بیجنگ: چین نے دنیا بھر کے نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے خصوصی ’’K ویزا‘‘ متعارف کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ ویزا یکم اکتوبر سے نافذ ہوگا۔

چینی حکام کے مطابق ’’K ویزا‘‘ کے تحت اہل افراد کو تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، ثقافت اور کاروباری تحقیق کے شعبوں میں کام کرنے اور بار بار آمد و رفت کی سہولت دی جائے گی۔ اس کے لیے کسی مقامی آجر یا ادارے کے دعوت نامے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔

یہ اقدام عالمی سائنسی ٹیلنٹ کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ حال ہی میں امریکی صدر نے ایچ ون بی ورک ویزا کی فیس میں بے تحاشا اضافہ کرتے ہوئے اسے سالانہ ایک لاکھ ڈالر مقرر کردیا تھا، جس کے بعد نئی پالیسی نافذ ہوچکی ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکا کے سخت فیصلے کے بعد چین کا ’’K ویزا‘‘ جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر کے نوجوان ٹیلنٹ کے لیے ایک پرکشش متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟

امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز

دنیا بھر میں ہنر مند افراد کے لیے مواقع حاصل کرنے کی دوڑ ہمیشہ جاری رہی ہے۔ کبھی امریکا اس میدان میں سب سے آگے تھا، لیکن اب چین بھی اپنی پالیسیوں کے ذریعے بڑی تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکا نے اپنے مشہور ایچ ون بی ویزا کی فیس میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے، جبکہ چین نے ایک نیا اور سہل پروگرام ’کے ویزا‘ لانچ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

چین دنیا کے بہترین ٹیلینٹ، بہترین دماغوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ اس صورتحال نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے، دونوں میں اصل فرق کیا ہے؟ امریکا کا ایچ ون بی ویزا زیادہ موثر ہوگا یا لوگ چین کے ”کے ویزا“ کو کیوں ترجیح دے سکتے ہیں؟

امریکا کا ایچ ون بی ویزا 1990 میں متعارف ہوا تھا۔ اس کا مقصد دنیا بھر سے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کو امریکا میں ملازمت کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس ویزے کے تحت ہر سال 65 ہزار افراد کو اجازت دی جاتی ہے جبکہ امریکی تعلیمی اداروں سے ماسٹرز کرنے والے مزید 20 ہزار امیدواروں کے لیے خصوصی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یہ ویزے سب سے زیادہ بھارتی اور چینی شہریوں کو ملتے ہیں، لیکن بھارتی شہری سب سے آگے ہیں۔

اگرچہ یہ ویزا ہنر مند افراد کے لیے امریکا جانے کا خواب پورا کرتا رہا ہے، تاہم اب امریکی حکومت نے اس کی لاگت اتنی بڑھا دی ہے کہ کئی کمپنیوں اور درخواست دہندگان کے لیے اسے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اب ہر درخواست دہندہ پر سالانہ ایک لاکھ ڈالر تک فیس لاگو کی جا رہی ہے جو چھ سال تک ادا کرنا ہوگی۔ اس فیصلے نے امریکا آنے والے غیر ملکی ماہرین کے لیے راہیں تنگ کر دی ہیں۔

اس کے برعکس چین نے اگست 2025 میں ”کے ویزا“ کا اعلان کیا جو یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہوگا۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ٹیلنٹ کو راغب کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

’’کے ویزا‘‘کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لیے درخواست دہندگان کو کسی چینی کمپنی، ادارے یا مالک کے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی نوکری کی پیشگی پیشکش لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ کوئی نیا گریجویٹ ہو یا آزاد محقق، وہ براہ راست چین آ کر نوکری تلاش کر سکتا ہے یا اپنا کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ یہ سہولت اسے دیگر موجودہ چینی ویزوں سے منفرد بناتی ہے۔

مزید یہ کہ’’کے ویزا‘‘رکھنے والے افراد کو تعلیم، تحقیق، صنعت اور کاروبار کے میدانوں میں زیادہ آزادی دی گئی ہے۔
اگر دونوں کا تقابل یا موازنہ کیا جائے تو واضح فرق سامنے آتا ہے۔ امریکی ایچ ون بی میں، نہ صرف فیس بہت زیادہ ہے بلکہ اس کے لیے مخصوص کوٹہ بھی مقرر ہے اور درخواست دہندہ کو لازمی طور پر کسی کمپنی کی اسپانسرشپ درکار ہوتی ہے۔

جبکہ اس کے برعکس چین کا ”کے ویزا“ حاصل کرنا زیادہ لچکدار اور سہل ہے۔ اس میں فیس کا بوجھ نہیں، دعوت نامے کی شرط نہیں اور زیادہ اقسام کے مواقع میسر ہیں۔ چین اس پروگرام کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو عالمی ٹیلنٹ کے لیے نہایت پرکشش بنا رہا ہے تاکہ دنیا کے بہترین ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔

چین کی یہ حکمت عملی اس کے حالیہ اقدامات کے ساتھ جڑی ہے۔ اس نے شنگھائی، شینگھن اور دیگر بڑے شہروں میں ہائی ٹیک پارکس قائم کیے ہیں جہاں پرائیویٹ اور سرکاری شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

چین خاص طور پر مصنوعی ذہانت، خلائی ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ سسٹمز اور آئی ٹی کے شعبوں میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں اگر بھارت جیسے ممالک کے انجینئرز اور سائنسدان وہاں منتقل ہوتے ہیں تو چین کو تحقیق اور اختراع میں نئی جان مل سکتی ہے۔

اس سارے منظرنامے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ صرف چین ہی نہیں بلکہ تائیوان جیسے دیگر ایشیائی ممالک بھی ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں، اور چونکہ امریکا نے ویزا پالیسی مشکل اور مہنگی بنا دی ہے، اس لیے ہنر مند افراد نئی منزلوں کی تلاش میں چین اور دیگر ایشیائی ممالک کا انتخاب کر رہے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں ویڈیو ریکارڈنگ پر پابندی عائد کر دی ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں برقی سیڑھی کی خرابی ’سازش‘ قرار دے دی مشرق وسطیٰ کے بحران پر امریکا کا نیا مؤقف، مسلم قیادت کو 21 نکاتی پلان پیش کر دیا پاک سعودیہ معاہدہ مسلم ممالک کے تعاون سے علاقائی سکیورٹی کے جامع نظام کی شروعات ہے: ایرانی صدر کا پہلا رد عمل انڈیا: لداخ میں خودمختاری کے مطالبے پر احتجاج، پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 5 افراد ہلاک ایٹم بم بنانے کی کبھی کوشش کی اور نہ کریں گے، ایرانی صدر انڈونیشیا کا بڑا فیصلہ؛ غزہ میں امن فوج کیلیے 20 ہزار سے زائد اہلکار بھیجنے کا اعلان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • ایران نے اسرائیل کے جوہری منصوبوں اور سائنسدانوں کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرلی
  • ایران اسرائیلی جوہری منصوبوں اور سائنسدانوں کی خفیہ معلومات منظرعام پر  لے آیا
  • سولر پینلز استعمال کرنے والے ہوجائیں خبردار!
  • ملک میں سولر پینلز کے استعمال کا بڑھتا رجحان، ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کر دیا
  • امریکی ’ایچ ون بی‘ کی جگہ چین کا لانچ کردہ ’کے ویزا‘ کیا ہے؟
  • جاپانی ای وی کمپنی نے پسنجرو لاجسٹک رکشہ متعارف کرادیا
  • امریکا کی نئی ویزا پالیسی بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے بڑا دھچکا
  • امریکا نے ایچ-ون بی ویزا قوانین میں نئی پابندیوں کے بعد ترمیم کی تجویز پیش کردی
  • سمندری طوفان ’رگاسا ‘ چین میں داخل، 10 شہروں میں ایمرجنسی نافذ