہی شخص میں بعض اوقات توحید کے ساتھ شرک، سنت کے ساتھ بدعت، ایمان کے ساتھ کفر، فسق و معصیت کے ساتھ طاعت و تسلیم بیک وقت جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی شخص میں باہمی متضاد ان چیزوں کا اجتماع ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ خود رسولؐ کے دور میں ایسی شخصیات کا وجود پایا جاتا تھا، جن میں یہ تضادات جمع تھے اور آپؐ نے ایمان و توحید، سنت اور طاعت و تسلیم کو ان کے کفر وشرک، بدعت، فسق و معصیت پر ترجیح دی اور اس کی اصل وجہ اور بنیاد، دو باتیں تھیں:
اوّل یہ کہ ’کفر‘ کا لفظ کتاب و سنت میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے: 1-ایمان و توحید کی ضد و مقابل۔ عام طور پر قرآن و سنت میں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ 2-کفرانِ نعمت، شکر کی ضد و مقابل۔ اس مفہوم میں بھی قرآن میں استعمال ہوا۔ 3-اعلان برأت و لاتعلقی،4-بمعنی انکار و جحود5-پردہ پوشی و ستر چھپانا۔ یہ کفر کا عربی زبان میں اصل اور بنیادی مفہوم ہے۔
دوم یہ کہ شرعی کفر جس سے آدمی دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتا ہے وہ صرف کفر اکبر ہوتا ہے نہ کہ کفر اصغر۔ اور یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آپؐ نے اعتقادی کفر وشرک، اور عملی کفر وشرک اور بدعت و معصیت میں فرق کیا۔ منافقین کے ساتھ آپؐ کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے کہ ان میں کفروشرک اور معاصی کا وجود ایک حقیقت تھی، لیکن دوسری طرف وہ بیش تر ظاہری اعمال: نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ میں عملی طور پر مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے تھے۔ اس لیے نبیؐ نے ان کو مسلمان شمار کر کے ان کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ کیا۔ آں حضوؐر کا یہ فرق ملحوظ رکھنا شریعت کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:
”اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ پھر ہم نے ان پیغمبروںؑ کے بعد مریمؑ کے بیٹے عیسٰی ؑ کو بھیجا۔ تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خداترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں“ (المائدہ: 45-47)۔
ان آیات میں، اپنے جھگڑوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام و قوانین کے مطابق نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اگر ظاہری مفہوم کو لیا جائے تو: ’’موجودہ زمانے میں اکثر مسلم ممالک کا عدالتی نظام اور قوانین نوآبادیاتی زمانے میں سامراجی حاکموں سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے وہ دائرۂ ملّت سے خارج اور باہر ہوجاتے ہیں‘‘۔ اکثر تکفیریوں کا یہی موقف ہے کہ: ’’مسلم ممالک کے حکمران دائرۂ ملّت سے خارج ہیں، اسی لیے ان کے خلاف جہاد و لڑائی واجب ہے‘‘۔ لیکن ان کا یہ موقف اس لیے درست نہیں کہ انھوں نے عملی اور اعتقادی کفر میں فرق نہیں کیا، حالانکہ یہ فرق نصوص نے کیا اور صاحب ِوحیؐ نے قدم قدم پر اس کو ملحوظ رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی مکہ مکرمہ اور مشہور مفسر تابعی حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
ان آیات میں وہ کفر مراد نہیں، جس کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن جاتا ہے، اور اس سے وہ کفر بھی مراد نہیں جو دائرۂ ملّت سے خارج کردیتا ہے، بلکہ بڑے کفر سے کم درجے کا کفر، ظلم اور فسق مراد ہے۔
ڈاکٹر عصمت اللہ
گلزار